آج کا نوجوان مذہب بیزار کیوں؟


پڑھنے کا اتفاق ہوا، نوجوان اور زندہ دل لکھاری زین العابدین نے بڑی ہی عرق ریزی سے اس اہم موضوع پر لکھنے کی کوشش کی بہت محتاط انداز میں کچھ اہم عناصر کی طرف توجہ دلاتے ہوئے نشاندہی کی کہ ”ان وجوہات کی بنیاد پر ہر دوسرا نوجوان مذہب سے دوری اختیار کرتا چلا جا رہا ہے“

کافی حد تک درست نشاندہی فرمائی اور اس مضمون کا سب سے جاندار جملہ جس پر غور کرنا اور اسے مزید کھولنے کی ضرورت ہے وہ فقرہ کچھ اس طرح سے ہے کہ ”مذہبی بڑے اپنی“لاعلمی” کو نوجوانوں کے اذہان سے چھپانا چاہتے ہیں تاکہ ان کا معاشرتی و معاشی بھرم برقرار رہے“

بڑا ہی ظالم فقرہ ہے بلکہ یوں کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ چبا چبا کے بات کرنے کی بجائے سیدھا گردن سے پکڑا ہے، یہ ہماری مذہبی فکر کا بہت بڑا المیہ ہے کہ یہ ”برداشت“ جیسے جوہر سے بالکل ہی خالی ہوتے ہیں اور ذرا سی بات پر بھڑک اٹھتے ہیں اور مدمقابل کا جواب حوصلے یا تحمل سے دینے کی بجائے وہ سوال پوچھنے کی جسارت کرنے والے کو ہی دائرہ مذہب سے خارج کر کے کوئی بھی تنگ نظری کا ٹیگ لگانے کے بعد مشتہر کر دیتے ہیں تاکہ سند رہے اور دوسرے مذہبی دوست احباب بھی چوکنے ہو جائیں اور حفظ ماتقدم کے طور پر اس ملحد و زندیق کے سوالات پر غور کرنے کی بجائے دوری اختیار کر لیں۔

کیونکہ انہیں ہر وقت یہ خوف یا دھڑکا لگا رہتا ہے کہ کہیں تفکر و تدبر کا وائرس ہمارے چاہنے والوں کو جن کی وجہ سے ان کا دھندا چلتا ہے میں سرایت نہ کر جائے ورنہ سارے بھرم بکھر جائیں گے، کیونکہ سوال کی گونج بہت خطرناک ہوتی ہے، اس کی لہریں بہت سے ذہنوں کو متاثر کرتی ہیں اور غیر روایتی طرز کا سوال اٹھانے والا سماج کے اس طبقے کا نمائندہ ہوتا ہے جنہیں سوچنے کی علت یا لت لگ چکی ہوتی ہے، اسی لئے تو روایتی طبقے کے کان فوری طور پر کھڑے ہو جاتے ہیں اور وہ اس ”مختلف آواز یا سوال“ پر فتویٰ بازی کی صورت میں شہاب ثاقب برسانا شروع کر دیتے ہیں تاکہ سوال کی باقیات تک بھسم ہو جائے۔

وہ اس حقیقت سے بالکل بے نیاز ہوتے ہیں یا جان بوجھ کر مچلے بنے رہتے ہیں کہ ان کے اس قسم کے جبری ہتھکنڈے مذہب کے فروغ کا سبب بننے کی بجائے سکڑنے اور لوگوں کے ذہنوں میں شکوک و شبہات کو مزید گہرا کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ مگر انہیں اس سے کیا غرض وہ تو فقط دکانداریاں یا فنکاریاں فرما رہے ہوتے ہیں، اگر آپ زبردستی مذہب کو لوگوں کی زندگیوں کا حصہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں تو پھر سوالات سننے کا حوصلہ اور ظرف بھی خود میں پیدا کرنا ہو گا، اگر ایسا نہیں کر سکتے تو کم از کم لوگوں کی مورل پولیسنگ کرنے سے ہی ہاتھ کھینچ لیں۔ آپ نے تو کبھی اتنا سوچنے کا تکلف بھی نہیں کیا ہو گا کہ

”سچ کو جبر کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ وہ تو واضح اور عریاں ہو تا ہے جبکہ جھوٹ کو ہمیشہ جبر کا سہارا درکار رہتا ہے“

کہیں اس قسم کا جبری رویہ اختیار کرتے ہوئے آپ خود بے خبری میں توہین مذہب کے مرتکب تو نہیں ہو رہے؟

جن جبری توپوں کا رخ آپ ہمیشہ دوسروں کی طرف رکھتے ہیں کبھی ان کا رخ اپنی طرف بھی موڑ کے دیکھ لیں تاکہ اندازہ ہو سکے کہ کیا نتائج نکلتے ہیں؟

دوسروں کی ایمانی سطح جانچنے اور مختلف سوچ یا آواز پر فتوی بازیوں میں سے اگر کچھ وقت بچ جائے تو اتنا سوچنے کا تکلف ضرور کیجئے گا کہ ہم بچپن سے سنتے آ رہے ہیں کہ ”مذہب تمام مسائل کا واحد حل ہے“۔ جبکہ آج کی کڑوی حقیقت یہ ہے کہ ہم دن بدن ذلت اور رسوائی کے گڑھے میں دھنستے ہی چلے جا رہے ہیں اور آج 2023 میں بھی ہماری معیشت انہی کی محتاج ہے جو بقول ہماری مذہبی فکر کے ”ہم میں سے نہیں ہیں اور جہنم کا ایندھن ہیں ”

کیا ہم دنیا میں صرف اس وجہ سے آئے ہیں کہ ہم جنت میں مزے لوٹیں گے اور دنیا میں ذلت و رسوائی انجوائے کرتے رہیں گے؟

اس سے بڑی ذلت و رسوائی اور کیا ہو سکتی ہے کہ دنیا کی معیشت ہماری عیاشیوں کی مرہون منت ہے، عربی شہزادوں و ریاستوں کی عیاشیاں ہمارے سامنے ہیں جو اپنے من، تن اور دھن کو رام کرنے کے لئے یہود و نصاری کے محتاج ہیں اور انہی سے دوستی کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں جو بقول ان کے ”کبھی ان کے دوست نہیں ہو سکتے“

کبھی ہم نے غور کیا کہ ہمارے علماء کو اپنی بات کہنے کے لیے واقعات، قصہ خوانی یا لطائف کی ہر وقت حاجت رہتی ہے، بغیر لگی لپٹی وہ کچھ بھی ڈائریکٹ اور منطقی بنیادوں پر کہنے کی پوزیشن میں نہیں ہوتے اور ذرا سا ٹوکنے پر تلملا اٹھتے ہیں۔ ہمارے روایتی پنڈت آج کے نوجوانوں کو اتنی سی بریدنگ سپیس دینے کو بھی تیار نہیں ہوتے کہ وہ ذرا سا توقف کے معاملہ فہمی کر سکیں، پھر پوچھنا تو بنتا ہے کہ آخر اتنی ہڑبڑاہٹ کس لئے ہے اور یہ کس قسم کی بے چینی یا گھبراہٹ ہے کہ آپ ہمیشہ اتنی جلدی میں رہتے ہیں؟ ظاہر ہے انٹرنیٹ اور گوگل کا زمانہ ہے اور آج کی گوگل جنریشن کو بیوقوف بنانا آسان نہیں رہا ورنہ 2023 میں استاد نعمان علی خان کو آخر یہ کیوں کہنا پڑ رہا ہے کہ انڈر سٹینڈ دی قرآن دی وے یو نیور بی فور ”

حیرت ہے لاکھوں تراجم و تفاسیر کے بعد بھی پیغام ایزدی کو آج تک سمجھا نہیں جا سکا جبکہ دوسری طرف مذہبیت و جنونیت بڑھتی جا رہی ہے اور پریکٹسنگ شرح دن بدن گرتی چلی جا رہی ہے آخر کچھ تو ہے جو ہماری پکڑ میں نہیں آ رہا؟ پھر گلہ کیسا کہ ہمارے اپنے مذہب بیزار ہوتے جا رہے ہیں کبھی اس وقت بھی ذرا سوچ لیا ہوتا جب ہمارے ”مذہبی بڑے“ سادہ لوح عوام کے سامنے واقعات کو منطق و دلیل کے بغیر پیش کر کے خواہ مخواہ کی عاشقانہ آوارگی یا بے پرکیاں اڑانے میں مصروف ہوتے ہیں؟

گنتی کے جو چند لوگ مذہب کو منطقی انداز میں پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ان کی یہ کاوش بھی فلسفہ و سائنس کی ملاوٹ کے بغیر لاحاصل ہے اسی لیے یہ اصحاب جدید تصورات اور ڈکشنری کا سہارا لے کر مذہب کو منطقی بنیادوں پر پیش کرنے کے لئے مجبور ہیں۔ آپ یوٹیوب پر مفتی ابواللیث، یاسر قاضی یا ذاکر نائیک کی ویڈیوز ملاحظہ فرما لیں، اس کے علاوہ آپ جاوید احمد غامدی کے خیالات سے استفادہ کر کے دیکھ لیں معاملہ بالکل واضح ہو جائے گا کہ یہ بے چارے وقت کے بے رحم جبر کے آگے کس قدر مجبور ہو چکے ہیں۔ ان بڑوں کو یہ بات بڑے اچھے سے سمجھ آ گئی ہے کہ

”مذہب کو ایمانی بنیادوں پر ایمان والوں کے سامنے پیش کرنا تو بہت آسان ہوتا ہے اور یہ کام تو ایک ایوریج قسم کا مولوی بھی سرانجام دے سکتا ہے مگر منطقی بنیادوں پر ان لوگوں کے سامنے پیش کرنا جو ہم میں سے نہ ہوں یا مذہبی معاملات کو عقلی بنیادوں پر پرکھنا چاہتے ہو کافی مشکل یا جان جوکھوں کا کام بن جاتا ہے“

ہمیں تو ملحدین یا منکرین مذہب کا ممنون ہونا چاہیے جو دن رات ایک کر کے بڑی ہی عرق ریزی سے ہمیں ہماری خامیوں سے آگاہ کرتے رہتے ہیں اور ہمیں تفکر و تدبر کا سامان فراہم کرتے ہیں ورنہ تو اس صلاحیت سے نہ جانے کب کے ہم پیچھا چھڑوا چکے ہیں، ہم تو وہ بد قسمت ہیں جو معتزلائی سنت کو کب کے درگور کر چکے ہیں۔ ہمارے خیال میں مذہبی پنڈتوں کو دوسروں کے متعلق اس قسم کی فکر چھوڑ دینی چاہیے کہ کون کس نقطہ نظر کا حامی ہے یہ سب فضول باتیں ہیں بلکہ اس نہج پر سوچنا زیادہ ضروری ہے کہ وہ کس طرح سے اور کس حد تک خود کو آج کے تقاضوں سے نتھی کر کے عصر سے ہم آہنگ کر سکتے ہیں؟ جبر اور فتوی بازی سے اپنی خامیوں پر پردہ پوشی کر کے کچھ وقت تک کے لئے تو وقتی مہان بنا جاسکتا ہے مستقل نہیں، بالکل اسی طرح سے جس طرح سے ایک مداری یا شعبدہ باز وقتی شعبدہ بازی کر کے داد سمیٹ لیتا ہے اور مطمئن رہتا ہے حالانکہ سامعین سب جانتے ہیں مگر کچھ دیر کے لئے لطف اندوز ہونے میں کیا حرج ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments