لاہور براستہ قطر: پی آئی اے پر یورپ میں پابندی لگوانے کے نتائج


دوحہ ائرپورٹ پر میں فلائٹ میں داخل ہوا تو ایک عجیب پریشانی کا عالم دیکھا۔ ایک سیٹ پر ایک دو سال کا بچہ مسلسل رو رہا تھا۔ ایک بزرگ ہانپتے ہوئے فلائٹ میں چڑھے تھے ان کی سانس پھولی ہوئی تھی مجھے کالج کا زمانہ یاد آ گیا جب ہم ویگن کو دوڑ کر پکڑتے تھے۔ ایک ستر سالہ خاتون ہر سیٹ پر جا کر منت کر رہی تھی کہ کوئی مجھے اپنا فون دے دو میں نے پاکستان کال کرنی ہے۔ خاتون کا کہنا تھا کہ میں لندن سے آئی ہوں میں نے اپنی پچھلی فلائٹ قطر میں ٹرمینل نمبر تلاش کرنے میں ہی مس کر دی تھی۔ میرے بچے ائرپورٹ پر مجھے نہ پا کر بہت پریشان ہو گئے ہوں گے۔ کوئی اس کی مدد نہیں کر رہا تھا۔ وہ ائر ہوسٹس سے بولی آپ فون کروا دیں۔ ائر ہوسٹس کو اس کی بات کی سمجھ ہی نہیں آ رہی تھی۔ آخر ایک قطر کی فیملی نے ماں جی کو واٹس ایپ کال کرنے کی آفر دی۔ ماں جی کے بیٹے ایک انجان نمبر کی کال اٹھا نہیں رہے تھے۔ میں نے ماں جی کو مشورہ دیا کہ وہ میسج ریکارڈ کر وا دیں۔ ماں جی نے واٹس ایپ پر روتے ہوئے میسج ریکارڈ کروایا اور اپنے بچوں کو اگلے دن لاہور پہنچنے کا کہا۔

ماں جی خاموش ہوئیں تو پیچھے والی سیٹ پر روتے ہوئے بچے نے اپنے لمبے راگ چھیڑے۔ میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو اس کا والد معذرت خواہانہ انداز میں بولا وہ جناب اصل میں ہم پچھلے سولہ سترہ گھنٹے سے سفر میں ہیں بچہ تھک گیا ہے۔ شیفلڈ سے رات چار بجے نکلے تھے وہاں سے مانچسٹر، مانچسٹر سے لندن اور اب لندن سے دوحہ پہنچے ہیں اور اس کے بعد لاہور والی فلائٹ پر دوڑ کر بیٹھے ہیں۔ مانچسٹر والوں کے بارے کبھی مشہور تھا کہ یہ شام کا کھانا کھا کر گھر سے نکلتے تھے پی آئی اے کی فلائٹ میں سوئے رہتے تھے اور صبح کا ناشتہ لاہور میں جا کر کرتے تھے۔ لیکن اب اسی سفر میں بیس بیس گھنٹے لگ جاتے ہیں۔ اس سات گھنٹے کے آرام دہ سفر کو اتنا ایڈونچرس بنانے میں ایک بہت ہی تعلیم یافتہ اور اہل وزیر ہوا بازی کا ہاتھ ہے جس نے پارلیمنٹ کے فلور پر ایک بیان دیا اور گزشتہ تین چار سال سے پی آئی اے کو یورپ برطانیہ اور امریکہ میں بین کرا دیا۔

پی آئی اے کی بندش کی پریشانی ایک اور پڑھے لکھے مشیر وزیر اعظم نے یوں حل کرائی کہ اس نے برٹش ائر ویز سے معاہدہ کر لیا اس معاہدے کے بعد اس پارٹی کے کارکنان نے اسے پاکستانی سفارت کاری کی تاریخی کامیابی قرار دے کر خوب جشن منایا۔ ہم نے بھی بڑے شوق سے برٹش ائر ویز کی ٹکٹ بنائی تھی۔ لیکن یہ جوش اس وقت چکنا چور ہو گیا۔ جب یہ فلائٹ ہمیں مانچسٹر سے لیکر لندن پہنچی۔ لندن سے ہمیں دوحہ قطر کی فلائٹ لینی تھی۔ لندن میں ایک ٹرمینل سے دوسرے ٹرمینل تک بذریعہ بس پہنچ کر ہم متعلقہ کا ؤنٹر پر پہنچے تو وہاں برٹش ائر ویز کی بجائے قطر ائر ویز لکھا ہوا تھا۔

ذرا ذہن کو جھٹکا تو عقل ٹھکانے آئی کہ برٹش ائر ویز نے ہمارے ساتھ وہ کیا تھا جو ماضی میں گجرات سے اسلام آباد کے سفر میں لوکل بسیں کیا کرتی تھیں۔ ان کے کنڈیکٹر سواریاں بٹھاتے ہوئے تو گلا پھاڑ پھاڑ کر پنڈی اسلام آباد کا شور مچاتے تھے اور پھر جہلم پہنچ کر سواریوں کو ایک اور بس کمپنی کو بیچ دیتے تھے۔ شاید یہ نادر آئیڈیا برٹش ائر ویز کو اسی مشیر موصوف نے دیا ہو جنہوں نے یہ معاہدہ کیا ہے۔

قطر ائر ویز کی فلائٹ دو گھنٹے لیٹ اڑی۔ جب ہم دوحہ میں فلائٹ سے باہر نکلے تو ایک شخص ہاتھ میں نوٹس بورڈ پکڑے کھڑا تھا جو زور زور سے لاہور لاہور چلا رہا تھا۔ محسوس ہوا کہ ہم کسی لاری اڈے پر اتر آئے ہیں۔ اس نے سواریاں گن کر ہم سب کو اپنے پیچھے چلنے کا کہا اور خود دوڑ لگا دی۔ میں نے اسے کہا یار کچھ خیال کرو مسافروں میں کچھ بزرگ بھی ہیں اور کچھ خواتین بچوں کے ساتھ ہیں۔ اس کو بات سمجھ آ گئی وہ بولا آپ کچھ مسافروں کو لے کر گیٹ بی ون پر چلے جائیں میں باقی مسافروں کو لے کر آتا ہوں۔ ہم خدا خدا کر کے گیٹ پر پہنچے تو فلائٹ قطر سے سوار ہونے والے مسافروں سے بھری ہوئی تھی بس ہمارا ہی انتظار ہو رہا تھا۔

جس تیزی سے ہمیں فلائٹ میں سوار کرایا گیا تھا اس پر میرے ذہن میں سوال پیدا ہوا کہ ہمارا سامان اتنی تیزی سے فلائٹ میں کیسے داخل کرایا گیا ہو گا۔ برے خیالات اکثر سچ ثابت ہوتے ہیں۔ فلائٹ لاہور اتری تو انہی ماں جی نے دوبارہ اپنے بیٹوں کو فون کیا۔ وہ ساری رات انتظار کر کے واپس منڈی بہا ؤالدین جا کر سو گئے تھے اور انہوں نے ماں جی کا میسج بھی نہیں سنا تھا۔ ماں جی دوبارہ رونا شروع ہو گئیں کہ کم بختو اب میں پانچ گھنٹے ائر پورٹ پر کیسے تمہارا انتظار کروں گی۔

ہم باہر نکل کر سامان کے بیلٹ پر اپنے بیگوں کا انتظار کرنے لگے۔ لیکن بیگ تو تب آتے اگر وہ فلائٹ میں ہمارے والی رفتار سے ہانپتے ہوئے سوار ہوتے۔ تمام کنیکٹنگ فلائٹس کے مسافروں کا سامان نہیں آیا تھا۔ آسٹریلیا، لندن اور مانچسٹر سے آنے والے مسافر سامان نہ ملنے پر متعلقہ کا ؤنٹر پر عملے سے دست و گریبان ہونے کو تیار بیٹھے تھے۔ کیونکہ مسافروں میں سے کچھ ملتان سے تھے تو کچھ فیصل آباد سے اور کچھ گجرات منڈی بہاؤ الدین سے ان لوگوں کے لئے اگلے دن سامان لینے آنا ازخود ایک عذاب سے کم نہیں تھا۔

برطانیہ میں ایک کونسل تھا روزن ڈیل۔ کوئی بھی ڈرائیور معمول کا ڈرائیونگ ٹیسٹ پاس کر کے وہاں سے ٹیکسی لائسنس لے سکتا تھا۔ برطانیہ کے اخبارات میں خبریں چھپنا شروع ہو گئیں کہ اس کونسل کے ڈرائیوروں کو نہ تو انگلش آتی ہے اور نہ ہی انہیں شہر کے نقشوں کا علم ہوتا ہے۔ اس کونسل پر عدالت میں کیس بھی دائر ہو گئے کہ ان ڈرائیوروں کے لائسنس منسوخ کیے جائیں لیکن وہ کونسل ڈٹا رہا اور اپنے کسی بھی ڈرائیور کا لائسنس کینسل نہیں کیا۔

کیس بھی لڑتا رہا اور آہستہ آہستہ اپنے ڈرائیورز کے لئے یہ شرائط بھی عائد کرتا رہا کہ آئندہ لائسنس ری نیو کروانے سے پہلے انگلش کورس کر کے آنا۔ اس طرح متعلقہ کونسل خود بھی بزنس کماتا رہا اور اپنے ڈرائیورز کو بھی بے روزگار نہیں ہونے دیا۔ ہم مغرب کو جاننے کا دعوی تو کرتے ہیں کاش ان سے تھوڑی سی حکمت بھی سیکھ لیتے۔ حیرت ہوتی ہے کہ پاکستان میں کیسے کیسے نابغے مسند اقتدار پر بیٹھتے رہے ہیں جو کوئی بھی بیان ہانکنے سے پہلے ایک لمحے کے لئے بھی نہیں سوچتے کہ ان کے اس بیان سے کتنے لوگ بے روزگار ہوں گے کتنی مائیں فلائٹس مس کر کے پنجابی میں دوحہ ائرپورٹ پر مدد مانگیں گی۔ کتنے بچے سات گھنٹے کا سفر بیس گھنٹوں میں کریں گے۔ کتنے تاجر، کتنے بزنس مین اپنے تازہ پھل اور سبزیاں تک ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل نہیں کر سکیں گے۔ کتنی ڈیڈ باڈیز پاکستان میں پہنچانے کی لاگت تین گنا بڑھ جائے گی۔ کتنے ہی مسافروں کا سامان گھر نہیں پہنچ پائے گا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments