نفسیات کی رصد گاہ سے: ذہنی صحت سب کے لئے (2)


کیا آپ اوسط ذہانت کے لوگوں کے عمومی رویوں اور خصائل سے واقف ہیں؟

ویسے تو انسان فطرت کی ہر بو قلمینی اور مظاہر کو جادو گری سمجھ کر ہی اس کی کھوج میں نکلتا ہے اور علوم حاصل کرتا ہے لیکن نفسیات ان سب میں ایک ایسا مسحور کن علم ہے جو انسانی ذہن کی جادو گری کے مختلف کرتبوں سے آ گاہی دیتا ہے۔ اگرچہ یہ ایک مشکل کام ہے لیکن پھر بھی دماغ کی جادو گری کو سمجھنے والی سائنس نے انسانی کردار اور ان کے اعمال و افعال اور ان کے پیچھے کار فرما پیچیدہ رازوں کو سمجھنے کے راستے نکال ہی لئے ہیں۔ اور خاص طور پر اعلی ذہنی افعال

(Higher mental processes)
کے عجیب سے معاملات بھی کسی حد تک سامنے رکھ دیے ہیں۔

یہ عنوان جس کے تحت یہ مضمون لکھنے کی تحریک ہوئی، نفسیات کے ایک نہایت اہم اور حساس موضوع کا احاطہ کرتی ہے۔

دراصل نفسیاتی مطالعے جب مشاہدات، تجربات، تشکیک اور تحقیق کے بعد حتمی نتائج کے مرحلے پر پہنچتے ہیں انہیں بہت سے شماریاتی طریقوں کے اطلاقی مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ اگرچہ نفسیات جیسے موضوعی علم میں حساب کتاب اور شماریات کی دخل در معقولات اکثر نا گوار گزرتی ہے لیکن سائنس بننے کے لئے معروضیت کا ہونا ضروری ہے جس کے لئے شماریات نے نفسیات میں اپنی اہمیت اور مقام بنا ہی لیا۔

نفسیات کی طالبعلمی کے ابتدائی دور میں شماریات کی ناگوار دخل در معقولات میں سے مجھے جس چیز نے ذاتی طور پر متوجہ کیا اس میں وہ گراف تھے جو دل کو بھائے اور ان کی اہمیت نے دل میں گھر کیا۔ یہ گراف نفسیاتی مطالعہ جات سے حاصل ہونے والے مواد یعنی ڈیٹا کو معروضی بنا کر آ سان فہم بنا کر پیش کرنے میں مفید ثابت ہوئے۔ ان سب گرافک ریپریزینٹیشن میں سے جس گراف نے مجھے متوجہ کیا وہ ہے

Bell Shape Graph/ Bell Curve

اس کو بیل شیپ گراف یا بیل کرو اس لئے کہا جاتا ہے کہ جب نفسیاتی ڈیٹا کو گراف کے کاغذ پر بکھیرتا ہے تو اس کے نقوش گھنٹی کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ نفسیات کے سبق پڑھتے وقت نہ جانے کیوں بصارت گھنٹی پر مرکوز رہتی۔ اس دوران نہ تو شعور تھا اور نہ وقت کہ گھنٹی کی اس کشش کا راز معلوم کیا جائے کہ آ خر یہ کیوں دل لبھا رہی ہے۔ ابھی تو نفسیات کی الف ب ہی سیکھی جا رہی تھی۔ اپنی ذاتی رصد گاہ جو ہمارے ہی ذہن میں نصب تھی اس کی دور بین کے استعمال کا بھی خیال نہ تھا

اس گھنٹی کے گراف نے اور بھی دلچسپی پیدا کر دی جب یہ سیکھ رہے تھے کہ ایک ہی کلاس، سکول، گھر یا پورے ماحول میں سب لوگ ایک جیسے نمبر کیوں حاصل نہیں کرتے۔ تو اسی سوال کے جواب میں انفرادی فروق کا مطالعہ شروع ہوا۔ معلوم ہوا کہ مندرجہ ذیل عوامل انسانوں کو ایک دوسرے سے مختلف بناتے ہیں۔ یہ اختلاف ان کے انسان ہونے پر فرق نہیں ڈالتے۔ کیونکہ یہ انسانوں کو قدرت کی طرف سے مختلف اوصاف ملے ہوتے ہیں جن پر عام طور پر ان کا کوئی اختیار نہیں۔

مثلا:
شخصی اوصاف
میلان طبع یا رجحانات
ذہنی بیماریاں
وراثت
ماحول جو پیدائش سے پہلے اور بعد میں ملتا ہے
ذہانت
عقل
مندرجہ بالا تمام عوامل کو ناپنے کے لئے نفسیات کے پاس پیمانے، سکیل اور ٹیسٹ ہیں
آج زیر نظر مضمون میں جن دو عوامل کو زیر بحث لایا جائے گا وہ ذہانت اور عقل ہے
چلیے ذرا ذہانت کی تعریف سمجھتے ہیں :
نت ایک ایسا اعلی ذہنی وصف یا فعلیت ہے جو انسان کو قابلیت عطا کرتا رہا
ہے جس سے وہ سوچ سکے، تجربات سے سیکھ سکے، مسائل کا حل تلاش کر سکے، اور نئی صورت حال سے نمٹ سکے۔

ذہانت انسان کی تمام تر قابلیتوں کی اور کامیابیوں کی اساس ہے کیونکہ یہ بہت سے انسانی کرداروں مثلاً حصول تعلیم، پیشے اپنانے، مشکلات کا سامنا کرنے اور انسانی معاشرے کا اہم رکن ہونے کے ناتے کامیابی کے راستوں کا تعین کرتی ہے۔

آئیے اب ”وزڈم“ کو دیکھتے ہیں کہ یہ کیا ہے؟
وزڈم ذہانت سے بالا تر ایک ایسی قوت ہے جو دماغ میں ذہانت سے بھی زیادہ اعلی منصب پر ہوتی ہے یعنی
( Higher mid)

وزڈم اعلی ترین وصف ہے جس کے ذریعہ انسان اپنی ذہانت، کو سوچ سمجھ کر اعلی شعوری کاوشوں یعنی تجربہ، علم اور دلیل کے ذریعہ بروئے کار لاتا ہے۔

سوال ہے کہ کیا ایک اعلی ترین ذہانت انسان کی کامیابی کی ضمانت ہے؟
ہرگز نہیں۔

وزڈم کے بغیر ہم محض اپنی ذہانت پر بھروسا نہیں کر سکتے۔ کیونکہ وزڈم ہی روشنی دکھاتی ہے کہ اپنی ذہانت خواہ کم ہو یا زیادہ کس طرح استعمال میں لانا ہے اسی لئے بہت سے انسان بہت زیادہ آئی کیو ہونے کے باوجود زندگی میں خاطر خواہ کامیابیاں حاصل نہیں کر سکتے۔ لہذا وزڈم کے بغیر ذہانت بے معنی ہے۔

ذہانت کا تعلق جینز سے ہے یعنی یہ وراثت میں ملتی ہے لیکن اس پر پیدائش سے پہلے اور بعد کے ماحولیاتی عوامل بھی کار فرما ہوتے ہیں۔ مثلاً پیدائش سے پہلے ماں کی خوراک، صحت، گھر کا ماحول اور پیدائش کے بعد بچے کی صحت اور بار بار لاحق ہونے والی بیماریاں۔

ذہانت کو عمر کے ساتھ بڑھایا نہیں جا سکتا جب کہ وزڈم کو کوئی بھی شخص اپنی شعوری کوشش کے ساتھ خود یا کسی پیشہ ورانہ مدد یعنی سائیکالوجسٹ کی مدد سے اور کتب بینی سے بڑھا کر ذہانت کو چمکا سکتا ہے

جب ذہانت کی بات ہوئی تو انسانوں کی ذہانت ناپنے کے آئی کیو ٹیسٹ وجود میں آئے جنہوں نے ان ٹیسٹوں سے حاصل ہونے والے سکورز کو استعمال کر کے افراد کے آئی کیو سکور کے مطابق درجہ بندی کی تاکہ ان کو ان کی صلاحیتوں کے مطابق مختلف کام سونپے جائیں۔

اور جب آئی کیو سکورز شماریاتی گراف پر بکھیرا گیا تو ذہانت کی درجہ بندی کو آسانی سے سمجھنے کا موقع ملا۔

وہ کچھ یوں ہے :

ذہانت کی درجہ بندی کو سمجھنے کے لئے بیل کرو کی بہت اہمیت ہے۔ آئی کیو ٹیسٹ بنانے والوں نے بتایا کہ اس گراف پر بائیں جانب صفر سے شروع ہو کر دائیں جانب 145 تک سکور ظاہر کیے جاتے ہیں۔ جب یہ سکور بائیں جانب سے شروع ہو کر اوپر کی جانب اٹھتا ہے تو اوپر کی جانب جہاں بیچوں بیچ 100 کا ہندسہ لکھا ہوتا ہے وہ اوسط کو ظاہر کرتا ہے۔ اور وہاں ایک خم دار موڑ بناتا ہوا دائیں جانب دوبارہ گرتا ہے۔ دونوں اطراف سے اٹھنے اور گرنے کے عمل سے بالکل درمیان کے دونوں اطراف گولائی کے انداز سے موڑ یا خم پیدا ہوتا ہے اور یوں بیل شیپ کرو یا نفسیات کی گھنٹی وجود میں آتی ہے۔

ان سکورز کو محض مستند ماہرین کی معیاری نفسیاتی ٹیسٹوں کو استعمال کر سکتے ہیں۔ کسی بھی عام شخص کو ان ٹیسٹوں کے استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہوتی۔

ان ماہرین کے مطابق ذہانت کی درجہ بندی اس طرح ہوتی ہے۔
اوسط سے کم ذہانت۔ 80 تا 89
اوسط درجے کی ذہانت۔ 90 تا 109
اعلی درجے کی ذہانت۔ 110 تا 119
اعلی ترین ذہانت۔ 120 تا 129
فطانت۔ 130 تا 145

ماہرین کا کہنا ہے کہ تقریباً پچانوے فی صد آبادی کا سکور 70 اور 130 کے درمیان ہوتا ہے۔ 70 سے نیچے دو فی صد، 55 سے نیچے ایک فی صد افراد کم ترین ذہانت کے مالک پائے جاتے ہیں۔ جبکہ 70 سے 130 کے درمیان چودہ فی صد۔ اور 100 کا سکور رکھنے والوں کی تعداد پچانوے فی صد ہوتی ہے۔

جبکہ گراف کے دائیں جانب بھی یہی تناسب ہے لیکن اس طرف درجہ بدرجہ ذہانت کا سفر فطانت کی طرف ہوتا۔ ہے۔

بائیں جانب کی انتہائی سطح کی طرف سفر کرتے ہوئے لوگ اتنی کمتر ذہانت رکھتے ہیں کہ انہیں اپنی زندگی بسر کرنے کے لئے دوسرے افراد کی خصوصی توجہ اور مدد کی ضرورت ہوتی ہے اس لئے انہیں خصوصی افراد کہا جاتا ہے۔ یہ افراد گھر اور معاشرے پر بوجھ تو ہو سکتے ہیں لیکن اپنی کمتر صلاحیتوں کی وجہ سے جان بوجھ کر شعوری طور پر ضرر رساں نہیں ہوتے کیونکہ ان کے پاس اتنی صلاحیت ہی نہیں ہوتی۔

جبکہ دائیں جانب 130 سے لے کر 145 تک انتہائی اعلی ترین ذہنی صلاحیتیں اور قابلیتیں رکھتے ہیں اور اگر یہ عقل کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں تو اور انسان دوست بھی ہوں تو یہ اعلی کامیابیاں حاصل کر کے نافع الناس بھی ہو سکتے ہیں۔ انہیں بھی کبھی کبھی خاص افراد ہی کہا جاتا ہے۔ اور ان افراد کو بھی کئی مقامات پر خصوصی توجہ کی ضرورت پڑ سکتی ہے کیونکہ معاشرے کے عمومی معیارات کے ساتھ مطابقت کرنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑ تا ہے۔ الگ تھلگ رہنے والے، غیر روایتی سوچ رکھنے والے، غیر معمولی کام کرنے والے مثلاً موسیقار، سائنسدان، ایجادات کرنے والے، لکھاری، اعلی معیاریٰ بنیادوں پر ہر چیز کو پرکھنے والے یعنی

Rational Thinker
مشکل مسائل کا خود ہی حل
نکالنے والے۔

کسی دوسرے کی سوچ کے دھارے پر چلنے کی بجائے اپنی سوچ، فکر اور منطق سے کام لینے والے، روایات سے ہٹ کر زندگی گزارنے والے یہ لوگ ہمیشہ اپنے شعور اور وزڈم کے تابع ہوتے ہیں اور اپنی بصارتوں کو بصیرتوں کے سفر پر لے کر چلتے ہیں۔ لیکن اگر کبھی حالات موافق نہ ہوں تو یہ اکثر ذہنی امراض کا شکار ہو جاتے ہیں اور اس مقام پر انہیں نفسیاتی علاج کے لئے پیشہ ورانہ مدد کی ضرورت پڑتی ہے۔ اور نفسیاتی علاج کے بعد انہیں دوبارہ نارمل بنا کر کامیابی کی طرف لے جایا جا سکتا ہے۔

ایک المیہ یہ ہے کہ اگر ان میں انسان دوستی نہ ہو تو یہ معاشرے کے لئے تکلیف کا باعث بن جاتے ہیں اور اگر غیر انسانی غیر ہمدردانہ خصوصیت انہیں ورثے میں ملی ہو تو یہ واقعی ایک بھیانک خواب ہو سکتے ہیں۔ اس پر ہم کسی اگلے مضمون میں بات کریں گے۔

اب ہم اس گراف پر نظر آ نے والے ان افراد کی طرف آتے ہیں جن کو عام طور پر موضوع بحث نہیں بنایا جاتا یا اس کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی جاتی۔ شاید اس لئے کے یہ بظاہر نہ تو خاندان کے لئے مسئلہ بنتے ہیں اور نہ ہی رسم و رواج اور معاشرے کے عمومی ڈھانچے کو کوئی نقصان پہنچتا ہے۔ ان کے لئے نہ ہی کسی بھی قسم کی خصوصی سروسز پر سرکاری فنڈ درکار ہوتے ہیں اور نہ ہی یہ انحرافی روئے یعنی ابنارمل کردار کے حامل ہوتے ہیں۔ کیونکہ یہ معاشرے کے عمومی اور مروجہ نارمز کو کو اپنائے رکھتے ہیں۔

بادی النظر میں ان کے بے ضرر کردار، روئے اور روز و شب معاشرے اور کسی ملک کی مجموعی نفسیات کی عکاسی کرتے ہیں لیکن اگر پورا معاشرہ غلط روش کی پیروی کر رہا ہو تو اس معاشرے کو یہ اوسط درجے کے لوگ غیر محسوس طریقے سے نقصان پہنچا رہے ہوتے ہیں۔

چونکہ یہ پورے سماج کی مجموعی تصویر ہوتے ہیں۔ تب خیال آیا کہ آج کیوں نہ اپنی رصد گاہ کی دور بین کا رخ ان کی طرف کیا جائے اور مشاہدہ کر کے ان کے کرداروں اور چلن کو دیکھا اور سمجھا جائے تو علم ہوا کہ یہ کتنے اہم لوگ ہیں اور ضرورت سے زیادہ توجہ کے طلبگار ہیں۔

مندرجہ ذیل مشاہدات سامنے آئے جو قارئین کی نذر ہیں :
اوسط درجے کی ذہانت رکھنے والے یہ افراد کل معاشرے کا 95 ٪ ہیں۔
یہ شماریات کی گھنٹی کے عین وسط میں پائے جاتے ہیں۔
لیکن اپنے اپنے دائرہ کار میں بھی یہ زندگی کی گھنٹی کے درمیان لٹکے اٹکے رہتے ہیں۔

گھنٹی کے گھنگرو کی طرح بجتے رہتے ہیں ضربیں کھاتے زخمی بھی ہوتے ہیں لیکن وہیں رہتے ہیں شاید یہ ان کی بے بسی ہے کیونکہ یہ اوسط ذہانت تو انہیں قدرت کی طرف سے ملی ہے اور ان کو 100 نمبر سے 110 یا 80 نہیں کیا جا سکتا۔

ان کو اپنے 100 نمبروں کا علم ہو یا نہ ہو یہ ہمیشہ 110 یا اوپر کی طرف کبھی حسرت اور کبھی جلن سے دیکھتے رہتے ہیں۔

یہ لوگ پڑھ لکھ بھی جائیں یا کسی بھی شعبے میں قدم رکھ کر کامیاب بھی ہو جائیں ان کی سوچ، فکر اور عقل سب کی سب کرائے کی ہوتی ہے یعنی ان کی زندگی کا چلن مستعار ہی رہتا ہے۔

اگر انہیں ادراک ہو بھی کہ یہ اوسط ذہانت اور اس کے ساتھ اوسط وسائل اور حالات کے مالک ہیں تب بھی ان کے دل و دماغ میں حسرتیں پلتی رہتی ہیں اور ”کاش“ کا لفظ ان کے لئے دفاعی میکانیت ہوتا ہے۔ ان حسرتوں اور آرزووں کو پورا کرنے کے لئے یہ اپنی زندگی میں بہت جد و جہد سے بھی گریز نہیں کرتے لیکن ان کی اکثر کوششیں عقل اور حقیقت پر مبنی نہیں ہوتیں۔ یعنی اہداف اور مقاصد کا تعین کرتے وقت اپنی ذہنی، جسمانی استعدادوں کو مد نظر نہیں رکھتے نتیجتاً اہداف کو حاصل کیے بغیر واپس گھنٹی میں آ بجتے ہیں اور اس کو مقدر کا لکھا سمجھ کر کچھ عرصہ گزار کر پھر وہی غلطیاں دہراتے ہیں۔

یہ کبھی کبھی وزڈم سے کام لیتے ہیں مگر اپنے مقاصد کے حصول کے لئے شارٹ کٹ اختیار کرتے ہیں مثلاً اوسط ذہانت کے طالب علم لائبریری میں بیٹھ کر کتابیں پڑھ کر نوٹس بنا کر امتحان دینے کے بجائے ”حل شدہ پرچہ جات“ ٹیسٹ پیپرز اور گیس پیپرز پر علم حاصل کرتے ہیں۔ شاید حل شدہ پرچہ جات والوں نے ان کی اوسط لوگوں کے لئے یہ کاروبار شروع کیا ہو اور حقیقت ہے کہ 95 ٪ لوگ ہی اس کاروبار کو چلا رہے ہیں۔

اوسط آبادی کا یہ ازدحام اپنے وسائل کم ہونے کے باوجود ان لوگوں کے گروپ میں شامل ہونے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں جو مال و دولت، فیشن اور سٹیٹس میں ان سے بہتر ہوتے ہیں۔ لیکن شارٹ کٹ کے عادی ہونے کی وجہ سے یہ نقل کے عادی ہو جاتے ہیں۔ وہی فیشن کرتے ہیں جو چل رہے ہیں، وہی مضامین پڑھتے ہیں جو دیگر دوست احباب اور خاندان کے لوگ پڑھ رہے ہوتے ہیں۔

یہ لوگ سہل پسندی اور تخلیقی صلاحیتوں کو استعمال نہ کرنے کی وجہ سے ٹرینڈ سیٹرز نہیں بلکہ کسی بھی ٹرینڈ کے پیچھے چلنے والے ہوتے ہیں اور ٹرینڈی کہلوانا پسند کرتے ہیں۔ اشتہارات کو انہی پچانوے فی صد لوگوں کی نقالی اور اثر پذیری کو استعمال کر کے بزنس کے فروغ اور مصنوعات کی فروخت کے لئے استعمال کیا اور ان اشتہارات نے ان لوگوں کی مدد سے اپنے بزنس چمکائے۔ پروپیگنڈہ کی تکنیک بھی انہی لوگوں سے کامیاب ہوئی۔

یہ گھنٹی والے زبان سے قناعت اور شکر کا اظہار کرتے ہیں لیکن قناعت کا عملی مظاہرہ نہیں کرتے کیوں کہ یہ اوپر کی طرف دیکھ کر نہ پوری ہونے والی حسرتیں اور خواب پالتے ہیں۔

کسی فیڈ بیک اور مثبت تنقید کو ذاتی حملہ جانتے ہیں کیونکہ ان کی اپنی قابلیتوں کے بارے میں خام خیالی ان کے نزدیک یقین کامل ہوتی ہے۔ اپنی ایگو کو خود داری کا نام دیتے ہیں۔

دہرے معیار زندگی اسی اژدھام کا خاصہ ہیں۔
سماجی تعلقات کو بھی وزڈم کے خالی تھیلے کے ساتھ نباہتے ہیں۔

شادی بیاہ کی تقریبات، دور پرے کے رشتوں کے جنازوں اور پرسوں میں ان ہی پچانوے فی صد سے رونق ہوتی ہے۔ یہ ضروری اور غیر ضروری تقریبات میں اپنا پہنچنا ضروری سمجھتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں اگر ہم آج کسی کی شادی اور غم میں شریک نہیں ہوں گے کل ہمارے ہاں کون آئے گا۔ یقیناً انہیں سماجی طور پر اپنے تنہا ہو جانے کا فکر لاحق رہتا ہے۔

مرنے والے کے چہرے پر کتنا نور تھا، یا دلہن کے چہرے پر میک اپ نور بن کر چمک رہا تھا یا دلہن چڑیل لگ رہی تھی جیسے بے مقصد موضوعات پر بول کر وقت ضائع کرتے ہیں اور کہیں بھی ان کا شعور انہیں اس نامعقولیت سے نہیں روکتا کیونکہ شعور کا بٹن یہ کبھی آن نہیں رکھتے۔

ان کے ترجیحاتی مقاصد میں بچوں کی شادیاں، اچھے رشتے اور ان پر اٹھنے والے اخراجات کی بچے کی پیدائش کے فوراً بعد فکر کو لاحق کرنا اور اپنے اپ کو ذمہ دار ہونے کا ثبوت دینا بھی ان کے اعلی مقاصد میں شامل ہوتا ہے۔ یہ بہت شروع ہی سے ان لوگوں سے مراسم بڑھانے پر لگ جاتے ہیں جہاں ان کے شیر خوار بچوں کی عمروں کے بچے بھی فیڈروں میں دودھ پی رہے ہوتے ہیں۔ ان کے ساتھ سماجی رابطے بڑھانے میں ان کا بیش قیمت وقت اور پیسہ بھی برباد ہوتا ہے اور خود ان کی انرجی اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت اور دیگر مسائل کے حل کے بجائے قبل از وقت ہی دور دراز مستقبل میں ہونے والی شادیوں کے خیالی انتظامات میں صرف ہوتی ہے۔ ان پر یہ مثال صادق آتی ہے،

”Putting the Cart before horse“

یہ نظریات کے بجائے دوسرے انسانوں پر زیادہ گفتگو کرتے۔ گھر میں آنے والے مہمان جب رخصت ہو جائیں تو رخصت ہونے والے مہمانوں کی شخصیت کے منفی پہلوؤں کو زیر بحث لانا بھی انہیں بہت مرغوب ہوتا ہے

علمی اور ادبی گفتگو کا ویسے تو یہ شوق کم ہی رکھتے ہیں لیکن اگر ایسی صورتحال پیش آ جائے تو اپنے آپ کو عقل کل سمجھتے ہیں اور اگر انہیں یہ علم ہو جائے کہ اس علمی گفتگو میں وہ غالب نہیں آ سکتے یا دوسرا شخص ان سے زیادہ علم اور، تجربہ اور دلیل رکھتا ہے تو یہ کج بحثی اور ذاتیات پر اتر آتے ہیں۔ اور دیر تک اس احساس کمتری کو دل میں رکھتے ہیں۔ کیونکہ انہوں نے تو سوچ رکھا تھا کہ وہ علم اور ذہانت میں 100 سے اوپر کا درجہ رکھتے ہیں۔ ایک بار پھر وہ گھنٹی میں آ کر بجتے ہیں مگر سرفروشی کی تمنا ان کو پھر اونچا بننے کے لئے اکساتی ہے اور یہ تمنا ان کے دفتری، گھریلو اور حلقہ یاراں کے ماحول کو ہر وقت کشیدہ رکھتی ہے۔

ان کا مذہب، عقیدہ اور نظریہ بھی گروہ کے طابع ہوتا ہے۔ وہ اپنے ان رسم و رواج اور روایات خواہ ان کے لئے تکلیف کا باعث ہوں اور وہ دل سے انہیں نا پسند ہی کیوں نہ کرتے ہوں مگر وہ اپنے خاندان، قبیلے، سماجی گروہ کے خوف سے اس کے ساتھ جڑے رہتے ہیں۔ ”لوگ کیا کہیں گے“ ان ہی لوگوں سے سننے کو ملتا ہے۔ اس طرح وہ منافقت کی دفاعی میکانیت کے ذریعہ زندگی کا سفر طے کرتے رہتے ہیں۔

یہ لوگ شخصیت پرست ہوتے ہیں۔ سیاسی لیڈر، مذہبی رہنما فلاسفر، کھیلوں کے کھلاڑی، فلم کے ہیرو ان کے ہیرو ہوتے ہیں۔

سیاسی لیڈر کے منشور اور نظریات ان کو سمجھ آئیں یا نہ آئیں یہ ذات برادری اور عمومی چلن کی بنا پر ایک لیڈر کو ووٹ دیتے ہیں اور سالہا سال اسی سے چمٹے رہتے ہیں۔

مذہبی رہنما، امام یا پیشوا کیا اخلاقی درس دے رہا ہے۔ درست کہہ رہا ہے یا غلط۔ اس کے پیغام کو پرکھنے اور اپنانے کے لئے کوئی عقلی پیمانہ استعمال کرنے کے بجائے اس کو بہرے کانوں سے سننا باعث برکت سمجھتے ہیں اور برکت اور ثواب کی خاطر اتنی پرستش کرتے ہیں کہ ان کو ماں باپ سے بھی افضل سمجھتے ہیں

روحانی طور پر بھی ان کا حال پتلا ہی ہوتا ہے۔ ثواب جیسے تجریدی لفظ کو سمجھنا ان کے لئے ممکن نہیں ہوتا لہذا اس ثواب کے چکر میں عبادت کے اصل اور مغز کو سمجھنا بھی ان کے کے بس کی بات نہیں۔ حقوق اللہ اور حقوق العباد کے تعلق کو سمجھنا ان کے لئے کچھ تجریدی مسئلہ ہی رہتا ہے

تحصیل علم میں کامیاب ہو بھی جائیں تو اس حاصل شدہ علم کو حکمت عملی، اختراع اور عقل کی کسوٹی پر پرکھے بغیر کتابی علم کو سطر در سطر اور من عن عمل کرتے ہیں بلکہ لاگو کرنے اور نفاذ کرنے پر دوسروں کو مجبور کرتے ہیں کہ ”یہی کتاب میں لکھا ہے“

یعنی لکیر کے فقیر ہوتے ہیں
اسی طرح سیاسی نظریات اور جعلی فلاسفروں کو بھی اپنا آئیڈیل بنا لیتے ہیں۔

یہ سائنسی نظریات کی حمایت کرتے ہیں اور کبھی روایت پسند بن جاتے ہیں اور ہمیشہ دو کشتیوں میں سوار رہتے ہیں۔ اور منافقت کو نہ چاہتے ہوئے بھی اپنانے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔

سائنس کو بھی یہ وزڈم کی کسوٹی پر نہیں پرکھتے اور اس سے اس لئے مرعوب ہوئے جاتے ہیں کہ وہ ثابت کرسکیں کہ وہ ذہانت کے اعلی درجے پر فائز ہیں اور ان سے زیادہ سائنسی ذہن رکھنے والا کوئی نہیں۔ ایجادات کی سہولیات بھی نقل میں خرید کر اپنے گھر لا کر رکھتے ہیں تاکہ اپنے سے اونچے لوگوں میں شامل ہونے کی حسرت پوری کر سکیں۔

محنت کرتے ہیں لیکن وراثتی جائیدادوں کی آس امید ان کی بہت سی امیدوں پر پانی پھیر دیتی ہے کیونکہ ان کے بہت سے منصوبے ان پر منحصر ہوتے ہیں۔ اور اس انتظار میں اکثر اپنی تعلیم اور روزگار میں پیچھے رہ جاتے ہیں۔

یہ لوگ برائیاں اپنانے میں بھی نقل میں کرتے ہیں مثلاً سب رشوت لے رہے ہیں، دھوکہ دے رہے ہیں، تکلیف دہ رسومات اپنائے ہوئے ہیں، شان و شوکت کے پیچھے بھاگ رہے ہیں اور وقت ضائع کر رہے ہیں، حتی کہ نقل میں اپنی صحت بھی برباد کر لیتے ہیں جیسے آج کل ٹی وی ڈراموں میں ہر ڈرامے میں جوس کا جگ اور فاسٹ فوڈ دکھایا جاتا ہے تو یہ بھی یہ سوچے بنا کہ یہ ان کی صحت کو کتنا خراب کرے گا وہ کھانے بھی اپنی زندگی میں فیشن کے طور پر اپنا لیتے ہیں سماجی نقل کی ان کو نشے کی طرح لت لگ جاتی ہے اور

نقل میں جب معاملات خراب ہو کر ہاتھ سے نکل جاتے ہیں تو یہ نظام، میڈیا اور موجودہ زمانے یا دوسروں کو دوش دیتے ہیں اور تاویل پیش کرتے ہیں۔ چالاکیاں بھی اس خوش گمانی میں کرتے ہیں کہ زمانہ چالاک ہے اور وہ لوگ ہی کامیاب ہیں جو چالاکی کرتے ہیں۔ نتیجتاً اپنی استطاعت سے بڑھ کر چالاکی کر کے بے چارے اپنے ہی جال میں پھنس جاتے ہیں اور پھر لڑھکنے لگ جاتے ہیں ”کوا چلا ہنس کی چال اپنی بھی بھول گیا“ شاید ان پر ہی صادق آتا ہے۔

معاشرے میں اپنے ارد گرد ہونے والے جرائم کے واقعات کو پہلی خبر کی طرح دوسروں تک پہنچانا اپنا فریضہ سمجھتے ہیں لیکن اس واقعے پر غور و فکر کر کے عملی قدم اٹھانے کی جرات نہیں رکھتے۔ ”ہمیں کیا“ کہہ کر نظریں چرا لیتے ہیں۔

ان کی دیگر خصوصیات میں چند اور کا ذکر گھنٹی والوں کو سمجھنے میں مدد دے گا:

اگر چہ ان کو شعور اور وزڈم بھی ودیعت ہوتا ہے لیکن ان کا نظریہ حیات مندرجہ ذیل ترجیحات پر یوں چلتا ہے :

نقل بہ مقابلہ عقل
آگاہی بہ مقابلہ آگہی
ظاہر بہ مقابلہ باطن
معلومات بہ مقابلہ علم
بھیڑ چال بہ مقابلہ اختراع
تخلیق تقلید بہ مقابلہ
حل شدہ پرچہ جات بہ مقابلہ کتاب
ڈگری برائے نوکری بہ مقابلہ حصول علم
حسرت بہ مقابلہ محنت
لذت کام و دہن بہ مقابلہ ذہنی نشو نما اور ارتقا
برگر بہ مقابلہ کتاب
خود غرضی بہ مقابلہ خلوص
سماجی منظوری بہ مقابلہ شعوری منظوری
صحت بہ مقابلہ تساہلی
صحت بمقابلہ غیر معیاری فاسٹ فوڈ
سطح بہ مقابلہ گہرائی
ڈینائل بہ مقابلہ قبولیت
دوستی برائے سماجی طاقت بہ مقابلہ ساتھی
ٹی وی بہ مقابلہ صحت مند سرگرمیاں
سوشل بٹر فلائی بہ مقابلہ تنہائی
ایکسٹرا ورژن بہ مقابلہ انٹرو ورژن

یہاں یہ واضح کر دیا جائے کہ گھنٹی کے بیچ میں لٹکے اٹکے لوگ غریب بھی ہوسکتے ہیں اور امیر بھی، تعلیم یافتہ اور ان پڑھ بھی۔ یہ اژدھام بلا تخصیص مرد، عورت، معاشی کلاس یا کوئی خاص طبقہ پر مشتمل ہے۔ یہ انسانوں کا بحر بے کراں ہجوم ہے جو توجہ کا طلبگار ہے تاکہ ان کی وزڈم یا عقل، شعور اور آگہی کا بٹن دبانے میں مددگار بنا جائے تاکہ نہ صرف ان کے انفرادی شعوری ارتقاء کا بندو بست ہو سکے بلکہ اس بحر بے کراں ہجوم نادان کو معاشرے کے لیے کار آمد بنایا جا سکے۔

اب سوال پیدا ہوتا ہے کی گھنٹی میں اٹکے لٹکے لوگوں کو شعور کی روشنی جو ان کے پاس ہی موجود ہے اس کو استعمال کرنے کی ترغیب کون دے اور بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے کیونکہ یہ طبعاً ڈھیٹ بھی ہوتے ہیں۔

چند تجاویز نفسیات کی رصد گاہ سے لیتے ہیں :
ماہرین نفسیات کے خصوصی لیکچرز کا ٹی وی پر پیش کرنا۔
دانشوروں کا اس موضوع پر کثرت سے لکھنا اور میڈیا پر پیش کرنا۔ کتابوں کی ترغیب
دانشوروں کی صحبت کا اہتمام
گھروں میں بچوں بڑوں کو وزڈم کی اہمیت سکھانا
فوک وزڈم کی کہانیاں سنانا
وزڈم اور شعور کے بارے میں آسان لفظوں میں ابتدا سے ہی ٹھوس مثالوں سے سمجھانا
ذہانت کے لئے وزڈم کی اہمیت کو اجاگر کرنا
تخلیقی صلاحیتوں کو استعمال کرنے کی حوالہ افزائی کرنا۔

اگرچہ یہ کام کسی مہم جوئی سے کم نہیں لیکن دانشور، استاد، والدین اور ماہرین نفسیات، شاعر، ادیب اور لکھاری اپنے اپنے طور پر ان بے چارے لوگوں کو روشنی دے سکتے ہیں۔ اور پچانوے فی صد افراد کے شعوری ارتقا کو کم از کم بہت نہیں تو چند درجے اوپر لانے میں مدد کر سکتے ہیں۔ جیسا کہ پہلے بیان کیا جا چکا ہے کہ یہ لوگ اپنی اثر پذیری کی وجہ سے اشتہارات سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں لہذا عقل اور وزڈم کو بھی اشتہارات کے ذریعہ انہی کے ہاتھوں بیچا جا سکتا ہے۔ اگرچہ وزڈم برائے فروخت کے اشتہارات سے وزڈم کی توہین ہوگی مگر

اے چارہ گراس کے سوا چارہ نہیں
شاید گھنٹی میں اٹکے بھٹکے لوگ کا علاج ہو سکے اور وہ شعوری روشنی کے سفر پر چل نکلیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments