معروف سیاسی رہنما لطیف آفریدی کا قتل


پشاور میں سینئر قانون دان اور سیاسی و قبائلی راہنما عبداللطیف آفریدی ایڈوکیٹ کو گزشتہ دنوں بار روم کے اندر قتل کر دیا گیا۔ گزشتہ پیر کے روز سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر عبد الطیف آفریدی پشاور ہائیکورٹ کے بار روم میں بیٹھے تھے کہ اس دوران ملزم عدنان سمیع آفریدی ولد سمیع اللہ آفریدی نے آ کر ان پر پستول سے فائرنگ کی جس سے وہ شدید زخمی ہو گئے جنہیں وکلاء نے تشویشناک حالت میں لیڈی ریڈنگ ہسپتال پہنچایا جہاں وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گئے۔ ملزم کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ وہ خود بھی جونیئر وکیل ہے جس کی وجہ سے پستول اپنے ساتھ لے جانے میں کامیاب ہوا جب کہ وکلاء نے واقعہ کو پولیس کی ناقص سکیورٹی انتظامات قرار دیا ہے۔

دریں اثناء عبدالطیف آفریدی کے قتل کے الزام میں پشاور ہائی کورٹ بار روم سے گرفتار ہونے والے ٹرینی وکیل عدنان سمیع کا تعلق ایک تعلیم یافتہ اور معزز خاندان سے بتایا جاتا ہے ان کے والد سمیع اللہ خان ایڈوکیٹ اسامہ بن لادن کی جاسوسی کے الزام میں گرفتار ڈاکٹر شکیل آفریدی کے وکیل تھے اور انہیں مارچ 2015 میں متھرا میں نامعلوم افراد نے قتل کر دیا تھا۔ ملزم عدنان کے ماموں اور انسداد دہشت گردی عدالت کے جج آفتاب خان آفریدی کو بھی ان کی اہلیہ، بہو اور کم سن پوتے سمیت صوابی انٹر چینج پر قتل کیا گیا تھا جس کا دعویٰ لطیف آفریدی کے خلاف کیا گیا تھا۔ ابتدائی تفتیش کے دوران معلوم ہوا ہے کہ ٹرینی وکیل عدنان نے لطیف آفریدی کا قتل ذاتی دشمنی کا بدلہ لینے کی غرض سے کیا ہے تاہم مزید تفتیش میں اس قتل کے محرکات کے بارے میں معلوم ہو سکے گا۔

یاد رہے کہ عبداللطیف آفریدی پہلے پشتون قوم پرست سیاست دان تھے جو سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر منتخب ہوئے۔ آج کل وہ پشتون تحفظ موومنٹ سے جدا ہو کر نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ کے نام سے الگ سیاسی جماعت بنانے والے محسن داوڑ کی اس جماعت میں بطور سینئر لیڈر شامل تھے۔ آپ 1997 کے الیکشن میں اے این پی کے ٹکٹ پر ایم این اے منتخب ہوئے تھے جبکہ 1986 سے 1989 تک عوامی نیشنل پارٹی کے پہلے صوبائی صدر اور 2005 میں اے این پی کے جنرل سیکرٹری رہے۔

آپ پانچ بار سے زائد پشاور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر اور پاکستان بار کونسل کے وائس چیئر مین کے طور پر بھی خدمات انجام دے چکے ہیں۔ عبد اللطیف آفریدی 1943 میں خیبر ایجنسی کے علاقے تیراہ میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے 1966 میں پشاور یونیورسٹی سے ماسٹرز کیا اور دو سال بعد ایل ایل بی کیا انہیں 1964 کے صدارتی انتخابات میں مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کی حمایت کرنے پر پشاور یونیورسٹی سے نکال دیا گیا تھا۔

1979 میں وہ غوث بخش بزنجو کی زیر قیادت پاکستان نیشنل پارٹی میں شامل ہوئے اور اس کے خیبر پختونخوا کے صوبائی صدر بن گئے۔ 1986 میں جب پاکستان نیشنل پارٹی کو عوامی نیشنل پارٹی میں ضم کر دیا گیا تو لطیف آفریدی اس کے پہلے صوبائی صدر بنائے گئے 1997 میں وہ این اے 46 سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔ لطیف آفریدی 30 اکتوبر 2020 کو سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن آف پاکستان کے صدر منتخب ہوئے تھے۔ زمانہ طالب علمی سے قوم پرست نظریہ کے حامل ایڈوکیٹ لطیف آفریدی 2007 میں اجمل خٹک کی سربراہی میں اے این پی سے الگ ہونے والے دھڑے نیشنل عوامی پارٹی میں سرگرم رہے جس کے بعد وہ دوبارہ پارٹی میں شامل ہوئے تھے 2 ستمبر 2019 کو ایمل ولی خان کی ہدایت پر انہیں اے این پی سے نکال دیا گیا تھا اور وہ ان دنوں سیاسی گوشہ نشینی کی زندگی گزار رہے تھے۔

لطیف آفریدی ایک مرنجان مرنج شخصیت کے مالک تھے اور سینئر وکلاء کے ساتھ ساتھ نوجوان وکیلوں میں بھی انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ انہوں نے اپنی ساری زندگی آئین و قانون کی بالادستی، جمہوریت کے فروغ اور پختونوں کے مسائل کو حل کرنے کے لیے وقف کر رکھی تھی۔ وہ قبائلی علاقوں سے ایف سی آر کے خاتمے اور ان علاقوں کے خیبرپختونخوا میں انضمام کے زبردست حامی اور وکیل تھے۔ لطیف آفریدی صوبے کے پہلے سرکردہ سیاسی اور سماجی شخصیت نہیں ہیں جنہیں اس بے دردی سے اور پیرانہ سالی میں قتل کیا گیا ہے بلکہ ان سے پہلے اے این پی سے تعلق رکھنے والے سابق گورنر ارباب سکندر خان خلیل، جو یو آئی کے راہنما اور معروف عالم دین مولانا حسن جان، جے یو آئی (س) کے سربراہ اور ممتاز عالم دین مولانا سمیع الحق، پیپلز پارٹی کے سابق گورنر اور آفتاب شیرپاؤ کے بڑے بھائی حیات محمد خان شیرپاؤ جیسے بڑے سیاسی راہنماؤں کو بھی مختلف واقعات میں قتل کیا جا چکا ہے۔

گو لطیف آفریدی کے قتل کے تانے بانے ان کی ذاتی دشمنی سے جوڑے جا رہے ہیں لیکن جب تک اس حوالے سے عدالت کی معرفت کوئی حقیقت سامنے نہیں آتی تب تک اس واقعے کے بارے میں کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہو گا۔ یہاں ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ ہمیشہ قانون کی پاسداری کا درس دینے والا اور بظاہر ایک امن پسند شخص کسی کے قتل جیسے انتہائی اقدام میں کیسے شریک ہو سکتا ہے اور اگر بالفرض لطیف لالہ اسی دشمنی کے بھینٹ چڑھے ہیں تو ایک امن پسند اور ترقی پسند پختون قوم پرست راہنما کے طور پر انہوں نے اپنی دشمنی کی آگ پر جرگے کے ذریعے قابو پانے کی کوئی کوشش کیوں نہیں کی جس کی ان جیسے روشن خیال رہنما سے بجا طور پر توقع کی جا سکتی تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments