آئی ایم ایف کو دشمن بتانے سے پاکستان کے مسائل حل نہیں ہوں گے!


پاکستان کو کرپشن سے پاک کرنے کا دعویٰ کرنے والے عمران خان نے کارکنوں کو ’جیل بھرو تحریک‘ کے لئے تیار رہنے کی ہدایت کی ہے تو اس کے ساتھ ہی حکومت اور وزیر خزانہ پر آئی ایم ایف کے سامنے گھٹنے ٹیکنے کا الزام عائد کیا ہے۔ شکر ہے انہوں نے اسحاق ڈار کو صرف عالمی مالیاتی فنڈ کے سامنے کمزور پڑنے کا طعنہ ہی دیا ہے، یہ نہیں کہا کہ ’امپورٹڈ حکومت‘ نے ملک کو آئی ایم ایف کے ہاتھوں بیچ دیا ہے۔

اس کی ایک وجہ شاید یہ رہی ہوگی کہ عمران خان کو اب بھی دوبارہ وزیر اعظم بننے کی امید ہے اور وہ یہ اعتراف بھی کرچکے ہیں کہ اگر وہ برسر اقتدار آئے تو آئی ایم ایف کے پاس جانے کے سوا معیشت بحال کرنے کا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہو گا۔ حیرت تو صرف اس بات پر ہوتی ہے کہ جب قومی لیڈروں کو پتہ ہے معاشی بدحالی کی موجودہ صورت حال میں عالمی مالیاتی ادارے سے امداد لینے اور اس کے جاری کردہ معاشی ’صحت سرٹیفکیٹ‘ کی بنیاد پر دیگر ممالک و اداروں سے زر مبادلہ کے قحط کا شکار قومی خزانہ بھرنے کے سوا کوئی راستہ نہیں ہے تو وہ اس صورت حال میں ایک دوسرے کا سہارا بننے کی بجائے ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے پر کیوں بضد ہیں؟

حالانکہ بعض بنیادی نکات پر قومی افہام و تفہیم سے کسی ایک سیاسی پارٹی یا گروپ کو فائدہ نہیں ہو گا لیکن ملک کے لئے موجودہ مشکل صورت حال سے نکلنا آسان ہو جائے گا۔ عمران خان کے طرز عمل سے یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں ہے کہ وہ ملک چلانے کے لئے طریقے تو وہی اختیار کریں گے جو اس وقت اسحاق ڈار اور شہباز شریف اپنائے ہوئے ہیں یعنی آئی ایم ایف کی سخت اور سنگین شرائط مانی جائیں گی۔ تاہم ایسا وقت آنے سے پہلے وہ سیاسی طور سے ملک و قوم کو لاحق اس کمزوری سے پورا فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔ وہ پورا زور لگا کر اپنے حامیوں کو یقین دلانا چاہتے ہیں کہ ملک کی مشکلات کی واحد وجہ شہباز حکومت ہے کیوں کہ وہ تحریک انصاف کی حکومت گرا کر لائی گئی تھی۔

یہاں یہ تسلیم نہ کرنا بھی زیادتی ہوگی کہ عمران خان بعینہ وہی حکمت عملی اختیار کر رہے ہیں جو ان کی جگہ پر موجود کوئی بھی سیاسی اپوزیشن کرتی۔ حکومت کی کمزوریوں کو بڑھا چڑھا پیش کیا جاتا اور اس کی بنیاد پر ایسا سیاسی ماحول بنایا جاتا جس میں انتخابی فتح کا امکان روشن ہوجاتا۔ یعنی عمران خان اپنے قول و فعل سے اس وقت جو کام کر رہے ہیں، موجودہ حکومتی پارٹیاں اگر اپوزیشن میں ہوتیں تو وہ بھی وہی کرتیں۔ بلکہ دیکھا جائے تو شہباز شریف اور ان کے ساتھی تو حکومت میں ہونے کے باوجود معاشی و سیاسی عاقبت نا اندیشی کا سارا بوجھ عمران خان کی حکومت کی طرف منتقل کر کے خود سرخرو ہونا چاہتے ہیں۔ عمران خان نے خود کو چونکہ نیکی و راستی کی اعلیٰ علامت کے طور پر لانچ کیا ہوا ہے، اس لئے عمران خان کے سیاسی طرز عمل کے حوالے سے دو سوالات سامنے آتے ہیں۔ جن کا جواب عمران خان پر بھی واجب ہے اور ملک کے شہریوں کو اپنے طور پر بھی ان سوالات کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کرنا چاہیے۔ سوالات یہ ہیں :

1۔ عمران خان اگر باقی سب سیاست دانوں سے مختلف ہیں۔ اور ان کا اخلاقی معیار باقی ماندہ ’بدعنوان‘ سیاست دانوں سے علیحدہ ہے تو کیا وجہ ہے کہ وہ بھی وہی سیاسی رویہ، ہتھکنڈے اور طریقے اختیار کر رہے ہیں جو دوسرے سیاست دان ہمیشہ سے اختیار کرتے آئے ہیں۔ یعنی خود اقتدار تک پہنچنے کے لئے ہر ادارے سے سودے بازی کی جائے، ہر ناجائز اور غیر قانونی طریقہ اختیار کیا جائے، ہر اس شخص کو ساتھ ملایا جائے جو سیاسی قوت رکھتا ہو اور اپنی نشست یا کچھ مزید نشستوں پر کامیابی کی ضمانت فراہم کر سکتا ہو۔ اگر کوئی سیاسی لحاظ سے طاقت ور شخص ’بدعنوانوں کے ٹولے‘ کو چھوڑ کر اس وقت بھی عمران خان کے ساتھ مل جائے تو اسے نیکو کاری کا سرٹیفکیٹ عطا ہو جائے گا اور یہ غور کرنے کی کوشش نہیں کی جائے گی کہ اس شخص یا گروہ کا ماضی کیسا داغدار ہے یا اس پر بدعنوانی کے کتنے مقدمے قائم رہے ہیں۔ سوال ہے پھر عمران خان خود کو دوسروں سے مختلف کیسے کہتے ہیں۔ سیاست میں صرف دعویٰ کر دینا ہی کافی نہیں ہوتا بلکہ اپنے طرز عمل سے ثابت بھی کرنا پڑتا ہے کہ ایک لیڈر جو کہہ رہا ہے وہ اس کے مطابق عمل کرنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔ بدقسمتی سے عمران خان کا سیاسی پس منظر، ان کا دور حکومت اور اب اپوزیشن میں ان کا طرز عمل، ان کے بلند بانگ دعوؤں کی تائید نہیں کرتا۔

2۔ اس حوالے سے دوسرا اہم پہلو یہ ہے کہ عمران خان کا دعویٰ ہے کہ ملکی معاشی حالات اسی وقت ٹھیک ہوں گے جب انہیں اسمبلیوں میں دو تہائی اکثریت سے اقتدار سونپا جائے گا۔ اس سے قطع نظر کہ یہ تقاضا کس حد تک حقیقت پسندانہ ہے، اگر عمران خان کا یہ دعویٰ درست تسلیم کر لیا جائے کہ فوری انتخابات کے نتیجے میں تحریک انصاف کے سوا کوئی دوسری سیاسی قوت کامیاب نہیں ہو سکتی تو بھی انہیں پاکستانی سیاست کے اس پہلو پر تو غور کرنا چاہیے کہ ہارنے والی پارٹیاں، عمران خان کی حکومت کے لئے بالکل وہی مشکلات پیدا کریں گی جو اس وقت عمران خان حکمران جماعتوں کے لئے سامنے لا رہے ہیں۔ یہ جماعتیں تو کسی اعلیٰ سیاسی اخلاقیات کا درس بھی نہیں دیتیں۔ تحریک انصاف کی سابقہ حکومت میں بھی یہ سلسلہ چلتا رہا تھا لیکن اسٹبلشمنٹ کی مکمل سرپرستی کی وجہ سے اسے کامیاب نہیں ہونے دیا گیا۔ اسٹبلشمنٹ اگر مسلسل غیر سیاسی رہنے کے فیصلے پر قائم رہتی ہے تو عمران خان دوبارہ اقتدار میں آ کر بدنظمی، انتشار اور افراتفری کے ماحول میں کیسے کامیاب حکمرانی کا نظام قائم کرسکیں گے؟

ان دو پہلوؤں کو پیش نظر رکھا جائے تو عمران خان سمیت تمام ملکی قیادت پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ کسی قومی ایجنڈے پر اتفاق رائے پیدا کیا جائے تاکہ ملک کو جن سنگین مسائل کا سامنا ہے، انہیں ایک دوسرے کی کردار کشی کے لئے استعمال کرنے کی بجائے، معاشی بحران اور سکیورٹی مسائل سے نکلنے کے لئے عمومی تعاون کی فضا پیدا کی جا سکے۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے آل پارٹیز کانفرنس بلا کر اس اقدام کے لئے موقع تو فراہم کیا ہے لیکن حکومت کی نیک نیتی پر سوالیہ نشان کے علاوہ تحریک انصاف کی ضد کے ماحول میں اس بات کا بہت کم امکان ہے کہ یہ کانفرنس کسی پیش رفت کا سبب بنے گی۔ اسے اگرچہ قومی المیہ ہی کا نام دینا چاہیے لیکن بدقسمتی سے تمام سیاسی لیڈر اس المیہ کے ذمہ دار ہیں۔

قومی مسائل سے روگردانی ایک عمومی رویہ بن چکا ہے۔ اس ماحول میں الزام تراشی ہی واحد ہتھکنڈا بچتا ہے جسے استعمال کرتے ہوئے سب لیڈر اپنی دکان چمکانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اسی رسہ کشی میں مسائل ہر آنے والے دن کے ساتھ کشیدہ اور دگرگوں ہوتے جا رہے ہیں۔ الزام تراشی کا یہ رویہ محض ایک دوسرے کو بد نیت اور گمراہ قرار دینے تک محدود نہیں ہے بلکہ دوسرے ملکوں یا عالمی اداروں کو بھی اس بحث میں لپیٹ کر ملکی مباحث کو آلودہ اور عوام کا دماغ ماؤف کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ عدم اعتماد کے بعد امریکہ پر سازش کا الزام عائد کرنے کی مہم جوئی اسی طرز عمل کا نتیجہ تھی۔ اب بھی عالمی مالیاتی ادارے کو ملک میں ایک ’ولن‘ کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ تمام سیاسی لیڈر عوام کو یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ تو حالات کو سنبھال لیتے لیکن یہ آئی ایم ایف بیچ میں آ گیا۔

آئی ایم ایف بلاشبہ عالمی سرمایہ دارانہ نظام کا ایک ادارہ ہے لیکن پاکستان سمیت کوئی بھی ملک خود اپنی مجبوریوں میں اس ادارے سے امداد کی خواہش ظاہر کرتا ہے۔ کبھی آئی ایم ایف نے خود آ کر یہ نہیں کہا کہ نہیں اب تو آپ کو ہماری شرائط پر ہم سے قرض لینا ہی پڑے گا۔ اس پہلو سے دیکھا جائے تو بنیادی نقص پاکستان کے معاشی، انتظامی و سیاسی نظام میں ہے۔ بوجوہ ان برائیوں کو دور کرنے کی کوشش نہیں کی جاتی لیکن جب آئی ایم ایف امداد دینے سے پہلے معیشت بحالی منصوبے کے نام پر ان اصلاحات کا تقاضا کرتا ہے تو آئی ایم ایف کو برائی کی علامت بنا لیا جاتا ہے۔ حالانکہ عالمی مالیاتی فنڈ تو وہی اقدامات کرنے کا مطالبہ کرتا ہے جو کسی ملک کی حکومت کو اصلاح احوال کے لئے خود ہی کر لینے چاہئیں تھے۔

یہ دلچسپ خبر بہت سے قارئین کی نظر سے گزری ہوگی کہ آئی ایم ایف کے مطالبے پر حکومت نے گریڈ 17 سے 22 تک کے افسران کو بینک اکاؤنٹ کھولنے کے لیے اپنے اثاثے ظاہر کرنا لازمی قرار دیا ہے۔ خبر کے مطابق آئی ایم ایف 2018 سے یہ اصول نافذ کرنے کا مطالبہ کر رہا ہے۔ یعنی تحریک انصاف کی حکومت نے جب آئی ایم ایف سے رابطہ کیا تھا تو اسی وقت سے سرکاری افسروں کے اثاثوں کی نگرانی کا اصول نافذ کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ دیکھا جائے تو اس اصول کو منوانے سے آئی ایم ایف یا سرمایہ دار قوتوں کو کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ اس سے تو صرف ملک میں بدعنوانی کے خاتمہ کا نظام توڑنے اور شفافیت لانے کا آغاز ہو سکے گا۔ ملکی بیورو کریسی میں رشوت خوری اور بدعنوانی کوئی نئی بات نہیں ہے۔ لیکن کرپشن کے خلاف قومی تحریک چلانے والے عمران خان نے بھی اپنے دور اقتدار میں اس اصول کو نافذ کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی کیوں کہ وہ صرف سیاسی مخالفین کی کردار کشی کے لئے کرپشن کو سیاسی نعرے کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ حالانکہ شفافیت کے لئے ملکی نظام کو رشوت ستانی اور ناجائز ذرائع سے دولت کمانے کے ہتھکنڈوں سے نجات دلانے کی ضرورت ہے۔

اسی خبر میں یہ بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ سول افسروں کے اثاثوں کو رجسٹر کرنے کا اصول صرف سول سرونٹس پر نافذ کیا گیا ہے۔ اب بھی ججوں و فوجی افسروں کو اس سے استثنٰی دیا گیا ہے۔ کیا وجہ ہے کہ ملک میں قانون نافذ کرنے کے ذمہ دار ججوں اور فوجی افسروں کے اثاثے ریکارڈ پر لانے سے گریز کیا گیا ہے؟ اگر ان لوگوں کی دیانت ہر شک و شبہ سے بالا ہے، پھر تو انہیں کوئی عہدہ سنبھالنے سے پہلے رضاکارانہ طور اپنے اثاثے ظاہر کرنے چاہئیں۔ اس کے برعکس دیکھا جا سکتا ہے کہ حکومتی وفد نے آئی ایم ایف کی منت سماجت کے ذریعے ابھی تک ججوں و جرنیلوں کو اثاثے ظاہر کرنے سے استثنٰی دلوایا ہے۔ بلکہ سابق آرمی چیف کے اثاثے ایک ویب سائٹ کو فراہم کرنے کے الزام میں متعدد سرکاری اہلکاروں پر مقدمے چلائے جا رہے ہیں لیکن جنرل باجوہ سے ایک بار بھی پوچھا نہیں گیا کہ وہ اپنی آمدنی و اثاثوں کی بیلنس شیٹ سامنے لائیں؟

اس تناظر میں دیکھا جاسکتا ہے کہ آئی ایم ایف جیسے اداروں کو مورد الزام ٹھہرانے سے ملکی مسائل حل نہیں ہوں گے بلکہ اس مقصد کے لئے قومی اصلاح کے وسیع اور ٹھوس ایجنڈے پر عمل کرنا پڑے۔ ہر عہدیدار کو اس کی حیثیت و پوزیشن سے قطع نظر جوابدہی پر مجبور کرنے کا اصول قومی منشور کے طور پر اپنانا پڑے گا۔ جب تک یہ کام نہیں ہو سکے گا، سیاست دار ایک دوسرے کی پگڑیاں اچھالتے رہیں گے لیکن اصلاح کا عمل شروع نہیں ہو سکے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments