موروثیت تو اچھی ہوتی ہے


شام چوراسی گھرانے کے استاد سلامت علی خان فخرسے بتایا کرتے تھے کہ وہ بارہ پشتوں سے گا بجا رہے ہیں، خان صاحب کی ایک ریکارڈنگ ہے جب وہ آٹھ دس برس کے تھے، راگ بسنت گا رہے ہیں اوربول ایسے پکڑ رہے ہیں کہ سننے والا دنگ رہ جائے اور سپاٹ تان اتنی شفاف لے رہے ہیں کہ بڑے بڑے دانتوں میں انگلیاں دبا لیں، یہ سلامت علی خان کے گھر کی فضا کا فیضان تھا، یہ ان کے ڈی این اے کا ثمر تھا، ورنہ اتائیوں کی عمریں لگ جاتی ہیں اور ’سا‘ بھی سیدھا نہیں ہوتا۔ یہ وراثت کا قانون ہے۔ کسی شعوری فیصلے سے بہت پہلے جینز اور ماحول آپ کو بہت کچھ سکھا چکے ہوتے ہیں۔ آبا کے ’راستے‘ پر چلنے میں لوگ ایک فخر بھی محسوس کرتے ہیں، اسداللہ خان غالب بڑے ناز سے فرماتے ہیں ’سو پشت سے ہے پیشہ آبا سپاہ گری …. کچھ شاعری ذریعہ عزت نہیں مجھے‘۔موروثیت کی یہ شکلیں ہمارے آس پاس بکھری ہوئی ہیں، اور کوئی ان پر معترض بھی نہیں ہے۔ ڈاکٹر کی اولاد ڈاکٹر بنے تو اعتراض کیسا؟ سپاہی کا بیٹا سپاہی بنے تو کسی کو کیا مسئلہ ؟ لیکن ایک میدان ایسا بھی ہے جس میں موروثیت کا ذکر آتے ہی تلواریں بے نیام ہو جاتی ہیں۔

سیاست میں موروثیت۔ ویسے دنیا میں سیاسی موروثیت پر ایسا ہنگامہ کہیں دیکھنے میں نہیں آتا، کینیڈا کے ٹروڈوز سے امریکہ کے بش اور کینیڈی خاندان کی نسلیں کوچہ سیاست کی مسافر رہی ہیں، بھارت میں نہرو اور بنگلہ دیش میں شیخ مجیب خاندان کی مثالیں موجود ہیں۔ ہمارے ہاں بھٹو اور شریف خاندان کی سیاست کے لئے موروثی سیاست کی اصطلاح برائے تنقید استعمال کی جاتی ہے۔ پہلے تو یہ اصطلاح اسٹیبلشمنٹ ہماری دو بڑی پارٹیوں کے خلاف استعمال کرتی رہی، پھر یہ ذمہ داری عمران خان کو سونپ دی گئی۔ ایک بنیادی اصول ہے کہ آپ تنقید اس عمل پر کرتے ہیں جو آپ خود کرنے کے قابل ہوں مگربہ طور اصول نہ کریں۔ عمران خان کے پاس تو موروثی سیاست کا  آپشن ہی نہیں ہے، ان کے بچے توانہیں میسر ہی نہیں ہیں، سو ایسی صورت میں ان کی موروثی سیاست پر تنقید بے وزن رہتی ہے۔

یہ سچ ہے کہ پاکستان میں جو ٹوٹی پھوٹی جمہوریت آج ہمیں میسر ہے وہ موروثی سیاست کی عطا ہے۔ابتدا سے ہی ملکِ عزیز میںجمہوریت کا بستر گول کرنے کی کوششیں جاری رہی ہیں، عوام میں جن لیڈرز کو پزیرائی ملی انہیں جیل، جلا وطنی اور پھانسی گھاٹ کا راستہ دکھایا گیا، ان راہ نماﺅں کا نام گالی بنانے کی کوشش کی گئی، سیاسی جماعتوں کو توڑا پھوڑا گیا، اور یہ گناہ بار بار کیا گیا۔بھٹو صاحب کو اقتدار سے نکالا گیا اور پھانسی چڑھایا گیا، ایسے میں پی پی پی کے اکثرراہ نما غنیم سے جا ملے، کچھ ڈر کر گھروں میں دبک گئے، پارٹی تتر بتر ہونے کو تھی کہ نصرت بھٹو اور بے نظیر آگے بڑھیں اور پی پی پی کا پرچم تھام لیا، ظلم سہا، لاٹھیاں کھائیں، جیلیں بھگتیں، پارٹی کو اکٹھا رکھا اور گیارہ سال کے بعد جب جمہوریت بحال ہوئی تو بھٹو کی بیٹی بے نظیر وزیرِ اعظم بن گئیں۔ یہ ہے ہمارے ملک میں موروثی سیاست کی کہانی۔

نواز شریف کی کہانی توابھی چند سال پہلے کی بات ہے، 1999 میں مارشل لاءلگا تو مسلم لیگ کے راہ نما زبانوں کو تالے لگا کر گھروں میں مقید ہو گئے، چوہدریوں کو یاد آیا کہ تین سال پہلے شریفوں نے انہیں وزارتِ اعلیٰ نہ دے کر وعدہ خلافی کی تھی، شیخ رشید نے بھی بے وفائی کا کوئی بودا بہانہ تراشا اور آمر کو پیارے ہو گئے، ’گلی کوچوں میں سناٹے کی دلدل جان لیوا تھی‘۔ ایسے میں کلثوم نواز  نے لشکر کا علم تھاما اور پرویز مشرف کو للکارنے لگیں۔ یہ ہے پاکستان میں موروثی سیاست کی خدمات۔مریم نواز کو اس سے بھی سخت حالات کا سامنا کرنا پڑا۔ نواز شریف کو نکالا گیا تو قمرباجوہ، فیض حمید اور ثاقب نثار جیسے جمہوریت کے ’خیر خواہوں‘ نے موروثی سیاست کا خاتمہ کرنے کے لئے مریم نوازپر بھی پابندی لگوا دی۔پھر وہی تاریخ دہرائی گئی، کچھ پارٹی لیڈر پکڑے گئے باقی بلوں میں جا چھپے، اس پر آشوب دور میں مریم نواز نے زمینی خداﺅں کا انکار کیا، جیلیں کاٹیں، صعوبتیں برداشت کیں مگر امید کی شمع نہ بجھنے دی۔یہی وہ وقت تھا جب مسلم لیگ کے حامیوں اور اور مخالفوں نے مریم کو دل سے نواز شریف کی سیاسی جانشین مان لیا۔یہ سوچ بھی انتہائی معصومانہ ہے کہ لیڈر اپنے خاندان سے جس کو اپنا جانشین بنا دے گا لوگ سرِ تسلیم خم کر دیں گے، ایسا نہیں ہوتا، وراثت تب ہی چلتی ہے جب لوگ دل سے قائل ہو جاتے ہیں۔ مریم کا کرزما ان کی اپنی سیاسی کمائی ہے۔ فقط نواز شریف کے کہنے سے بھی کچھ نہیں ہوتا ورنہ حمزہ شہباز بھی اس وقت پنجاب کے مقبول ترین سیاسی راہنما ہوتے۔یاد رکھئے کہ جن سیاسی جماعتوں کو موروثی سیاست کی ’نعمت‘ میسر نہیں ہے انہیں مٹا دینا نسبتاً کہیں آسان ہوتا ہے،ایم کیو ایم کی طرح پی ٹی آئی کو بھی کبھی اس چیلنج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

یہ موروثیت کی بحث مریم نواز کو پارٹی میں ایک اعلیٰ عہدہ دینے سے دوبارہ شروع ہوئی ہے، شنید ہے کہ پارٹی کے کچھ سینئر راہ نما اس تقرری پر خوش نہیں ہیں، کیوں خوش نہیں ہیں؟ اگر جمہوریت میں آخری قوت عوام ہوتے ہیں تو اس میں کیا شک ہے کہ مریم اپنے والد کے بعد مسلم لیگ ن کی سب سے زیادہ عوامی مقبولیت رکھنے والی راہ نما ہیں، اور یہ محبوبیت ان کی ’جرات انکار‘ کا ثمر ہے۔یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ یہ سیاسی موروثیت کا سلسلہ پاکستان کے معروضی حالات کا جبر ہے، جس دن مقبول سیاسی راہنماﺅں کو راستے سے ہٹانے کا سلسلہ بند ہو جائے گا، جمہوری نظام ہموار ہو جائے گا، تو موروثی سیاست بھی ماند پڑ جائے گی۔

(بشکریہ روزنامہ جنگ)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments