کیا آپ علم نفسیات اور علم روحانیات کے فرق کو جانتے ہیں؟


عمر فاروق کا ڈاکٹر خالد سہیل کو خط

محترم خالد سہیل صاحب!
آپ کی خدمت میں سلام پہنچے۔ امید ہے کہ آپ خیر و عافیت سے ہوں گے۔ یہ میرے لئے شرف کی بات ہے کہ میں آپ سے مخاطب ہو رہا ہوں۔ میں اس تحریر میں چند اہم ”سوالات“ جو آپ کی خدمت میں رکھنا چاہتا ہوں لیکن اس سے پہلے چند چیزیں آپ کے گوش و گزار کرنا چاہوں گا۔ میں خصوصی طور پر آپ کا شکر گزار ہوں۔ کیوں؟ کیونکہ ڈاکٹر صاحب یقین کریں میں دل سے سمجھتا ہوں کہ آپ نے جس مستقل مزاجی کے ساتھ ’علم نفسیات‘ پر کام کیا ہے وہ پورے پاکستان میں کوئی نہیں کر سکا۔

آپ واحد انسان ہیں جنہوں نے تن تنہاء نفسیات پر شاندار اور پڑھنے لائق کام کیا۔ مجھے عرصہ سے آپ کو پڑھنے کا شرف حاصل رہا ہے۔ میں خود بھی ’علم نفسیات‘ کا طالب علم ہوں۔ پاکستان سمیت دنیا بھر میں جہاں جہاں ’نفسیات‘ پر کام ہو رہا ہے میری اس پر گہری نظر ہے لیکن اردو میں پورے پاکستان کے اندر آپ کے پائے کا ایک بھی شخص موجود نہیں جس نے آسان اور عام فہم اردو کا استعمال کرتے ہوئے اتنا شاندار کام کیا ہو! مجھے ملک کے نامور نفسیات دانوں سے ملنے کے مواقع بھی میسر آچکے ہیں، ان کی اکثریت لاہور میں موجود ہے لیکن کام؟

کام کا مت ہی پوچھئے! میرا ماننا ہے کہ ’علم نفسیات‘ سے دلچسپی رکھنے والے ہر اردو قاری کو آپ سے لازماً روشناس ہونا چاہیے۔ ایک عرصہ قبل میں بذات خود آپ کے نام تک سے ناواقف تھا۔ میرے ایک بہت ہی محترم دوست عثمان اشرف کی وساطت سے آپ سے تعارف ہوا۔ میں نے ”ہم سب“ پر آپ کے چند کالمز پڑھے اور آپ کو مستقل پڑھنے کا فیصلہ کر لیا۔ مجھے آپ کی چند کتابیں بھی پڑھنے کا موقع مل چکا ہے جن میں ’اپنا قاتل‘ ’سکزوفرینئیا‘ اور ’لفظوں کی مسیحائی‘ شامل ہے۔

’اپنا قاتل‘ کتاب پڑھ کر مجھے اندازہ ہوا کہ یہ کتاب اگر کچھ بھی نہ سکھائے تو یہ کم ازکم علم نفسیات پڑھنے والے طالب علموں کو ’رپورٹ بنانا‘ اور ’کیس کی جانچ پڑتال‘ کرنا لازمی طور پر سکھا دیتی ہے۔ پوری کتاب ہی علم کا انمول خزانہ۔ ’لفظوں کی مسیحائی‘ میں پوری کتاب ایک سائیڈ۔ اور آپ کی زندگی کی اپنی کہانی ایک طرف۔ آپ کا بچپن ہو، نوجوانی کی محنت ہو یا آج زندگی کو محبوبہ کی طرح گزارنے کا فن۔ سب پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔

آپ جس طرح سے چیزوں کو ترتیب دے لیتے ہیں اور ان کو اس انداز میں ڈھال لیتے ہیں کہ عام آدمی کے فہم میں سما سکیں یہ فن بھی قابل تعریف ہے۔ ہمارے دوست عثمان اشرف صاحب اکثر کہتے ہیں : ”آسان لکھنا اور واضح لکھنا بڑا لکھاری ہونے کی نشانی ہے“ ۔ پچھلے دو ہفتوں سے آپ کے ویڈیو لیکچرز بھی مسلسل سن رہا ہوں۔ میں نے زندگی میں کم لوگوں کو ’تعقل پسندی‘ کی بنیادوں پر رائے قائم کرتے دیکھا ہے۔ ہمارے لوگ عموماً جذبات میں گندھے ہوئے ہوتے ہیں۔ ہم نے ہمیشہ ’متھالوجیز‘ پر یقین رکھنے کو ترجیح دی ہے۔ کم ہی لوگ منصفانہ اور شفاف رائے اپنانے کو تیار ہوتے ہیں آپ بہرحال ان نایاب لوگوں میں سے ہیں۔ اب میں چند سوالات آپ کی خدمت میں رکھوں گا۔

پہلا سوال۔
سگمنڈ فرائیڈ اور کارل ژونگ۔ دونوں کے کام کو کیسے دیکھتے ہیں؟

دوسرا سوال۔
گرو راجنیش (اوشو) اور کرشنا مورتی کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟

تیسرا سوال
پاکستان میں علم نفسیات کے حوالے سے مزید آگاہی کس طرح پھیلائی جا سکتی ہے؟ کیا آپ کے نزدیک علم نفسیات پاکستان میں پھل پھول سکتا ہے؟

آپ کا خیر خواہ
عمر فاروق
۔ ۔ ۔
ڈاکٹر خالد سہیل کا عمر فاروق کو جواب

عمر فاروق صاحب!
یہ میری خوش بختی کہ آپ کے دوست عثمان اشرف صاحب نے آپ کا میرے ’ہم سب‘ کے کالموں سے تعارف کروایا اور آپ نے میری کتابوں کا سنجیدگی سے مطالعہ کیا۔ میری شروع سے ہی کوشش رہی ہے کہ میں نفسیات کے موضوع پر عام فہم زبان میں لکھوں تا کہ زیادہ سے زیادہ لوگ میرے کالموں اور کتابوں سے استفادہ کر سکیں۔

میں آپ کے تین سوالوں کے تین مختصر جواب دینے کی کوشش کروں گا۔

پہلا جواب۔

میری نگاہ میں سگمنڈ فرائڈ اور کارل ینگ دونوں نے بیسویں صدی میں انسانی نفسیات کے علم کو گرانقدر تحفے دیے ہیں۔ فرائڈ نے ہمارا انسانوں کے انفرادی لاشعور سے اور کارل ینگ نے ہمارا انسانوں کے اجتماعی لاشعور سے تعارف کروایا۔ دونوں نے نہ صرف انسانوں کے نفسیاتی مسائل کی تشخیص کی بلکہ ان مسائل کے حل بھی تلاش کیے۔ دونوں ماہرین نفسیات نے ہماری ادب اور فنون لطیفہ کی تفہیم میں بھی مدد کی۔

دوسرا جواب۔

آپ نے گرو راجنیش اور کرشنا مورتی کے بارے میں میری رائے مانگی ہے سو عرض ہے کہ میں دونوں کو ماہر نفسیات نہیں ماہر روحانیات مانتا ہوں اور کرشنا مورتی کی گرو راجنیش سے کہیں زیادہ قدر کرتا ہوں۔ کرشنا مورتی ایک ماہر روحانیات ہی نہیں ایک دانشور بھی تھے جنہوں نے انسانیت کی خدمت کی اور اپنے شاگردوں اور پرستاروں کی ان کے سچ کی تلاش میں مدد کی۔ کرشنا مورتی کا کہنا تھا کہ ہم اپنے سچ تک کسی بھی مذہب کے راستے نہیں پہنچ سکتے کیونکہ۔ سچ تک کوئی روایتی راستہ نہیں جاتا

TRUTH IS A PATHLESS LAND
کرشنا مورتی بدھا کے ہم خیال تھے کہ انسان کا اپنا تجربہ اس کا سب سے بڑا استاد ہوتا ہے۔

کرشنا مورتی کے مقابلے میں گروراجنیش جوں جوں مقبول ہوتے گئے وہ اپنی سیدھی راہ سے دور اور دولت ’شہرت اور عورت کے قریب ہوتے گئے۔ انہوں نے امریکہ میں آ کر اپنا ایک کمیون بنایا جہاں انہوں نے ننانوے رولز رائس گاڑیاں خریدیں اور مالدار مردوں اور عورتوں کو اپنا جنسی مرید بنایا۔

گرو راجنیش بہت ذہین انسان تھے۔ انہیں اندازہ ہو گیا تھا کہ مغرب کے باسی روایتی مذہب سے بیگانہ و بیزار ہو چکے ہیں اس لیے انہوں نے مغربی لوگوں کو جعلی روحانیات کی راہ دکھائی اور پھر روحانیات کو کاروبار بنایا۔ ایک انٹرویو میں فرماتے ہیں

PEOPLE NEED SPIRITUALITY AND I SELL SPIRITUALITY

تیسرا جواب

جہاں تک پاکستان میں علم نفسیات کی آگاہی کا سوال ہے میں اس حوالے سے بہت پر امید ہوں۔ میری نگاہ میں یہ ماہرین نفسیات کی سماجی ذمہ داری ہے کہ وہ نفسیات کے علم کو عام فہم زبان میں عوام تک پہنچائیں اور ان کے نفسیاتی اور سماجی مسائل کے حل پیش کریں۔

آپ اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ میں اب تک ’ہم سب‘ پر پانچ سو سے زیادہ کالم لکھ چکا ہوں۔
حال ہی میں میرے نفسیاتی کالموں کا مجموعہ کراچی سے چھپا ہے جس کا نام انسانی نفسیات کے راز ہے۔ مجھے میرے کراچی کے پبلشر آصف صاحب نے یہ خوش خبری سنائی کہ جب وہ میری کتاب کراچی کے بک فیر میں لے کر گئے تو پہلے ایڈیشن کی سب کتابیں دوستوں اور اجنبیوں نے خرید لیں اب وہ اس کا دوسرا ایڈیشن شائع کر رہے ہیں۔

عمر فاروق صاحب!
ہمیں عوام کو یہ تعلیم دینی ہے کہ نفسیاتی مسائل اور روحانی مسائل میں بہت فرق ہے۔

جس طرح ہائی بلڈ پریشر یا ذیابیطس کا مریض ایک ڈاکٹر کے پاس جاتا ہے اسی طرح اینزائٹی ’ڈپریشن اور سکزوفرینیا کے مریض کو ماہر نفسیات سے مشورہ کرنا چاہیے اور ادویہ اور تھراپی سے علاج کروانا چاہیے نہ کہ وہ پیروں فقیروں کے پاس جا کر گنڈا تعویز سے علاج کروائے۔

میں نے روحانیات کے حوالے سے ایک کتاب لکھی ہے جس میں روحانیات پر مذہبی ’نفسیاتی اور سائنسی حوالوں سے سیر حاصل گفتگو کی ہے۔ اس کتاب کا نام

MYSTERIES OF MYSTICISM

ہے۔ اگر آپ یا ’ہم سب‘ کے قارئین وہ کتاب پڑھنا چاہیں تو مجھے ایک ای میل بھیجیں اور میں انہیں اس کتاب کی پی ڈی ایف کاپی بطور تحفہ بھیج دوں گا۔ میرا ای میل ایڈریس

welcome@drsohail.com
ہے۔
زندگی ’ادب اور نفسیات کا طالب علم
ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 683 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments