چار کا ٹولہ پھر پانچ کا ٹولہ


کسی کو بھاگنے مت دینا، یہ الفاظ تھے سابق آرمی چیف پرویز مشرف تھے، پرویز مشرف 79 سال کی عمر میں انتقال کر گئے، پرویز مشرف کا بطور صدر 9 سالہ دور حکومت پاکستان پر گہرے اثرات مرتب کر گیا۔ ان سالوں میں جمہوریت کا گلہ بری طرح گھونٹ دیا گیا، اظہار رائے کی آزادی ختم کردی گئی، تمام بڑے سیاستدانوں کو جیلوں میں ڈال دیا گیا میدان میں صرف وہی سیاستدان رہ گئے جن کو پرویز مشرف وردی میں صدر پاکستان قبول تھے۔ ان سیاستدانوں میں سب سے پہلے گجرات کے چوہدریوں کا نام آتا ہے، پرویز الہی نے مشرف کی چھتری کی نیچے آ کر واضح الفاظ میں کہا ہمیں دس بار مشرف وردی میں قبول ہے۔

12 اکتوبر 1999 کا مارشل لاء کامیاب کروانے میں کورکمانڈر کراچی جنرل مظفر عثمانی نے مرکزی رول ادا کیا۔ اگر جنرل مظفر عثمانی بارہ اکتوبر 1999 کی رات اپنے حلف کی پاسداری کرتے تو پاکستان کبھی دوبارہ آمریت کے سیاہ بدلوں میں نہ گم ہوتا۔ کارگل کے ناکام آپریشن اور واجپائی کے دورہ پاکستان پر اعلان لاہور کے معاہدے نے پرویز مشرف، جنرل محمود، جنرل شاہد عزیز اور جنرل شاہد کو جمہوری حکومت کا تختہ الٹانے کا موقع فراہم کیا۔

ان چار لوگوں کو تاریخ میں چار کے ٹولے سے یاد کیا جاتا ہے۔ ان چار لوگوں نے پاکستان میں مارشل لاء لگانے کا کوئی ہنگامی بنیادوں پر پلان نہیں بنایا تھا بلکہ اس کی پلاننگ گزشتہ کئی ہفتوں سے چل رہی تھی۔ یہ لوگوں کارگل کے ناکام آپریشن کے بعد ہی اس مشن پر لگ گئے تھے۔ جبکہ واجپائی کے دورہ لاہور پر مسئلہ کشمیر کا بات چیت کے ذریعے حل کرنے پر مکمل اتفاق ہو گیا تھا۔ ایک دن اچانک نواز شریف نے آئی ایس آئی کے چیف جنرل ضیاء الدین بٹ کو وزیراعظم ہاؤس بلایا اور ان کو کہا آپ کو آرمی چیف بنایا جا رہا ہے۔

جنرل ضیاء الدین بٹ ایک ہفتہ پہلے قبل از وقت ریٹائرڈ منٹ مانگ رہے تھے اب وہ آرمی چیف بننے جا رہے تھے۔ وزیر اعظم نواز شریف نے اپنے ملٹری سیکرٹری برگیڈیئر جاوید اقبال کو بیجز لگانے کی تقریب شروع کرنے کا حکم دیا، جنرل ضیاء الدین کو آرمی چیف کے بیجز لگا دیے۔ بظاہر ایک معمول کی کارروائی پرسکون انداز میں مکمل ہو گئی۔ لیکن یہ اتنی بھی سادہ نہیں تھی جتنی نواز شریف کی حکومت سمجھ رہی تھی۔ دوسری جانب پرویز مشرف اور ان کے ساتھی جنرلز اس متوقع صورتحال سے نمٹنے کا پلان بھی بنا چکے تھے۔

نواز شریف دو تہائی اکثریت حاصل کر کے طاقت ترین وزیراعظم بن کر آئے تھے لیکن انہوں نے سب سے پہلے صدر پاکستان فاروق لغاری جو آج کل مسلم لیگ نون پنجاب کے جنرل سیکرٹری اویس لغاری کے والد ہیں ان کو عہدے سے ہٹایا، پھر نواز شریف نے چیف جسٹس سید سجاد علی شاہ کو عہدے سے ہٹایا، پھر آرمی چیف جہانگیر کرامت کو عہدے سے ہٹایا جبکہ پاک بحریہ کے دو چیفس کو نواز شریف سے اختلافات کی وجہ سے استعفے دینے پڑے۔ جیسے ہی پرویز مشرف کی برطرفی اور نئے آرمی چیف جنرل ضیاء الدین بٹ کی تعیناتی کی خبر پی ٹی وی پر نشر ہوئی مشرف کے ساتھی بھی حرکت میں آ گئے۔

اس رات کورکمانڈر کراچی جنرل مظفر عثمانی کو وزیر اعظم ہاؤس سے دو و فون اور راولپنڈی سے بھی دو فون گئے۔ پہلا فون وزیر اعظم نواز شریف نے کیا۔ جس میں نواز شریف نے جنرل مظفر عثمانی سے کہا آپ اپنے بیٹے کو اعلیٰ تعلیم کے لئے امریکہ بھیجنا چاہتے ہیں اس کا بندوبست ہو چکا ہے اب آپ اپنے بیٹے کے متعلق پریشان مت ہوں۔ دوسرا فون وزیراعظم کے ملٹری سیکرٹری برگیڈیئر جاوید اقبال نے کیا۔ انہوں نے جنرل مظفر عثمانی کو کہا پرویز مشرف کا جہاز جیسے کراچی ائر پورٹ لینڈ کرے ان کو پروٹوکول دینے کی کوئی ضرورت نہیں ان کو باحفاظت کراچی آرمی ہاؤس میں لے جایا جائے اور اگلے حکم تک ان کو وہاں ہاؤس ریسٹ رکھا جائے گا۔

اس کے بعد جنرل مظفر عثمانی کو اگلے ہی لمحے جنرل محمود کا فون آتا ہے وہ پوچھتے ہیں اب تک کیا کیا گیا ہے جنرل عثمانی کہتے ہیں کچھ بھی نہیں۔ یہ جواب سن کر جنرل محمود مطمئن ہو جاتے ہیں۔ چوتھا فون جنرل شاہد عزیز کا آتا ہے وہ جنرل عثمانی کو پوچھتے ہیں کیا پلاننگ ہے جنرل شاہد عزیز کہتے ہیں جنرل مشرف آپ کو جانے سے پہلے کوئی حکم دے کر گئے جنرل عثمانی کہتے ہی جی، جنرل شاہد عزیز کہتے ہیں پھر اس حکم پر عملدرآمد کریں۔

اب تک کی صورتحال کے بعد پرویز مشرف کے تینوں ساتھی جنرل محمود، جنرل شاہد عزیز اور جنرل شاہد یہ جان چکے تھے کہ جنرل عثمانی ہمارے ساتھ ہیں جنرل ضیاء الدین بٹ کے ساتھ نہیں ہیں۔ خیر قصہ مختصر پرویز مشرف کا طیارہ کراچی ائر پورٹ لینڈ کر جاتا ہے۔ جنرل عثمانی ان کو گرفتار کرنے کی بجائے آرمی چیف کے پروٹوکول میں واپس آرمی ہاؤس لاتے ہیں۔ رات ایک بجے پرویز مشرف پریس کانفرنس کرتے ہیں اور پاکستان میں باقاعدہ مارشل لاء لگائے جانے کا اعلان کرتے ہیں۔

پرویز مشرف پریس کانفرنس کے بعد جنرل محمود کو پہلا حکم دیتے ہیں کہ کسی کو بھاگنے مت دینا۔ وزیراعظم ہاؤس سے جب نواز شریف، شہباز شریف اور حسین نواز کو گرفتار کیا جاتا ہے تو اس وقت چوہدری نثار بھی وزیراعظم ہاؤس میں ہی تھے لیکن جیسے ہی فوجی دستے کنٹرول سنبھالتے ہیں چوہدری نثار اچانک غائب ہو جاتے ہیں۔ خیر ملک میں ایک اور مارشل لاء لگنا تھا لگ گیا۔ اس کے کچھ سالوں بعد عمران دور میں پشاور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس سیٹھ وقار کی سربراہی میں خصوصی عدالت پرویز مشرف پر آئین توڑنے کے جنرل پر آرٹیکل 6 لگانے کا فیصلہ سناتی ہے اور حکم دیتی ہے کہ پرویز مشرف کو تین دن پھانسی پر لٹکایا جائے اگر پھانسی سے قبل وہ انتقال کر جائیں تو ان کی لاش کو ڈی چوک میں لٹکایا جائے۔

اس فیصلے کے کچھ ہی عرصے بعد جسٹس سیٹھ وقار کی خبر آتی ہے ان کا کورونا سے انتقال ہو گیا ہے۔ چار کے ٹولے کے بعد پاکستان میں ایک پانچ کا ٹولہ بھی گزرا ہے جس میں جنرل باجوہ، جنرل فیض، جسٹس ثاقب نثار، جسٹس آصف سعید کھوسہ اور عمران خان شامل تھے۔ اس ٹولے کی نشاندہی گزشتہ دونوں مریم نواز نے اپنے پہلے خطاب میں کی۔ پہلے چار کے ٹولے نے پاکستان کو دہشتگردی، لوڈشیڈنگ اور عالمی تنہائی جیسے بحران دیے جبکہ دوسرے پانچ کا ٹولہ پاکستان کو ایک درجن سے زائد بحران دے کر گیا۔ پہلے ٹولے کے بحرانوں کو ختم کرنے میں دس سال لگے تھے اس بار کے ٹولے کے دیے بحرانوں کو ختم کرنے میں کم از کم بیس سال لگیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments