پٹھان: را اور آئی ایس آئی ایجنٹس کے گرد گھومتی کہانی جس میں مسالا اور ایکشن تو ہے ہی مگر پوشیدہ پیغام بھی


سدھارتھ آنند کی نئی بالی وڈ ایکشن فلم ’پٹھان‘ کے ایک منظر میں پاکستان کی خفیہ ایجنسی ’آئی ایس آئی‘ کی ایجنٹ روبینہ محسن (دیپیکا پڈوکون) بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘  کے ایجنٹ پٹھان (شاہ رخ خان) سے پوچھتی ہے کہ کیا وہ مسلمان ہیں؟

اس کے جواب میں ’پٹھان‘ کہتا ہے کہ وہ نہیں جانتا کیونکہ وہ یتیم ہے اور اس کے والدین اسے ایک سنیما ہال میں چھوڑ گئے تھے۔

یہ جواب کسی فلمی کہانی جیسا ہو سکتا ہے لیکن اس میں کچھ پوشیدہ پیغامات بھی ہیں۔

دراصل بالی وڈ میں فلموں کی باکس آفس پر کمائی سے بڑا کوئی مذہب نہیں ہے اور ہندی فلم انڈسٹری کا شمار انڈیا کے سیکولر اور تخلیقی اداروں میں ہوتا ہے۔

پچھلے کچھ برسوں میں جس طرح سے انڈین معاشرہ بدلا ہے، اس کا اثر فلموں پر بھی پڑا ہے اور فلمیں بھی ’پولرائزڈ‘ ہو گئی ہیں۔

فلموں کو نفرت انگیز مہمات، پابندیوں اور بائیکاٹ کا بھی سامنا کرنا پڑا ہے۔ اس فہرست میں فلم ’پٹھان‘ کے ہی گانے ’بے شرم رنگ‘ میں دیپیکا پڈوکون کی بکنی کے رنگ کا تنازعہ بھی شامل ہے۔

چار سال بعد واپسی

پٹھان

تاہم، فلم پٹھان کا یہ مختصر منظر ہمیں فلمی دنیا میں تمام مذاہب کی قبولیت کے ایک ہمہ جہت جذبے کی واپسی کی یاد دلاتا ہے اور شاہ رخ خان خود بھی یہ اپیل کرتے نظر آتے ہیں۔

فلم ’برہمسترا‘ میں مہمان اداکاری کو چھوڑیں تو شاہ رخ چار سال بعد بڑی سکرین پر واپس آئے ہیں۔ پٹھان سے پہلے، 2018 میں، وہ آنند ایل رائے کی ’زیرو‘ میں نظر آئے تھے۔

عام لوگوں کی زندگی کی طرح فلموں کے لیے وقت سب سے اہم ہوتا ہے۔

کسی اور دور میں تو میڈیا، شائقین اور فلمی دنیا ’پٹھان‘ کو مین سٹریم کی بڑی سٹار کاسٹ والی فلم سمجھ کر یہ دیکھے گی کہ یہ فلم پیسہ کماتی ہے یا نہیں لیکن موجودہ سیاسی ماحول کو دیکھتے ہوئے، پٹھان ایک طرح سے نفرت کے دور میں محبت کو دوبارہ حاصل کرنے کی تحریک بن چکی ہے۔

پٹھان یش راج فلمز کی سپائی یونیورس سیریز کی چوتھی فلم ہے اور اس سلسلے میں اس سے قبل 2012 میں ’ٹائیگر‘، 2017 میں ’ٹائیگر زندہ ہے‘ اور 2019 میں ’وار‘ آ چکی ہیں۔

ایسے میں ’پٹھان‘ میں کوئی نئی بات نہیں ہے اور ایک سطر میں فلم کی کہانی کا خلاصہ کیا جا سکتا ہے۔

را کا ایک ایجنٹ اسی ایجنسی کے ایک سابق ایجنٹ جم (جان ابراہم) سے لڑتا ہے، جو کارپوریٹ انداز میں ایک انتہاپسند تنظیم چلاتا ہے اور اپنے حیاتیاتی ہتھیار ’رکتابیج‘ سے انڈیا کو تباہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

اچھا سکرین پلے، مضبوط مکالمے

فلم کی کہانی ایک لائن کی ہو سکتی ہے لیکن یہ ایک طویل فلم ہے جس میں فلیش بیک سین کئی بار آتے ہیں۔ ماضی اور حال کو جوڑنے والے مناظر کی کثرت پریشان کن ہے جبکہ فلم کو دیکھ کر کلائمیکس کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

منطق کو ایک طرف رکھتے ہوئے، پٹھان ایک مسالا دار فلم ہے جس میں تفریح ​​کا ہر مسالا موجود ہے۔ خوبصورت مناظر کے علاوہ اس میں ایکشن سے بھرپور بہت سے مناظر ہیں جہاں ناظرین کی سانسیں رکنے لگتی ہیں۔

سریدھر راگھون کا لکھا ہوا سکرین پلے بھی بہت عمدہ ہے اور عباس ٹائر والا کے مکالمے شاہ رخ خان کی حساسیت اور مزاح سے میل کھاتے ہیں۔

ویسے یہ دیکھنا دلچسپ ہے کہ شاہ رخ نے ان دنوں بالی وڈ میں رائج حب الوطنی کے بیانیے کو کیسے اپنایا ہے۔ اگرچہ اس میں بھی شاہ رخ کی اپنی چھاپ نظر آتی ہے۔ وہ اسے شاونزم سے الگ کرتے ہیں اور اپنے کردار کو ایک عام انسان کا رخ دیتے ہیں۔

فلم کا سکرین پلے انڈین آئین کے آرٹیکل 370 کے متنازع معاملے کے گرد گھومتا ہے، جس میں پاکستان کو انڈیا کے اندرونی معاملات میں مداخلت اور مسائل پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ فلم پٹھان یہ بھی دکھاتی ہے کہ بالادستی کے اس علاقائی کھیل میں بھارت کو برتری حاصل ہے۔

مضبوط ولن

تاہم یہ سب دکھانے کے باوجود مرکزی کردار پٹھان باوقار نظر آتا ہے۔ پٹھان اور انڈیا کے دشمن پاکستان سے ہو سکتے ہیں لیکن پٹھان کے کردار میں شاہ رخ نے اس بات کو اجاگر کیا کہ چند برے لوگ پورے ملک، حکومت اور عوام کو نہیں بدل سکتے۔

افغانستان میں ایک مشن کے دوران پٹھان ایک خاندان کے ساتھ گھل مل جاتا ہے اور ہر سال ان کے ساتھ عید مناتا ہے۔ وہ انڈین ایجنٹ ہونے کے ساتھ ساتھ دنیا کی سب سے بڑی سافٹ پاور کا ایجنٹ بھی ہے۔ ان دونوں معیاروں میں ہم آہنگی بھی ہے بالکل ویسے ہی جس طرح شاہ رخ کی مقبولیت انڈیا کے علاوہ بیرون ملک بھی پھیل چکی ہے۔

فلمی پردے پر اپنی رومانوی امیج کی وجہ سے شاہ رخ کو رومانس کا بادشاہ کہا جاتا ہے لیکن پٹھان میں انھیں مردانہ قوت کا شاہکار بھی دکھایا گیا ہے۔ اپنے ورزشی جسم کی نمائش کرتے ہوئے وہ پہلی بار ایک مکمل ایکشن ہیرو کا کردار ادا کر رہے ہیں۔

پٹھان کا ولن لتا منگیشکر کے گانے ‘اے میرے وطن کے لوگون’ پر سیٹی بجاتے نظر آتا ہے۔ اس کا کردار ہیرو سے زیادہ مضبوط ہے۔ اس کے غصے کو مناسب سیاق و سباق، عقلیت اور ہمدردی کا ایک لمس دیا گیا ہے جسے جان ابراہم زندہ دلی کے ساتھ ادا کرتے ہیں۔

فلم یہ بھی بتاتی ہے کہ دنیا پر مردوں کا غلبہ ہونے کے باوجود یہ خواتین کے لیے خطرناک جگہ نہیں ہے، ان کا اپنا وجود ہے۔

دیپیکا فلم میں بکنی میں گانا گاتے نمودار تو ہوتی ہیں لیکن بعد میں وہ ایک طاقتور اور جان لیوا کردار میں نظر آئیں اور پٹھان کے باس کے طور پر ڈمپل کپاڈیہ ہیں جو اپنے حتمی حب الوطنی کے جذبے کے لیے احترام کا جذبہ پیدا کرتی ہے۔

ایکشن مناظر کی بھرمار

فلم میں بہت سا ایکشن ہے۔ اس میں خطرناک سٹنٹ سیکوئنس ہیں جو زمین، ہوا، پانی اور برف پر فلمائے گئے تھے۔ عکس بندی میں کاروں، ہیلی کاپٹر اور بائیکس کا خوب استعمال کیا گیا ہے اور یہ مناظر سپین، متحدہ عرب امارات، ترکی، روس، اٹلی، فرانس، افغانستان اور سائبیریا میں فلمائے گئے ہیں۔

فلم میں روس میں ایک ٹرین پر فلمایا گیا شاندار ایکشن سیکوئنس ہے جب کہ سائبیریا کی منجمد بیکال جھیل پر وائرس سے بھری گیندوں کی لڑائی کا شاندار سیکوئنس بھی ہے۔

پٹھان کا ایجنٹ جہاں فولادی مضبوطی رکھتا ہے وہیں وہ ہوشیار اور حلیم بھی ہے۔ یہ ایک ایسا جاسوس ہے جو رو سکتا ہے، محبت کر سکتا ہے اور اپنا مذاق اڑا سکتا ہے۔

پٹھان میں لاوارث، خدا گواہ اور کرن ارجن کی جھلک بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ ماسکو میں چوری کی کوشش کو 1993 کی فلم ڈر کے مقبول گانے ‘تو ہے میری کرن’ کے ساتھ جوڑا گیا ہے، حالانکہ یہ کچھ احمقانہ بھی لگتا ہے۔

شاہ رخ اور دیپیکا کے درمیان ایک مزاحیہ منظر بھی ہے جب دونوں کے درمیان اعتماد کی کمی پیدا ہو جاتی ہے کیونکہ دونوں ممالک کی متعلقہ ایجنسیاں ایک دوسرے پر اعتماد نہیں کرتیں۔ ان کے رومانس کی وجہ سے آئی ایس آئی آفس ایجنٹوں کے درمیان تقسیم ہو جاتا ہے جسے ایک ڈیٹنگ ویب سائٹ کہا جاتا ہے۔

فلم میں کنٹسوگی کے جاپانی فن کا ایک حوالہ شامل ہے کہ کس طرح سونے کو مٹی کے برتنوں کے ٹوٹے ہوئے ٹکڑوں کے ساتھ ملا کر مزید خوبصورت اور قیمتی فن پارہ تخلیق کیا جا سکتا ہے۔ اس کا استعمال فلم میں زخمی اور ریٹائرڈ ایجنٹوں کو ملا کر ایک نیا یونٹ بنانے کے لیے کیا گیا ہے حالانکہ ایسا لگتا ہے کہ شاہ رخ بالی وڈ کی بات کر رہے ہیں کہ موجودہ دور سے گزرنے کے بعد یہ کیسے بہتر ہو سکتا ہے۔

ویسے پٹھان میں دو بڑے تفریحی مناظر بھی ہیں۔ اس میں ایک اور سپر سٹار کا کیمیو بھی شامل ہے۔ درمیانی وقفے کے فوراً بعد مناظر کا ایک سلسلہ ہے جن میں آپ کو وہ رنگ برنگے سکارف نظر آتے گا جو ایک تھا ٹائیگر کے بعد فیشن میں آئے۔

دوسرا منظر ایک اچھا لطیفہ ہے، جو بالکل آخر میں آتا ہے جب کریڈٹس کے بعد گانا ’جب جھومے جو پٹھان آتا ہے‘۔ اس میں شاہ رخ خان فلمی ستاروں کی بڑھتی عمر کا مذاق اڑاتے ہیں، لیکن یہ بھی کہتے ہیں کہ ان کی جگہ کوئی نہیں لے سکتا۔

شاہ رخ جہاں اس فلم میں اپنا مذاق اڑاتے ہوئے نظر آ رہے ہیں وہیں انھیں ناظرین کا پیار بھی مل رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32292 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments