ملک کی خاطر سیاست میں سنجیدگی درکار ہے


مشرف کا اقتدار طاقت میں بدمست تھا اور ہم جیسے قلم کے سپاہی اس کی مخالفت میں الفاظ کو پرو رہے تھے انہی ایام میں کیپٹن صفدر سے بات ہوئی جو سعودی عرب میں جلاوطنی پر مجبور اپنی والدہ سے دور تھے۔ انہوں نے بتایا کہ ان کی والدہ سخت علیل ہیں اور بیٹے کی دید کو مامتا ترس رہی ہے مگر مشرف سرکار اقتدار کے نشے میں چور ہے۔ انہی دنوں میں پرویز مشرف کا والدہ کے ہمراہ فیملی انٹرویو نشر ہوا تھا اور اسی کو بنیاد بنا کر میں نے تحریر کیا تھا کہ پرویز مشرف کا اپنی والدہ کے سامنے مودب ہونا بہت بھایا بلکہ اس وقت وہ ایسی اکلوتی سویلین شخصیت ہے کہ جن کے سامنے وہ مودب تھے مگر کیپٹن صفدر کی والدہ بھی ان کے لئے ایک ایسی ہی ہستی ہے بیٹا ماں کے لیے اور ماں بیٹے کے لیے ترس رہی ہے مگر اس معاملے میں سوائے بے حسی کے اور کسی صفت کا مظاہرہ نہیں کیا جا رہا ہے۔

یہ سب اس لیے یاد آیا کہ ان حالات سے ملک کی سیاسی قیادت نے بہت کچھ سیکھ لیا تھا میاں نواز شریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو میثاق جمہوریت تک پہنچ گئے تھے کہ ماضی کی تلخ سیاست کا دوبارہ اعادہ نہیں کیا جائے گا۔ میاں نواز شریف کو فرینڈلی اپوزیشن کا طعنہ سننا پڑا مگر سیاست میں گرفتاریوں کا باب بند ہو گیا اور دھیرے دھیرے سیاست میں ٹھہراؤ بھی آنے لگا مگر دوسری طرف سے فیضیاب ہونے کا عمل شروع ہو گیا، ایسا عمل کہ جس کی بنیاد سے عمارت تک سوائے نفرت اور دشنام طرازی کے اور کچھ نہیں۔

عوام علم رکھتے تھے یا لا علم تھے مگر ارباب اختیار اچھی طرح سے آگاہ تھے کہ بیگم کلثوم نواز بستر مرگ پر ہیں مگر شریر لوگوں کو شرارت میں لگایا گیا کہ وہ اسپتال میں داخل ہونے کی کوشش کریں، بیماری کا مذاق بنائیں، اسی پر بس نہیں ہوا بلکہ اس صورت حال کو اپنے مفاد میں استعمال کرنے کی غرض سے نواز شریف اور ان کی صاحبزادی کے خلاف عدالت سے فیصلہ تک کرا دیا گیا۔ کتنا کرب ہو گا جب یہ دونوں بیگم کلثوم نواز سے وداع ہو رہے ہوں گے اور وہ بھی کتنے الم ناک لمحات ہوں گے کہ جن کا ذکر میرے مرحوم دوست ارشد وحید چودھری نے اپنے کالم ”بائیس منٹ“ میں کیا تھا کہ بیگم کلثوم نواز کی بیماری کے سبب نواز شریف تڑپ رہے تھے مگر وہ ان کے آخری لمحات میں اپنے بیٹے سے ان کی خیریت تک دریافت نہ کرسکے اور جیل میں ہی ان کو اپنی اہلیہ کی رحلت کی خبر سننے کو ملی۔

بیٹی کے دل پر بھی کیا قیامت گزری ہوگی پھر دروازے توڑ کر کیپٹن صفدر کی گرفتاری کے بابائے قوم کے مزار پر آئین کی بالادستی کی بات کیوں کردی۔ حمزہ شہباز ایک عرصے تک اولاد کی خوشی کے لیے دست بہ دعا ر ہے جب رحمت خدا ان کے آنگن میں اتر آئی تو ان کو پابند سلاسل کر دیا گیا۔ کوئی اب بھی اگر اٹھ کر مقدمات مقدمات کی ٹیپ سنانے لگے تو یاد رکھئے کہ ان مقدمات کی بس اتنی حقیقت ہے کہ جج ارشد ملک مرحوم کے اعترافی بیان سے شروع ہو جائے اور احسن اقبال پر لگایا جانے والا الزام سامنے رکھ لیں کہ نارووال میں سپورٹس کمپلیکس کیوں تعمیر کیا یا شاہد خاقان عباسی پر مقدمہ جس میں انہوں نے کہا کہ جتنا مرضی ریمانڈ لے لو تاکہ میں تم کو سمجھا سکوں کہ یہ معاہدہ اصل میں ہے کیا۔ خواجہ آصف، سعد رفیق، جاوید لطیف ایک طویل فہرست، ان حالات میں سب کے اہل خانہ کانٹوں کے بستر پر ہی ہوتے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ یہ سب سیاست میں دوبارہ سے کیوں نظر آیا صرف اس لیے کہ اندھی مخالفت، جھوٹ اور دشنام طرازی اقتدار کے لئے سیڑھی بن گئی۔ حاکم وقت کی سطح بس اتنی سی رہ گئی تھی کہ وہ منہ پر ہاتھ پھیر کر اے سی اتروانے کی اپنی حکمت عملی کا اعلان کر رہا تھا۔ اگر ایسا ہی چلتا رہا تو سیاست ماسوائے کشیدگی کے اور کسی چیز کا نام نہیں ہوگی جس کی قیمت سب سے زیادہ وطن عزیز کو ادا کرنی ہوگی۔ اس لیے ضروری ہے کہ سیاسی قوتیں یکجان ہو کر اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے طریقہ کار طے کریں کیوں کہ مصنوعی سیاسی قوت تو سانحہ پشاور کے بعد بھی ایپکس کمیٹی کے اجلاس تک میں نہیں آئی تو اور کسی بات پر اس سے کسی معاملہ فہمی کی کیسے توقع قائم کی جا سکتی ہے۔

پاکستان کو اس وقت سیاسی استحکام کی ضرورت ہے کیونکہ سیاسی استحکام ہی موجودہ معاشی گرداب سے قوم کو نکالنے کا وسیلہ بنے گا۔ معاشی حوالے سے جہاں پر مسائل ہے وہیں پر مثبت خبریں بھی آ رہی ہیں۔ اٹلی کے ترقیاتی تعاون کے سربراہ نے اطالوی سفیر کے ہمراہ پاکستان میں ملاقاتیں کی ہیں اور وہ پاکستان اٹلی کے اقتصادی تعلقات کے فروغ کے لیے کسی متفقہ حکمت عملی کو تیار کرنے کی کاوش کر رہے ہیں۔

یورپ میں اٹلی ویسے بھی ایک ایسا ملک ہے جو بہت سے امور پر یورپی یونین میں بھی پاکستانی خیالات سے متفق ہے۔ جی ایس پی پلس سے لے کر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں مستقل اراکین کی تعداد نہ بڑھانے کے پاکستانی موقف کے حق میں ایک توانا آواز ہے۔ اس لیے امید ہے کہ جیسے ہی دونوں ممالک مزید اقتصادی تعاون کے لیے فریم ورک تیار کریں گے تو اس سے پاکستانی معیشت کو سنبھالا ملے گا۔

دنیا میں انتہائی دلخراش واقعہ قرآن مجید کی گستاخی کی صورت میں سے پیش آیا ہے مگر اہل مغرب اپنی طاقت کے نشے میں اس بات کو سمجھنے کے لئے سرے سے تیار ہی نہیں ہیں کہ ان کی اقدار چاہے احترام مذہب کی ہوں یا نہ ہوں، مسلمانوں کے لیے یہ زندگی موت کا مسئلہ ہے اور جب ترکیہ نے ملت اسلامیہ کے جذبات کی ترجمانی کی تو استنبول میں 9 ممالک نے اپنے سفارتی مشن معطل کر دیے اور ٹریول وارننگ بھی جاری کر دیں تاکہ ترکیہ کی سیاحتی صنعت کو نقصان پہنچ جائے۔ حالانکہ جب ترکیہ نے پوچھا کہ آپ کو کیسے علم ہوا کے یہاں پر آپ کے شہریوں کی زندگی کو خطرات لاحق ہو گئے ہیں تو کوئی معلومات مہیا ہی نہیں کی گئی۔ اس طرح کے اقدامات سے عالمی امن اور بھائی چارے کی فضا قائم نہیں ہوگی زمینی طاقتوں کو یہ سمجھ لینا چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments