کیا پاکستان اور بھارت کے تعلقات بہتر ہو سکتے ہیں؟


پانچ فروری کو پاکستان یوم یکجہتی کشمیر کے طور پر اسے مناتا ہے۔ آج کا سب سے ہم سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان اور بھارت کبھی کشمیر کے مسئلے کو حل کر پائیں گے؟ اسی تناظر میں گزشتہ ماہ پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف کا ایک انٹرویو وائرل ہوا ہے۔ وزیراعظم نے دورہ متحدہ عرب امارات میں ایک ٹی وی چینل کو انٹرویو میں بھارت کو مذاکرات کی دعوت دی ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے اس خواہش کا اظہار کیا ہے کہ پڑوسی ممالک کے درمیان جنگوں کا سلسلہ اب ختم ہونا چاہیے اور باہمی تجارت کو ترجیح دی جانی چاہیے تاکہ دونوں ممالک کے غریب عوام کو بھوک، بے روزگاری اور تعلیم و صحت جیسے مسائل سے چھٹکارا مل سکے۔

شہباز شریف کے اس بیان پرنا صرف سرحد کی دونوں جانب بحث مباحثے جاری ہیں بلکہ بین الاقوامی پریس نے بھی اس میں دلچسپی لی ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب پاکستان چاروں اطراف سے معاشی گرداب میں گھرا ہوا ہے، وزیر اعظم کی اس پیش کش کو سنجیدہ لینے کی ضرورت ہے۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ پاکستان جن مسائل میں آج الجھا ہوا ہے، ان مسائل کی بنیادی وجوہات میں سے ایک خطے کے دونوں ممالک کی باہمی لڑی گئی جنگیں بھی ہیں۔ دونوں ممالک کی سکیورٹی فورسز دفاع کی مد میں ایک خطیر رقم خرچ کر رہی ہیں جو کہ تعلیم اور صحت پر خرچ ہونا چاہیے۔

دونوں ممالک آج تک یہ سمجھنے سے قاصر رہے کہ آخر باہمی تعلقات کو بہتر کیسے بنایا جائے۔ ایسا نہیں ہے کہ مذاکرات کی کوششیں پہلے نہیں ہوئیں۔ واجپائی جی کی لاہور یاترا ہو یا جنرل پرویز مشرف کا چار نکاتی فارمولا، امن کے حصول کے لئے ہر دور میں کوششیں ہوتی رہی ہیں۔

تاریخی حوالوں سے دیکھا جائے تو بھارت اور پاکستان کے بیچ تنازعات میں جموں و کشمیر کا مسئلہ سر فہرست ہے۔ اس کے علاوہ کوئی بھی ایسا ایشو نہیں جو ناقابل حل ہو۔ پانی کے مسئلے کو ہی لیجیے، اس کے باوجود کہ دونوں ممالک کے سفارتی تعلقات ختم ہیں مگر انڈس واٹر ٹریٹی پر عملدرآمد کو یقینی بنانے کے لئے دونوں اطراف سے کمیشن ممبران مسلسل نا صرف رابطے میں ہیں بلکہ دونوں باہمی دوروں کے ذریعے باقاعدہ اجلاس بھی کرتے ہیں اور ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے کہ تصفیہ طلب معاملات کو خوش اسلوبی سے حل کیا جائے۔ اسی طرح بارڈر ایشوز پر بھی دونوں جانب کی افواج بد ترین حالات میں بھی مسلسل رابطوں میں رہتے ہیں۔

اگر مذاکرات میں کوئی ڈیڈ لاک ہے تو وہ جموں و کشمیر ہے جہاں سالہا سال سے کوئی پیش رفت نہیں ہو رہی ہے۔ اس ڈیڈلاک کو ختم کیے بغیر آگے بڑھنا دونوں جانب کے لئے مشکل ہو چکا ہے۔ بالخصوص پاکستان کے لئے ایسے کوئی مذاکرات قابل قبول نہیں رہتے۔ جہاں سب سے پہلے جموں و کشمیر پر بات نہ کی جائے۔ بلکہ پانچ اگست کے بعد سے پاکستان نے مزید سخت موقف اپناتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ مذاکرات تب تک نہیں ہو سکتے جب تک جموں و کشمیر کی خود مختار حیثیت کو بحال نہیں کیا جاتا۔

بھارت کے لئے البتہ صورتحال اس کے الٹ ہے۔ بھارت ہمیشہ سے بضد رہا ہے کہ جموں و کشمیر اس کا اندرونی معاملہ ہے، اس سے ہٹ کر باقی تمام معاملات پر بات چیت ہو سکتی ہے۔ یوں بھارت ایک بڑی حقیقت کو قبول کرنے سے ہی آنکھیں چرا رہا ہے۔

دونوں ممالک کے مذاکرات میں ڈیڈ لاک کی بنیادی وجہ یہی انتہائی پوزیشن ہے۔ جسے چھوڑنے کو دونوں راضی نہیں ہیں۔ یہ رویہ کسی بھی مسئلے کے حل کے لئے بالکل مناسب نہیں ہے۔ بلکہ یہ رویہ مذاکرات اور مکالمے کی بنیادی سپرٹ کے ہی خلاف ہے۔ ایک طرف پاکستان ہے جو بات چیت کا آغاز ہی جموں و کشمیر کے نکتے پر چاہتا ہے جبکہ دوسری طرف بھارت جو کہ جموں و کشمیر پر کسی قسم کا ڈائیلاگ کرنا ہی نہیں چاہتا ہے۔ یہ حقیقت پسندی نہیں ہے۔

سوال یہ ہے کہ ایسی صورتحال میں جبکہ دونوں ممالک اپنی اپنی انتہائی پوزیشنز پر کھڑے ہیں، کیا ایسی کوئی صوت قابل قبول ہو سکتی ہے جس پر دونوں ممالک راضی ہوں اور کم از کم مذاکرات کا آغاز ہو سکے؟

میرا خیال ہے یہ وہ سوال ہے جس پر دونوں ممالک کے تھنک ٹینکس کو سوچنا ہو گا۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ باضابطہ اور کھلے عام مذاکرات سے قبل پس پردہ ملاقاتیں کی جائیں۔ ان ملاقاتوں میں اس بنیادی سوال کا جواب تلاش کیا جائے جو کہ اوپر ہم نے رکھا ہے کہ کیا ایسی کوئی صورتحال ممکن ہے جس میں دونوں ممالک اپنی انتہائی پوزیشنز کو چھوڑ کر کوئی درمیانی صورت نکالیں اور کم از کم ڈائیلاگ کا آغاز کر سکیں۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ سیاست سے گریز کیا جائے۔ جذباتیت سے نکل کر دانشمندی سے کام لیا جائے۔

جنرل باجوہ کے دور میں کچھ ایسی اطلاعات بھی آ رہی تھیں کہ پس پردہ ہوم ورک کیا جا رہا ہے۔ اور سلسلہ میں دونوں ممالک کی متحدہ عرب امارات میں ہی کچھ خفیہ ملاقاتیں ہوئی ہیں۔ معلوم نہیں جنرل باجوہ کے جانے کے بعد ان ملاقاتوں کا کیا بنا۔ کیا یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے یا بند کر دیا گیا ہے۔ کیونکہ پاکستان میں گزشتہ ایک سال کے دوران فیصلہ ساز اداروں میں اچانک بڑی تبدیلیاں آئی ہیں۔ اب وزیر اعظم عمران کی جگہ شہباز شریف جبکہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی جگہ جنرل عاصم منیر طاقتور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی کمان سنبھال چکے ہیں۔ وزارت خارجہ میں شاہ محمود کی جگہ اب نوجوان مگر ذہین بلاول بھٹو قلمدان سنبھال چکے ہیں۔ دوسری جانب بھارت میں سخت گیر نریندرا مودی مسلسل دوسری بار انتخابات جیت کر کرسی پر بدستور براجمان ہیں۔

البتہ پاکستان ایک بار پھر انتخابات کی طرف جا رہا ہے۔ ایسے میں مودی سرکار کے لئے یہ ایک ایسا موقع ہے کہ جہاں شاید وہ انتظار کریں اور دیکھیں کہ پاکستان میں اگلی حکومت کون بناتا ہے۔

بہرحال وزیر اعظم شہباز شریف نے اگر بھارت کو مذاکرات کی دعوت دی ہے تو بلاشبہ سوچ سمجھ کر ہی ایسا کوئی قدم اٹھایا گیا ہو گا۔ اب اگر بھارت ہاتھ بڑھاتا ہے تو پاکستان کے ارباب اختیار کو بھی اپنی انتہائی پوزیشن سے نکل کر اس کا خیر مقدم کرنا ہو گا۔

جموں و کشمیر کو بنیادی مسئلہ ضرور سمجھا جانا چاہیے۔ اور حقیقت میں دونوں ریاستوں کے درمیان اصل مسئلہ یہی ہے۔ لیکن اس مسئلے کے حل کے لئے بات چیت اور ڈائیلاگ ہی واحد قابل عمل حل ہے۔ اور بات چیت کو شروع کرنے کے لئے یہ بہت ضروری ہے کہ دونوں ممالک سخت موقف سے دستبردار ہوں۔ انتہائی پوزیشنوں کی بجائے درمیانی صورت اختیار کی جائے۔ کیونکہ مذاکرات کے آغاز کے لئے ایسا کرنا ہی پڑے گا۔ اور مذاکرات یا بات چیت کی بنیادی سپرٹ کا یہی تقاضا ہے کہ پہلے دونوں فریقین اپنے سخت مزاج اور انتہائی پوزیشن سے دستبردار ہوں۔

اس کے لئے بر صغیر کی مشترکہ ثقافت مدد گار ثابت ہو سکتی ہے۔ دونوں جانب کی حکومتوں کو اس بارے ضرور سوچنا چاہیے کہ کیوں نہ آرٹ اینڈ کلچر کو نفرتوں کو مٹانے کے لئے استعمال کیا جائے۔ پاکستانی لوگ بھارتی فلمیں اور بھارتی لوگ پاکستانی میوزک پسند کرتے ہیں۔ بدقسمتی سے دونوں جانب اس پر پابندی ہے۔ دونوں حکومتوں کو سینما گھروں اور ٹی وی سکرینوں پر ایک دوسرے کے مواد کو جگہ دینی چاہیے۔ سوچئیے اگر شاہ رخ خان لاہور میں پٹھان کی پروموشن کرنے آئیں تو یہ کیسا لمحہ ہو گا؟ کیا یہ نفرتوں کو ہوا دے گا یا محبتوں میں اضافے کا باعث بنے گا؟ اسی طرح ماہرہ خان اور فواد افضل خان جیسے چہرے اگر بھارت میں دیکھے جائیں تو کیا یہ برف نہیں پگھلائیں گے؟

صرف فن ہی نہیں سپورٹس کو بھی موقع دیجئے۔ اپنی سیاسی و ریاستی پالیسیاں جاری رکھئے مگر کرکٹ ڈپلومیسی کو بھی ساتھ ساتھ آزمائیے۔ دو طرفہ کرکٹ سیریز کو بحال کیجئے۔ یہ دونوں جانب کی عوام کو مزید قریب لائے گا۔

کرتار پور ہی کیوں؟ گنڈا سنگھ بارڈر، کشمیر میں سری نگر روڈ کو بھی کھولئے۔
واہگہ بارڈر سے تجارت کو موقع دیجئے۔

ایسا نہیں ہے کہ یہ سب کرنے سے ایک دم مسائل ختم ہو جائیں گے۔ بلکہ ہو سکتا ہے ایسا کرنے سے مذہبی انتہا پسند سڑکوں پر آ جائیں۔ لیکن دونوں ریاستوں کو اپنے عوام کو انتہا پسندوں کے رحم و کرم پر چھوڑنا ہے یا یورپ اور مغرب کی طرح ایک تہذیب یافتہ قوم بنانا ہے؟ ایک آپشن لینا ہو گا۔ کب تک پریشر گروپوں اور سیاسی و مذہبی اشرافیہ کے مفادات کو دیکھ کر ریاستی پالیسیاں بنائی جائیں گی؟

پاکستان کے عوام سے کہنا چاہوں گا۔ یہ کشمیری قوم کا سوال نہیں۔ یہ آپ کے مستقبل کا بھی سوال ہے۔ کب تک کشمیر کے نام پر جنگ و جدل جاری رکھیں گے؟ آپ دو منٹ کے لئے آنکھیں بند کر کے اپنے معاشی حالات کا سوچیں۔ کیا ملک مزید جنگوں کو متحمل ہو سکتا ہے۔ بلکہ اب تو جنگ چھوڑئیے، کیا ملک مزید اربوں کے فوجی بجٹ کا متحمل ہو سکتا ہے؟ کیوں نہ بھاری دفاعی بجٹ کو عوامی فلاح، مستقبل کے معماروں کی تعلیم اور صحت پر خرچ کیا جائے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments