خالد محمود زیدی: اپنا انداز جنوں سب سے جدا رکھتا ہوں میں


”یہ ریکارڈنگ تم نے رکوائی ہے“

فون کی دوسری طرف سے پوچھا گیا۔ سوال میں چھپے غصے کا، لہجے سے بہ خوبی اندازہ کیا جاسکتا تھا اور بات ہی ایسی تھی کہ جو بھی سنتا وہ غالباً اسی ردعمل کا اظہار کرتا۔

سیکریٹری داخلہ کو بھی جب اس بات سے مطلع کیا گیا کہ پاکستان ٹیلی وژن کے ایک کوارڈینیٹنگ پروڈیوسر نے لاہور میں بی بی سی کی آج کی مجوزہ ریکارڈنگ پر عمل درآمد روک دیا ہے تو یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ اس سنجیدہ نوعیت کی صورت حال پر، جس میں اتنے معتبر ادارے کا نام شامل ہو، وہ کس قدر جزبز ہوئے ہوں گے۔

یہ تصویر کا محض ایک رخ تھا اور اس کا دوسرا رخ بھی اتنا ہی حیران کن تھا۔

جب سیکریٹری داخلہ نے اپنے عہدے کی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے پروڈیوسر سے براہ راست اس ناخوشگوار اطلاع کی وضاحت چاہی کہ تم نے ایسا کیوں کیا؟ پروڈیوسر کا برجستہ جواب، خلاف توقع بہت بے باکانہ تھا، پروڈیوسر نے نہایت شائستگی مگر پورے اعتماد سے جواب دیا ”سر، اگر آئندہ بھی ایسی صورت حال ہوئی تو ایسا ہی ہو گا“ ۔ اس پر اعتماد جواب نے سیکریٹری داخلہ کی پریشانی میں کمی کی بہ جائے اور اضافہ کر دیا۔ اب پس منظر جاننا، اور ضروری ہو گیا تھا۔

استفسار پر بتایا گیا کہ بی بی سی کی ٹیم نے آج اچانک یہ مطالبہ کیا کہ آج کی ریکارڈنگ کے لئے لاہور قلعہ پر پاکستان کا پرچم اتار کر اس کی جگہ یونین جیک کا پرچم لہرا دیا جائے۔ یہ یقیناً ان کے دستاویزی پروگرام کی ضرورت رہی ہوگی مگر انھیں سمجھایا گیا کہ اس طرح قومی پرچم کو یکلخت ہٹا کر یونین جیک کا جھنڈا لہرانے سے مقامی آبادی میں کسی بھی قسم کا ردعمل ہو سکتا ہے لہٰذا اس کا عملی طریقہ یہ ہے کہ ریکارڈنگ سے ایک دن قبل انتظامیہ اور مقامی آبادی کو اس عارضی تبدیلی کی غرض و غایت سے آگاہ کیا جائے، پھر یہ عمل بہ حسن خوبی تکمیل تک پہنچ سکتا ہے۔

اس وضاحت پر، فون کی دوسری طرف سیکرٹری داخلہ کچھ دیر چپ رہے اور پھر ان کی بھرائی ہوئی آواز نمایاں ہوئی ”شاباش نوجوان! ایک با شعور پاکستانی کی حیثیت سے تمہیں ایسا ہی کرنا چاہیے تھا۔ تمہاری احساس ذمہ داری پر ہم سب کو فخر ہے۔ “

احساس ذمہ داری کی مزید تصدیق ( اور ستائش ) تب ہوئی جب بی بی سی نے انضباطی کارروائی کرتے ہوئے اپنے نامزد پروڈیوسر کو اس واقعہ کے بعد فوری طور پر واپس بلا کر ایک دوسرے سینئر پروڈیوسر کو اس دستاویزی پروگرام کے بقیہ کام کے لئے مقرر کیا۔ بی بی سی کے سینئر پرو ڈیو سر نے پاکستان کے کوارڈنیٹنگ پروڈیوسر کی فرائض منصبی کی خوش اسلوبی سے ادائیگی کو سراہتے ہوئے یہ اعزاز بخشا کہ مزید ریکارڈنگز کی نگرانی خود کرنے کی بہ جائے، یہ اہم تخلیقی کام فرض شناسی کی نذر کر دیا۔ بات صرف یہاں ختم نہیں ہوئی، بی بی سی کی طرف سے پاکستان کے کوارڈینیٹنگ پروڈیوسر کو ایک خصوصی ٹریننگ کی بھی پیش کش کی گئی جس کے دوران ہالینڈ میں تفریحی تعطیلات کے لئے مختصر قیام بھی شامل تھا۔

لندن آمد پر، جرات مندی اور وطن سے وابستگی کی، اور حیرت انگیز داستان اس توسط سے رقم ہونے کی منتظر تھی اور اگر ایسا نہ ہوتا تو اس شخصیت کے مزاج کے حوالے سے وہ بات اس سے زیادہ تعجب خیز ہوتی، مگر اس بیان سے پہلے ایک اور واقعاتی موڑ جب ایک ہر فن مولا تخلیق کار کے پیشہ ورانہ جوہر، براڈ کاسٹنگ کے معتبر غیرملکی ماہرین کے آگے، اور بھی نمایاں ہونے تھے۔

بی بی سی میں قیام کے دوران کسی دن ایمرجنسی میں ایڈیٹنگ کا مرحلہ درکار تھا اور کوئی ایڈیٹر اس لمحے دستیاب نہ تھا سو موقع غنیمت جانتے ہوئے (اور آل راؤنڈر ہونے کے زعم میں) یہ مرحلہ خود طے کر دیا۔ اگلے روز ادارے کی طرف سے ایک محبت نامہ وصول پایا کہ یہاں صرف پروفیشنل ایڈیٹر ہی اس کام کی ادائیگی کا مجاز ہے۔ وہ فرد جس نے ساری زندگی ایمان داری، راستی اور اصول پسندی کو اپنایا ہو اور کبھی اپنی ذات پر کسی طور حرف نہ آنے دیا ہو، کس طرح اس تہمت کو (اور وہ بھی دیار غیر میں) اپنے وجود پر لگنے دیتا۔ بین الاقوامی ادارے میں اپنی باکمال شخصیت کا سکہ اس وقت اور جما ڈالا جب اپنی زنبیل میں سے وہ سرٹیفیکیٹ انتظامیہ کے حوالے کی جس پر پروفیشنل ایڈیٹر ہونے کی سند موجود تھی۔

بی بی سی میں تربیت کے مراحل اپنی رفتار سے جاری تھے اور اس دوران پاکستان سے آئے خصوصی مہمان کے لئے ایک دن مقامی پروفیشنلز کے ساتھ کھانے کی دعوت کا بھی طے کیا گیا تھا۔ اس طے شدہ دعوت میں ابھی کچھ دن باقی تھے کہ ایک ایسا واقعہ ہوا جس نے آزمائش کی ایک نئی صورت حال پیدا کر دی۔ اپنے پاکستانی دوست کے ساتھ بازار میں چہل قدمی کے دوران سکن ہیڈیڈ نامی نسلی تحریک کے حامیوں نے کرتا شلوار میں ملبوس دوست کے ساتھ ناروا سلوک کرتے ہوئے اسے بلا سبب زد و کوب کیا۔

بین الاقوامی ادارے کی تمام تر مہربانیاں اور نوازشیں اپنی جگہ مگر اب یہاں معاملہ وطن اور ثقافت کی عزت اور اس تعلق کے اظہار کا تھا۔ کسی تذبذب کے بغیر، فوری فیصلہ ہوا کہ جس سرزمین پر، ہم وطن کی توہین کی گئی ہو، وہاں کے کھانے کی دعوت، قبول کرنا کوئی اعزاز کی بات نہیں۔ اس فیصلے میں تبدیلی کے (میزبانی) اصرار کے باوجود، خود کو اس کے لئے تیار نہ پایا۔ وطن سے دور، وطن سے محبت کی یہ جرات مندانہ داستان کی بازگشت وطن تک جا پہنچی اور روایت ہے کہ تب وزیراعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی ایک تقریر میں بھی نسلی منافرت کے خلاف اس غیر معمولی اور دلیرانہ واقعے کا فخر یہ حوالہ دیا۔

اپنے کام، اپنے کردار اور اپنے فرائض کے لئے جس قدر آگے جانے کا تصور کیا جاسکتا ہے، وہ انتہائی شکل یہاں موجود تھی۔ اس منزل کے راستے میں گھریلو مصروفیت، دوستوں کی رفاقت اور دنیاوی ضروریات، کوئی امر کسی طور حائل ہونے کی اہلیت کا حامل نہ تھا۔ اس پر کمال یہ کہ ستائش ( توجہ اور تشہیر ) کو خود سے اس طرح دور رکھا جیسے ایسا کرنا، ایسا ہونا، اور ہوتے رہنا، بس شخصیت ( اور زندگانی ) کا لازمی حصہ ہو۔

نہیں معلوم، جنوں کے سوا کوئی اور لفظ، اس صورت حال پر منطبق ہو سکتا ہو۔
جنون کی یہ کیفیت ہمیشہ اور ہر معاملے میں ساتھ رہی۔

جس کام کا ٹھان لیا، اس سے پیچھے ہٹنا یا اس کے لئے کسی کا اس پر منا لینا، پھر کسی کے بس میں نہ ہوتا۔ جس بات سے دست کش ہوئے، کوئی دوبارہ اس پر آمادہ نہ کر سکا۔

یہ منفرد اعزاز بھی سمیٹا کہ پاکستان کی انٹارٹیکا جانے والی پہلی سرکاری ٹیم کا حصہ بنے۔ اپنے پیشے کی لاج رکھتے ہوئے ممکنہ حد تک سارے سفر کو وڈیو کیمرے سے خوب انہماک اور باریک بینی سے منتقل کرتے رہے۔ یہ خزینہ ان گنت ٹیپس پر محفوظ ہوا۔ ریکارڈنگ کی اہمیت اور ندرت دیکھتے ہوئے نہایت عقیدت کے ساتھ اس کی نگہبانی کی گئی۔ جب ساتھیوں اور پروفیشنلز نے اس یادگار کام کو دستاویزی پروگرام کی شکل دنیے پر اصرار کیا تو اپنی تمام تر رواں مصروفیات کے ساتھ یہ من پسند کام کرنے کا بیڑہ اٹھانے پر آمادگی ظاہر کی۔ واقف کاروں کا اندازہ تھا کہ اتنی بہت سی ٹیپوں میں موجود مختلف لوکیشنز کا جائزہ لے کر اس کی فہرست ترتیب دینا اور پھر اسے حتمی شکل دینا بلاشبہ جوئے شیر لانے سے کم نہ ہو گا۔

اس پھیلے کام کو سمیٹنے کے لئے دوستوں کی طرف سے مناسب سمجھا گیا کہ اگر پی ٹی وی کی تیکنیکی سہولیات کے ساتھ ہی اس کے تمام مراحل مکمل ہوتے رہیں تو خوش اسلوبی سے، اطمینان بخش نتائج ظاہر ہوسکتے ہیں اور ادارے کو ایک غیرمعمولی دستاویزی پروگرام دستیاب ہو سکتا ہے۔ کسی ہم درد نے ادارے کے تب کے سربراہ سے اس تاریخی نوعیت کے فرائض کی انجام دہی کی اجازت چاہی۔ تخلیقی مزاج نہ رکھنے والے نے، قومی اثاثے کی حیثیت کے حامل اس قومی ذمہ داری کو مروجہ دفتری قواعد کی کسوٹی پر جانچتے ہوئے، ذاتی ریکارڈنگ قرار دے کر اس سمت میں پیش قدمی سے روک دیا۔

بدلتے وقت کے ساتھ تخلیقی کام کی اہمیت جاننے والے نئے سربراہ کی توجہ جب اس طرف دلائی گئی تو موضوع اور لوکیشن کی نزاکت دیکھتے ہوئے اس گراں قدر فوٹیج کو فوری طور پر تکمیل کے لئے زور دیا گیا۔ وہ جذبہ جنوں جو ابتدائی انکار سے مضطرب اور منتشر ہوا تھا، اب اس ( تاخیر سے ملنے والی ) تائید پر بھی مائل نہ ہوا، حالانکہ ادارے سے وابستگی کا یہ عالم تھا کہ اس ذاتی خزانے کو جسے حاصل کرنے کی پر کشش پرائیوٹ پیشکش بھی موجود تھی اور فروخت کا ( کلی ) اختیار بھی، اسے ہمیشہ اپنے پی ٹی وی کی امانت قرار دیا۔ ابتدائی دل شکنی کا نتیجہ یہ ہوا کہ یہ قیمتی شہ پارے کسی بصری ( اور تخلیقی ) شاہکار میں ڈھلنے کی حسرت لئے ان ہی ٹیپوں میں مقید رہ گئے۔

دفتری ذمہ داریوں کا جو بھی مقام اور منصب رہا، مزاج کی یکسانیت ( اور مخصوص ٹھہراؤ ) میں کوئی فرق نہ آیا۔ مقابل کی آسانی کی خاطر، ذاتی نقصان کا کبھی برا نہ منایا۔ دوسروں کی تکلیف کا قیاس کر کے، خود کو ہر طرح کی آزمائش سے گزارنے کے لئے تیار پایا۔ ہنگامی یا معمول کی مالی اعانت کے بعد ، کبھی وصول کنندہ سے واپسی کا تقاضا نہ کیا۔ واپسی ہو گئی تو سبحان اللہ، نہ ہوئی تب بھی سبحان اللہ! چھوٹے سے چھوٹے اور بڑے سے بڑے معاملے میں اپنی دیانت داری پر شائبہ آنے سے بہتر یہی سمجھا کہ ( جی بھر کے ) نقصان کا راستہ خوش دلی سے منتخب کیا جائے۔

جہاں ریکارڈنگ کے دوران ادارے پر مالی ذمہ داری کا بوجھ ہوتا، وہاں بھی اپنی جیب کو استعمال میں لانے سے پس و پیش نہ کیا اور صرف یہی نہیں، اس رقم کی (واجب) واپسی میں بھی قطعاً دلچسپی نہ لی۔ پیشہ وارانہ امور میں جو ذمہ داری سپرد ہوئی، سہولیات اور ضروریات کا انتظار کیے بغیر، مشکل ترین ہدف کی تکمیل کے لئے بلا توقف کمر بستہ ہوئے اور ( عملاً ) وہ کچھ کر دکھایا جو ان حالات میں دوسروں کو کسی طور ممکن نہ دکھائی دیتا تھا۔

اپنے فرائض سے وفاداری، فکری سطح پر دیانت داری اور کام کی ادائیگی میں سرشاری، کو اگر کوئی دوسرا نام دیا جاسکتا ہے، وہ لوگ جو اس شخصیت کو قریب سے دیکھ پائے ہوں گے، وہ اس بات سے اتفاق کریں گے، کہ یہ مترادف بجا طور پر صرف اور صرف خالد محمود زیدی ہی ہو سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments