اپنا انداز جنوں ‎سب سے جدا رکھتا ہوں میں ( حصہ سوم )


منظر نمبر 1

خطرات میں کودنے اور ( ہر قسم کے ) چیلنج کے لئے ہمہ وقت تیار رہنے والے کے لئے، یہ بات کوئی معنی نہیں رکھتی کہ کسی بھی کام کے لئے اُسے کتنے وسائل میسر ہیں۔ جب بیڑہ اٹھا لیا تو ڈر کاہے کا۔ پاکستان ٹیلی وژن کی اپنی نوعیت کی پہلی ٹرانسمیشن کا آغاز ہونا ہے اور بے سروسامانی کی فضا ہے مگر کسی مایوسی کے بغیر، پوری دل جمعی اور انہماک سے ہر محاذ پر پیش قدمی جاری ہے۔ غالب کی پیروی میں، صبح ہوئی اور کان پر رکھ کر قلم نکلے۔ پھر وقت کا احساس ہی نہ رہا کہ کب شام ہوئی، کب رات ڈھلی۔ یہ سارا جتن اس صورت حال کے باوجود جاری ہے کہ ابھی باقاعدہ دفتر میسر ہے نہ بڑھتی ہوئی ٹیپوں کی حفاظت کا سر دست بندوبست ہوا ہے۔ ابتدائی دنوں میں روز اسلام آباد مرکز کے ٹیکنیکل ایریا کے باہر چھوٹے سے لاؤنج میں پڑاؤ ڈلتا اور بنا کسی ناخوش گواری کے، پھیلے ہوئے کام کو پورے جذبے سے سمیٹا جاتا۔ ٹرانسمیشن ٹیپس موبائل لائبریری کی صورت دفتر سے گھر اور گھر سے دفتر کے درمیان گردش میں ہی رہتیں کہ مبادا کسی ٹیپ کی گمشدگی کا حادثہ نہ درپیش ہو۔

یہ قیاس مشکل ہے کہ اس دوران گھر والوں کے لئے کتنا وقت نکالا ہو گا، تاہم یہ دعوی آسان ہے کہ ذاتی دوستوں اور دفتری ساتھیوں پر واضح تھا کہ جب چاہو، دفتر کھلا ملے گا۔ اسی انتھک محنت اور جنون کا نتیجہ کہیں کہ ٹرانسمیشن گھر گھر کی پسندیدہ ٹھہری۔ صبح کی گھریلو سرگرمیاں ٹرانسمیشن کے پروگرام شیڈول کے مطابق طے کی جانے لگیں۔ مستنصر حسین تارڑ دیکھتے دیکھتے سب کے من پسند، چا چا جی ہو گئے۔ قرۃ العین، پھوپھو قرار پائیں۔ صبح کے کارٹون دیکھے بغیر بچوں نے اسکول جانے سے انکار کر دیا۔ ڈاک کی اتنی بڑی بڑی بوریاں جمع ہونے لگیں کہ اُنھیں نکالنا، کھنگالنا اور سنبھالنا مشکل ہو گیا۔

اور یوں پی ٹی وی کی تاریخ میں، اعلی اور مخلص قیادت کا ایک سنہرا باب، جو 1988 میں تحریر کیا گیا!

منظر نمبر 2

صبح کے چار بجنے کو ہیں۔ سارا گھر سو رہا ہے۔ قرب و جوار میں بھی ہر جگہ خاموشی اور سناٹا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ہر شے نیند کے عالم میں ایک دوسرے سے لاتعلق اور بے خود ہے۔ ہاں اس خالی کمرے میں روشن بلب سے زندگی کے آثار دکھائی دے رہے ہیں مگر اس وقت کمرے میں کوئی نہیں۔ کمرے سے ملحقہ کچن میں چولہے پر چڑھی کیتلی کی آواز یہ بتا رہی ہے کہ پانی مطلوبہ گرم حالت میں آ چکا ہے۔ لیجیے پتی اور دودھ کی آمیزش نے ابلتے سادہ پانی کو چائے کے خوش نما روپ میں ڈھال دیا ہے۔ چائے بنانے والے کا اندازہ ہے کہ ابھی کچھ دیر میں گھر کی بیل بجے گی یا ہلکی سی دستک ہوگی اور پھر یہ چائے خصوصی طور پر آنے والے کو پیش کی جائے گی کیوں کہ منتظر شخص کا خیال ہے کہ صبح کے اس پہر اور موسم کی اس شدت میں، معمول کے اوقات سے ہٹ کر، اپنے فرائض ادا کرنے والے کا یہ حق بنتا ہے کہ اُس کی ہر ممکنہ تواضع کی جائے۔

گاڑی کی دھمک سے اندازہ ہو رہا ہے کہ ٹرانسمیشن کے لئے مقررہ گاڑی پروڈیوسر کو پک کرنے کے لئے آن پہنچی ہے۔ نیند کے ان آرام دہ اوقات میں، ڈیوٹی پر مامور، گاڑی کے ڈرائیور کے لئے کم و بیش ہر روز، گرما گرم چائے اسی طرح اُس کی منتظر ہوتی۔

منظر 3

وہ جو خود، جی جان سے کام کا عادی ہو، بھلا یہ کیسے برداشت کر سکتا ہے کہ اُس کی ٹیم کے ایک فرض شناس اور محنتی فرد کو اُس کا حق نہ ملے۔ وہ کارکن جو روز اوّل سے تمام تر مصائب میں آپ کے شانہ بہ شانہ اپنے فرائض سے بڑھ کر دیوانہ وار مصروف عمل رہا ہو، اُس کے ساتھ ہونے والی زیادتی اور نا انصافی کیوں کر برداشت کی جا سکتی ہے۔ انتظامی موشگافیوں کی مدد سے جب سرکاری قواعد کے تحت نائب قاصد کو ملنے والے اوور ٹائم کو مسلسل نظرانداز کیا گیا تو اُسے منظور کرانا مطمح نظر ٹھہرا۔ شاید کسی اور کے لئے پروڈکشن کے دوسرے بڑے بڑے کاموں کے سامنے یہ کام بہت چھوٹا اور غیر اہم تصور ہوتا، مگر ایک انساں دوست اور فرض شناسی کا قدردان، کیسے اپنی موجودگی میں ہونے والی شبانہ روز حقیقت سے منہ پھیر لیتا۔

معاملے سے دلچسپی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ داد رسی کے لئے ادارے کی اعلی سطحی جنرل مینیجرز کانفرنس میں اسے اٹھایا گیا اور جب تک مہینوں سے التوا شدہ اوور ٹائم کی منظوری حاصل نہ کی، اُس کی پرُزور اور پرُجوش وکالت ختم نہ کی۔ صرف یہی نہیں اس کانفرنس سے منظوری حاصل کرنے کے بعد ، دیرینہ مسلے کو منطقی انجام تک پہنچانے اور حقدار کو اُس کا حق دلانے کے لئے، ادارے کا متعلقہ فارم پرُ کرنے کا فریضہ تک خود انجام دیا۔

منظر 4

دانشوروں کا کہنا ہے کہ زندگی میں صرف دو رشتے ایسے ہیں جو اپنی تخلیق کو اپنے سے آگے نکل جانے پر خوش ہوتے ہیں۔ ایک باپ اور دوسرا استاد۔

یہاں شاید یہ دونوں روپ ایک ہی شخص میں یکجا ہو گئے تھے۔ جونیئرز کے لئے دل کھلا رکھنا اپنی جگہ، اُن کی ترقی کے لئے راستہ ہموار کرنے کی خواہش اور اس خواہش کو عمل کا روپ دینے کی مخلصانہ کوشش، ایسے، جیسے یہ بھی انتظامی ذمہ داری میں شامل ہو۔ حوصلہ افزائی کے اس مشن میں کسی بھی قسم کی پسندیدگی یا نا پسندیدگی کی کسوٹی پر تفریق اور امتیاز، شخصیت سے میل نہ کھاتا تھا۔

اسی روایت کے تحت، ایک جونیر پروڈیوسر کو سٹوڈیو میں ریکارڈنگ کا پروگرام دے ڈالا۔ اس ناگہانی پر، اُسے اپنی پہلی ریکارڈنگ میں منفی امکانات کے اتنے بہت سے سوالات مقابل ہوئے کہ کچھ سجھائی نہ دے۔ سٹوڈیو کی ریکارڈنگ میں عام آؤٹ ڈور ریکارڈنگ سے ہٹ کر ریکارڈنگ پینل کا استعمال ہوتا ہے جو نو آموز کو چکرا دینے کے لئے کافی تھی۔ جونئیر کے لئے یہ بالکل نئی دنیا تھی۔ وہ مسلسل شش و پنج میں، کیا کرے، کیا نہ کرے کی تصویر بنے اندر ہی اندر پیچ و تاب کھاتا رہا۔ کنٹرول روم اور سٹوڈیو میں موجود ٹیکنیکل اسٹاف کے آگے سبُکی کا خوف گزرتے وقت کے ساتھ بڑھتا جا رہا تھا۔ اُس کا بس چلتا تو کنٹرول روم کا کمرہ کھول کے بھاگ جاتا۔ کبھی وہ دعا کرتا کہ یہ سب ایک بُرا خواب ہو، مگر اس سے بھی حقیقت نہ ٹلی۔

بادل نخواستہ آزمائش کا یہ مرحلہ، نہیں معلوم کیسے اور کتنی ہی ان گنت غلطیوں کے ساتھ انجام پذیر ہوا۔ خجالت اور شرمندگی کے ساتھ جونئیر نے کرسی سے کھڑے ہوتے ہوئے پلٹ کر، کنٹرول روم کے باہر دیکھنا چاہا تو شیشے کی کھڑکی کی دوسری طرف، تیراکی سکھانے کے لئے، سمندر میں دھکا دینے والا تجربہ کار ( اور شفیق) ملاح، اپنی مخصوص مسکراہٹ اور انگلیوں میں دبے سگریٹ کے ساتھ، حوصلہ افزائی ( اور پشت پناہی ) کے لئے موجود تھا۔

اختتام

ان تمام مناظر میں، صرف ایک قدر مشترک ہے اور وہ خالد محمود زیدی کی غیر معمولی اور (ہمارے معاشرے کے اعتبار سے ) غیر روایتی شخصیت۔
کام، کام اور صرف کام کے عادی کے لئے اکلوتا خواب، ہمیشہ
ہدف تک رسائی تھا، نام اور نمود کے رستوں سے ہمیشہ نا آشنا رہے۔

دنیاداری چھوڑ کر، خود اپنی ایک دنیا بسائی جس میں سچ اور سچ کے سوا اور کسی شے کو پاس نہ آنے دیا۔ اس انتخاب میں جس بات پر ڈٹ گئے، اُس سے پھر پیچھے نہ ہٹے۔
تعلقات میں سوائے اخلاص، نیک نیتی اور انسان دوستی کے، اور کوئی بات ترجیحی نہ تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments