ہماری اشرافیہ اور اس کی معصومانہ عیاشیاں


”ایلون مسک، جو کہ دنیا کے امیر ترین آدمیوں میں سے ایک ہے، نے 2014 سے 2018 تک صرف تین فیصد سے زیادہ ٹیکس ادا کیا۔ دوسری طرف، ایبر کرسٹین ہے جو شمالی یوگنڈا کے بازار میں معمولی سی تاجر ہے اور چاول، آٹا اور لوبیا فروخت کر کے بمشکل اسی ڈالر ماہانہ منافع کماتی ہے اور چالیس فیصد کی شرح سے ٹیکس ادا کرتی ہے۔“

یہ اس رپورٹ کا پہلا جملہ ہے جو آکسفیم نے حال ہی میں شائع کی ہے۔ آکسفیم بین الاقوامی فلاحی اداروں پر مشتمل ایک تنظیم ہے جو دنیا کے نوے سے زائد ممالک میں غربت کے خاتمے کے لیے کام کر رہی ہے۔ اس تنظیم کی رپورٹ نے دنیا میں دولت کی غیر منصفانہ تقسیم کو ایک مرتبہ پھر بے نقاب کر دیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق گزشتہ دو برسوں میں ایک فیصد امیر ترین افراد نے دنیا کی تمام نئی دولت کے تقریباً دو تہائی حصے پر قبضہ کیا، یہ دولت دنیا کی باقی 99 فیصد آبادی سے تقریباً دو گنا زیادہ ہے۔ ارب پتیوں کی دولت میں یومیہ 2.7 بلین ڈالر کا اضافہ ہو رہا ہے، کھانا بنانے اور توانائی کی کمپنیوں نے 2022 میں اپنے منافع کو دوگنا کیا اور اپنی کمپنی کے دولت مند حصہ داروں کو 257 بلین ڈالر کا منافع ادا کیا، جبکہ اسی دوران دنیا کے اسی کروڑ سے زیادہ افراد رات کو بھوکے سوئے۔

دنیا میں امرا اپنی دولت پر جتنا ٹیکس دیتے ہیں اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ہر ایک ڈالر جو ٹیکس کی مد میں اکٹھا ہوتا ہے اس میں سے صرف چار سینٹ دولت ٹیکس کے ہوتے ہیں جبکہ دنیا کے نصف ارب پتی ایسے ممالک میں رہتے ہیں جہاں انہیں وراثت پر کوئی ٹیکس نہیں دینا پڑتا اور یوں وہ دولت ان کے بچوں کو باآسانی منتقل ہوجاتی ہے۔ اگر دنیا کے ارب پتیوں اور کھرب پتیوں سے صرف پانچ فیصد تک ہی حقیقی ٹیکس وصول کر لیا جائے تو سال کے پونے دو کھرب ڈالر اکٹھے ہوجائیں گے جن سے دنیا کے دو ارب افراد کو غربت کی دلدل سے باہر نکالا جا سکتا ہے۔ ارب پتیوں نے کووڈ کے دوران بہت زیادہ دولت کمائی، رپورٹ کے مطابق امیر ممالک کی طرف سے معیشت کو سہارا دینے کے لیے جو فنڈ استعمال کیے گئے، جس کا اصل مقصد نچلے طبقے کے لوگوں کو سہارا دینا تھا، اس نے الٹا دولت مند افراد کے اثاثوں کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا اور یہ ٹیکسوں کے غیر منصفانہ نظام کی بدولت ہوا کہ انتہائی دولت مند افراد ناقابل تصور منافع اپنی جیبوں میں ڈال کر گھر لے گئے۔ اگرچہ ارب پتیوں کی قسمت 2021 میں اپنے عروج کے بعد سے تھوڑی گر گئی ہے، لیکن کووڈ سے پہلے کے مقابلے میں بہرحال اب بھی ان کے پاس کھربوں ڈالر زیادہ ہیں۔

آکسفیم کی رپورٹ پڑھ کر دوبارہ اس بات پر یقین پختہ ہوجاتا ہے کہ یہ دنیا نا انصافی پر کھڑی ہے، انسان جتنی جلدی اس حقیقت کو قبول کر لے اتنا ہی سکھ میں رہے گا۔ مگر فی الوقت اس رپورٹ کا فلسفیانہ پہلو زیر بحث نہیں، دیکھنا یہ ہے کہ اس نا انصافی سے نجات کیسے حاصل کی جا سکتی ہے۔ ظاہر ہے کہ اس کا کوئی فوری اور مستقل حل نہیں، یہ ایک جہد مسلسل ہے اور ہمارے جیسے ممالک میں تو یہ کام اور بھی مشکل ہے مگر آکسفیم کی رپورٹ میں اچھی بات یہ ہے کہ اس میں محض نا انصافی کی نشاندہی نہیں کی گئی بلکہ مسئلے کا کچھ نہ کچھ حل بھی پیش کیا گیا ہے جو ایسا ناقابل عمل بھی نہیں۔ حکومتوں کو صاحب ثروت افراد کی دولت اور ’غیر متوقع منافع‘ پر ٹیکس عائد کر دینا چاہیے، اس کے بعد ایک فیصد امیر ترین افراد کی آمدن پر ساٹھ فیصد تک ٹیکس وصول کرنا چاہیے تاکہ دولت کے ارتکاز کی حوصلہ شکنی ہو اور پھر ان ٹیکسوں سے ہونے والی آمدن کو صحت، تعلیم اور غربت ختم کرنے کے منصوبوں پر خرچ کرنا چاہیے۔

آکسفیم کی رپورٹ نے بلاشبہ عالمی نا انصافی کا پردہ چاک کیا ہے مگر دنیا کے امیر ممالک بہرحال اپنے عوام کو تعلیم، صحت، ٹرانسپورٹ اور انصاف جیسی بنیادی سہولتیں قدرے بہتر طریقے سے فراہم کر رہے ہیں جو پاکستان جیسے ممالک میں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ وجہ وہی ہے کہ یہاں کی اشرافیہ نے وسائل پر قبضہ کر رکھا جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان کے آٹھ سو امیر ترین خاندان جو ایکسپورٹ کے کاروبار میں ہیں، حکومت کو بلیک میل کر کے سالانہ ایک ارب ڈالر کی سبسڈی ہتھیا لیتے ہیں، یہ سبسڈی انہیں بجلی اور گیس کے رعایتی نرخوں کی صورت میں دی جاتی ہے۔

دوسری مثال عالیشان کلبوں کی ہے جن سے ہماری اشرافیہ کے شاہانہ طرز زندگی کا اندازہ ہوتا ہے۔ اسلام آباد کلب 353 ایکڑ پر پھیلا ہوا ہے اور یہ قیمتی زمین حکومت نے صرف ستائیس ہزار روپے سالانہ کرائے پر دان کر رکھی ہے جبکہ لاہور جمخانہ کے پاس 128 ایکڑ زمین ہے جو شہر کے قلب میں واقع ہے اور اس کا سالانہ کرایہ فقط پانچ ہزار روپے ہے، باقی شہروں کے سول اور فوجی کلب اس کے علاوہ ہیں جو شاید کھربوں روپوں کی حکومتی سبسڈی پر پل رہے ہیں۔ ایک ایسا ملک جو کشکول اٹھائے پوری دنیا میں پھر رہا ہو، جو ایک ایک ڈالر کے لیے دوسری حکومتوں کی منتیں کر رہا ہو اور جہاں کروڑوں لوگ غربت کی لکیر سے نیچے رہ رہے ہوں وہاں ریاست کا اشرافیہ پر کھربوں روپے خرچ کرنا ایک مجرمانہ فعل ہے۔

اگر آپ کا کوئی ضرورت مند دوست یا رشتہ دار آپ سے کاروبار کے لیے ادھار مانگے تو آپ میں سے اکثر لوگ شاید اس امید پر قرض دے دیں کہ وہ اپنے پیروں پر کھڑا ہو سکے لیکن اگر وہ شخص قرض لینے کے بعد ان پیسوں کو عیاشی میں لٹا دے تو کیا آپ اسے دوبارہ قرض دیں گے؟ یقیناً ”نہیں۔ ایسا ہی حال ہمارا ہے۔ ہم نے اشرافیہ پر ٹیکس عائد کرنے کی بجائے اسے کھربوں روپوں کی چھوٹ دی ہوئی ہے، ایسے میں جب آئی ایم ایف یا کوئی عالمی ادارہ ہمیں کہتا ہے کہ پہلے اپنا گھر ٹھیک کرو اس کے بعد قرض کی بات کرنا تو ہم کہتے ہیں کہ یہ بات ہماری غیرت اور حمیت کے خلاف ہے کہ آئی ایم ایف ہمیں ڈکٹیشن دے۔ ہماری غیرت اور حمیت کا یہ حال ہے کہ ہم نے بہت جذبے سے کہا تھا کہ ایٹم بم بنائیں گے چاہے گھاس ہی کیوں نہ کھانی پڑے، اب گھاس کھانے کا وقت آ گیا ہے تو مسئلہ کیا ہے!

مجھے نا امیدی سے نفرت ہے اور مایوسی پھیلانے والے مجھے بالکل پسند نہیں، میں اکثر ٹویٹر پر ماہرین معیشت کو دیکھتا ہوں جو درد مند دل کے ساتھ ملکی معیشت کو درست کرنے کے مشورے دیتے رہتے ہیں تاہم بعض اوقات یوں لگتا ہے جیسے انہیں کسی بھی بات میں کوئی مثبت پہلو نظر نہیں آتا، سچی بات یہ ہے کہ آج کل کے حالات میں مثبت پہلو تلاش کرنا آسان نہیں، میں اگر اپنی ہی تحریر پڑھ لوں تو یوں لگتا ہے کہ جیسے میں بھی ان مایوسی پھیلانے والوں میں شامل ہوں۔

ہماری معیشت اس سے پہلے بھی کئی مرتبہ مشکلات کا شکار رہی مگر جو حالات اس وقت ہیں وہ میں نے پہلے نہیں دیکھے۔ پہلے مانگ تانگ کر ہمارا کام چل جاتا تھا لیکن اب ایسے کام نہیں چلے گا، اب یہ تمام عیاشیاں بند کرنی ہوں گی، ارب اور کھرب پتیوں کی جائیدادوں پر ٹیکس عائد کرنا پڑے گا، ہر قسم کے کلبوں کو دی جانے والی رعایت ختم کرنی ہوگی، امیر ترین افراد کو ایکسپورٹ کے نام پر دی جانے والی سبسڈی واپس لینی ہوگی اور یہ تمام پیسے اکٹھے کر کے صحت، تعلیم اور دیگر بنیادی سہولتوں پر خرچ کرنے ہوں گے۔ یہ کوئی انوکھے اور ناقابل عمل کام نہیں، دنیا کے کئی ممالک نے یہ کام کیے ہیں اور آج بھی کر رہے ہیں، مسئلہ صرف سیاسی ارادے کا ہے، آج ہم چھوٹے سے چھوٹا فیصلہ کرنے سے پہلے بھی خوفزدہ ہو کر سوچتے ہیں کہ نہ جانے اس کا سیاسی رد عمل کیا ہو گا، اس خوف کے زیر اثر کوئی کام نہیں ہو سکتا، ہماری قیادت کو اس خوف سے جان چھڑانی ہوگی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

یاسر پیرزادہ

Yasir Pirzada's columns are published at Daily Jang and HumSub Twitter: @YasirPirzada

yasir-pirzada has 495 posts and counting.See all posts by yasir-pirzada

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments