جاگتی آنکھوں کے خواب


نیند میں دیکھے جانے والے خواب، آنکھ کھلتے ہی تحلیل ہو جاتے ہیں۔ بقول غالب
تھا خواب میں خیال کو تجھ سے معاملہ
جب آنکھ کھل گئی نہ زیاں تھا نہ سود تھا

ایسا خواب اچھا ہو یا برا، انسان کچھ وقت اس سے کھیلتا، تاویلیں تراشتا، تعبیروں کے زائچے بناتا اور پھر بھول جاتا ہے۔ یہ خواب معمولاتِ حیات کی طرح کھِلتے مرجھاتے رہتے ہیں۔ اِس کے برعکس جاگتی آنکھوں کے خواب بڑے سخت جاں، بڑے پرفریب ہوتے ہیں۔ یہ خواب انسان اپنی آرزوؤں کے بت کدے میں خود تراشتا، اپنی آنکھوں میں بساتا اور پھر الہامی صداقت کی طرح ان پر یقین کر لیتا بلکہ ایمان لے آتا ہے۔ یہ خواب بصارت کا مستقل حصّہ بن جاتے ہیں۔ پھر آنکھ جو کچھ بھی دیکھتی ہے، خواب کے اسی محدب عدسے سے دیکھتی ہے۔ سو لق و دق صحرا میں بھی نیلگوں سمندر موجیں مارنے لگتے ہیں۔ اِدھر انسان خود کاشتہ خوابوں اور خودساختہ تعبیروں میں مگن رہتا ہے، ادھر انہونیوں کے مگرمچھ دبے پاؤں اس کی طرف بڑھتے رہتے ہیں اور خواب اس وقت ٹوٹتا ہے جب کھونے کو کچھ بھی نہیں بچتا۔

نیند میں چلنا یعنی ”خواب خرامی“ بھی خطرناک بیماری ہے لیکن جاگتی آنکھوں کے خواب، ایسا مرض ہے جو سرطان کی طرح سب کچھ چاٹ جاتا ہے اور خبر تک نہیں ہوتی۔ عمران خان کی ساری سیاست، جاگتی آنکھوں کے خود تراشیدہ خوابوں اور پرفریب تعبیروں کے پابرہنہ تعاقب کی دلچسپ کہانی ہے۔ کسی خاص لمحے کوئی خواب اپنے سنہری پر پھڑپھڑاتا کسی شاخِ آرزو سے اڑتا اور ان کی جاگتی آنکھوں میں بسیرا کر لیتا ہے۔ پھر انہیں راستے کی رکاوٹیں اور سنگلاخ زمینی حقیقتیں، کچھ بھی دکھائی نہیں دیتا۔ منزل مقصود کی بنی سنوری حسینہ ان کے دِل میں قیامت بپا کر دیتی ہے۔

تحریک انصاف بننے کے صرف تین سال بعد ، 1999 ء میں، مارشل لا کا ناقوس بجتے ہی انہوں نے ایک خواب تراشا اور پرویز مشرف کی سپاہ کا حصہ بن گئے۔ جاننے میں تین برس لگ گئے کہ یہ لاحاصلی کا کھیل تھا۔ 2011 ء میں مارگلہ کی پہاڑیوں سے اترتی ہواؤں نے ان کی جاگتی آنکھوں میں ایک نئے خواب کی جوت جگائی۔ نونہالانِ سوشل میڈیا، دانشورانِ خوش گماں اور تجزیہ کا رانِ آتش بیاں نے ان کی آنکھوں میں ایسا ”سرمہِ نورِ بصر“ بھر دیا کہ 2013 ء کے انتخابات سے پہلے ہی انہوں نے خود کو وزیراعظم کی مسند پر فائز کر لیا۔ ایسا نہ ہوا تو ان کے شورِ ماتم نے آسمان سر پہ اٹھا لیا۔

خان صاحب کی بے کلی بڑھی تو ایک خواب لندن میں تراشا گیا۔ چوہدری برادران اور علامہ طاہر القادری بھی اپنی اپنی سرمہ دانیاں لئے پہنچ گئے۔ 2014 میں اسلام آباد کی شاہراہِ دستور پر ایک سرکس لگا۔ امپائر کی انگلی، شاخِ گل کی طرح خواب میں تھرکتی رہی لیکن عملاً نہ اٹھی۔ 2018 ء میں ان کی جاگتی آنکھوں کے خواب نے تعبیر پائی لیکن سب جانتے ہیں کہ کن سکھیوں سہیلیوں نے مشّاطگی کی، عروسِ خواب کی مانگ میں سیندور بھرا، ہاتھوں میں مہندی رچائی، ماتھے پہ کامرانی کا جھومر سجایا اور وزیراعظم ہاؤس کے حجلہ عروسی میں لا بٹھایا۔

یہ الگ داستان ہے کہ آج وہ سکھیاں سہیلیاں بھی اپنے پراگندہ بالوں میں راکھ ڈالے بین کر رہی ہیں۔ 2022 ء میں جب خان صاحب کو لگا کہ ناؤ ڈگمگانے لگی ہے تو خود فریبی کی گپھا سے ایک اور خواب نے انگڑائی لی۔ ”میں ناقابلِ تسخیر ہوں۔ میں امریکی سائفر سے کھیلوں گا۔ بندے خرید لوں گا۔ تحریک عدم اعتماد ایوان میں نہیں لگنے دوں گا۔ قاسم سوری سے رولنگ دِلا کر اسے ناکارہ بنا دوں گا۔ یہ بھی نہ ہو پایا تو اسمبلی توڑ دوں گا۔“ خان صاحب نے یہ سب کچھ کیا لیکن کچھ بھی نہ ہوا۔

ابھی اِس جواں مرگ خواب کا کفن بھی میلا نہ ہوا تھا کہ جاگتی آنکھوں میں ایک نئے خواب کا غنچہ پھوٹا۔ ”میں عوامی طاقت کے بَل پر انقلاب لاؤں گا۔ ’چوروں اور ڈاکوؤں‘ کی حکومت گرا کر دم لوں گا۔ نئے انتخابات کر اؤں گا۔ اِنہیں مرضی کا آرمی چیف نہیں لگانے دوں گا۔“ دانش کہہ رہی تھی کہ اسمبلی میں رہو۔ صرف دو تین ووٹوں کی برتری رکھنے والی ڈھلمل مخلوط حکومت کا ناطقہ بند کیے رکھو لیکن جاگتی آنکھوں کی خود فریبی کچھ اور کہہ رہی تھی۔

خان صاحب نے اجتماعی استعفے دیے۔ عوام کو اکسایا، جلسوں، جلوسوں، دھرنوں، لانگ مارچوں کی چتا سلگائی۔ جھنجھلاہٹ میں پنجاب اور خیبرپختونخوا کی اسمبلیاں توڑ دیں۔ اب جاگتی آنکھوں میں ایک نئے خواب کا سراب آ بسا ہے۔ ”میں مقبول ہوں۔ انتخابات میں دو تہائی اکثریت حاصل کروں گا۔“ دلیل یہ ہے کہ اکتوبر 2022 کے ضمنی انتخابات میں، میں نے حریفوں کو شکست فاش دے دی تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ 71 فی صد عوام نے اِن انتخابات کا بائیکاٹ کیا۔ صرف 29 فی صد پولنگ ہوئی۔ پنجاب میں قومی اسمبلی کے تین حلقوں میں انتخابات ہوئے۔ ایک میں پی ٹی آئی ہار گئی۔ دو میں خان صاحب جیت گئے۔ انہوں نے 190226 اور مسلم لیگ (ن) کے امیدواروں نے 155445 ووٹ حاصل کیے۔ تب پنجاب میں پی ٹی آئی کی حکومت تھی اور ”ڈسکہ کی دھند“ والے سارے فن کار مورچوں پہ تھے۔ اب جاگتی آنکھیں اسی ”فتح مبین“ سے مستقبل کے خواب بن رہی ہیں۔ کراچی کے بلدیاتی انتخابات نے بھی کچھ نہیں بگاڑا۔

تازہ ترین صورت حال یہ ہے کہ وفاقی اور صوبائی اسمبلیوں سے مستعفی ارکان، خان صاحب کی حکمت و فراست کا سیاپا کر رہے ہیں۔ پرویز الٰہی ٹھٹھا اڑانے، جملے کسنے اور دشنام کرنے میں لگے ہیں۔ امریکی سائفر کا بیانیہ جو بائیڈن اور حسین حقانی سے ہوتا ہوا محسن نقوی تک آن پہنچا ہے۔ فیڈرل لاجز کے سو سے زیادہ کمرے خالی کرائے جا رہے ہیں۔ قصر بنی گالہ کے گردوپیش صف بستہ سکیورٹی گارڈز خیبر پختونخوا سدھار گئے ہیں۔ خان صاحب خود اختیاری نظربندی میں چلے گئے ہیں۔ ان کا سارا جہاد سرِشام دو جھنڈوں کے درمیان بیٹھ کر بے ربط تقریروں تک محدود ہو کر رہ گیا ہے۔ بنی گالہ کے پرفضا ماحول کے خواب تو حسین و دلکش تھے، زمان پارک کی گھٹن میں جاگتی آنکھوں میں اب ڈراؤنے خواب اترنے لگے ہیں۔ خان صاحب نے کہا ”آصف زرداری نے مجھے قتل کرانے کے لئے دہشت گرد خرید لئے ہیں۔ طاقت ور سہولت کار بھی سازش میں شریک ہیں۔“ آگے آگے دیکھئے!

امجد اسلام امجد پھر یاد آ رہا ہے۔
نہ آسماں سے نہ دشمن کے زور و زر سے ہوا
یہ معجزہ تو مرے دستِ بے ہنر سے ہوا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments