سٹریٹ کرائم کی ایک دلخراش کہانی


حمید کو کل تنخواہ ملی تھی اور ایک دن کے اندر اندر ہی مکان کے کرائے، بجلی، گیس، فون، دودھ کے بلوں نے آدھی کر دی۔ اگلے ایک ہفتے میں بچوں کی سکول فیس اور سودے سلف کی ادائیگی کرنی پڑ گئی تو بٹوا بالکل پچک گیا۔ پانچ سال پہلے اس کے پاس کار تھی۔ پٹرول مہنگا ہوا تو اس نے موٹر سائیکل خرید لی۔ پٹرول مزید مہنگا ہوا تو اس نے بس پر دفتر آنا شروع کر دیا۔ پھر پٹرول مزید مہنگا ہونے پر بس کا کرایہ بھی برداشت سے باہر ہوا تو اس نے سائیکل خرید لی۔ بائیس کلومیٹر کا سفر وہ تقریباً ایک گھنٹے میں طے کر لیتا تھا۔

شروع شروع میں تو اسے دقت ہوئی لیکن پھر رفتہ رفتہ عادت پڑ گئی۔ جب اس نے سفر کے دوران موبائل پر گانے سننے شروع کر دیے تو سفر زحمت کی بجائے راحت بن گیا۔ اب اس ورزش سے اس کی صحت میں بھی نمایاں بہتری آ گئی تھی۔ مگر ستم یہ ہوا کہ ایک دن ایک اداس گانا سنتا ہوا گھر کی طرف گامزن تھا کہ ایک تاریک گلی میں اچانک اس کے پاس ایک موٹر سائیکل آ کر رکی۔ اس پر دو نوجوان بیٹھے تھے۔ ایک نے حمید کی سائیکل کو ایک ہاتھ سے پکڑا اور دوسرے ہاتھ میں موجود پستول کی سرد نال حمید کی گردن پر جما دی۔

بٹوا چلا گیا۔ خیر بٹوے میں تھا ہی کیا۔ چند بل اور بس۔ لیکن ستم یہ ہوا کہ وہ ظالم موبائل بھی لے گیا۔ پچھلے ایک برس میں یہ تیسرا موبائل تھا جو یوں چھینا گیا تھا۔ حمید نے نیا موبائل خریدنا چاہا تو اسے بجٹ سے باہر پایا۔ ہر معقول موبائل اب پہلے سے تین گنا مہنگا ہو چکا تھا۔ یوں اس کے سفر کی واحد راحت بھی اس سے چھن گئی۔

پہلے چند دن تو اداسی میں کٹے، پھر حمید کو عادت ہو گئی۔ اب وہ دفتر سے نکلتا تو سگریٹ سلگا لیتا۔ سگریٹ کے پہلے کش کے ساتھ پریشانیاں اس کے سر سے اتر جاتیں۔ اور تیسرے کش تک ان کی جگہ سرور لے لیتا۔ تین سگریٹوں میں آہستہ آہستہ پیڈل مارتا اور بادلوں پر اڑتا اڑتا گھر پہنچ جاتا۔ اس دوران چار مرتبہ اسے موٹر سائیکل والے لٹیروں نے روکا تھا مگر اس کی جیب خالی پا کر مایوس لوٹے تھے۔ حمید کی جیب میں پرس تھا اور نہ اس کے پاس موبائل۔ بلکہ ایک مرتبہ تو لٹیرے نے اس کے خالی پیٹ کی گڑگڑ سن کر اسے اپنے پلے سے سو روپے بھی دے دیے تھے۔

اب وہ پچھلے چھے ماہ سے بغیر کسی پریشانی کے گھر چلا جاتا تھا۔ لیکن آج عجیب ماجرا ہوا۔

جیسے ہی وہ کش لگاتا ہوا ایک اندھیری گلی سے گزرا تو ایک موٹر سائیکل اس کے پاس آ کر رکی۔ حمید عادی ہو گیا تھا۔ اس نے سائیکل روکی، دونوں ہاتھ اٹھا دیے اور بولا ”نہ میرے پاس پرس ہے اور نہ موبائل“ ۔

لٹیرا یہ سن کر ہنسنے لگا۔ بمشکل ہنسی روک کر بولا ”تم نے ہمیں کیا کوئی سستا قسم کا ڈاکو سمجھا ہے جو ہم پرس اور موبائل فون چھینیں گے؟“

حمید بولا ”اب میرے پاس نوٹوں سے بھرا ہوا بریف کیس تو ہے نہیں۔ اور میری شکل بھی ایسی حسین نہیں کہ تمہاری نیت خراب ہو اور تم میرے غیر منقولہ اثاثے لوٹنے کا سوچو۔ آخر میرے پاس ہے کیا لٹوانے کے لیے؟“

لٹیرا یہ سن کر شیطانی ہنسی ہنسا ”تم واقعی اتنے بھولے ہو یا ایکٹنگ کر رہے ہو؟ سیدھی طرح اپنی سگریٹ کی ڈبی میرے حوالے کرو۔ ہم اب سستے موبائل یا خالی پرس نہیں لوٹتے، قیمتی سگریٹ لوٹتے ہیں“ ۔

یوں حمید کی آخری خوشی بھی رخصت ہوئی۔ وہ اپنے دکھ درد، غم پریشانی کی ساتھی بھی کھو بیٹھا۔ اب اس کے تنہا سفر کا کوئی ساتھی نہیں۔
بس بھائی، اب پرس اور موبائل کو بھول جاؤ۔ اب تو ڈاکے پڑیں گے، سگریٹیں لٹیں گی۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments