ریڈیو کا ماضی، حال اور مستقبل


ریڈیو جو میری نسل کا استاد، سکول، تھیٹر، سنیما سب کچھ تھا، آج بہت کم دیکھنے میں آتا ہے اور سننے کو ملتا ہے۔ بچپن میں ہماری صبح سے شام تک کی مصروفیات ریڈیو کے ساتھ منسلک ہوتی تھیں۔ صبح چھ بج کر بیس منٹ پر بی بی سی کی خبروں سے دن کا آغاز ہوتا تھا۔ سات بجے ریڈیو پاکستان سے خبریں اور اس کے بعد وائس آف امریکہ سے نیوز بلیٹن کے بعد ریڈیو سیلون پر فرمائشی گانے سنتے تھے۔

دن اڑھائی بجے آل انڈیا ریڈیو سے فرمائشی گانے سننا تو گویا آج کے زمانے میں ٹیلی ویژن کا رات آٹھ بجے والا پرائم ٹائم تھا۔ فوجی بھائی بتاتے تھے کہ دن کے اس پہر سیاچن کے محاذ پر بھی توپیں خاموش ہو جایا کرتی تھیں۔ رات کو آٹھ بجے ریڈیو پاکستان سے خبریں اور اس کے بعد بی بی سی سننا تو گاؤں دیہات جہاں اخبار اور ٹیلی ویژن کا تصور نہیں وہاں زندگی کا لازمی حصہ تھا۔ رات ساڑھے گیا رہ بجے آل انڈیا ریڈیو سے تعمیل ارشاد کے فرمائشی گانے سننے کے بعد ہی دن کا اختتام ہوتا تھا۔

ہم ان سکولوں میں پڑھتے تھے جہاں طلبہ تو ایک طرف استاد تک روانی سے اردو بھی نہیں بول سکتے تھے تو ایسے میں انگریزی، عربی یا فارسی کی بات کیا کریں۔ ایک ہی گاؤں میں ایک ہی زبان بولنے والوں کو کسی دوسری زبان میں بات کرنے کی ضرورت ہی نہیں تھی تو کیسے کوئی دوسری زبان سیکھتے۔ یہ ریڈیو ہی تھا جس نے پھنڈر کے گاؤں سے احمد جان کو انگریزی سیکھا کر دنیا کی ایک بہترین یونیورسٹی میں اس زبان کا استاد بنا دیا ہے۔

پھنڈر کا احمد جان ہی نہیں انڈیا کے ایک گاؤں میں ہمسائے کے گھر کی دیواروں سے کان لگا کر لتا منگیشکر کے گانے سننے والے شبیر کمار نے بھی ایک دن اسی کی آواز میں آواز ملا کر گانا شروع کیا اور آج ایک بہت بڑا نام بن گیا ہے۔ صرف ایک شبیر کمار ہی نہیں اس دور میں درجنوں ایسے فنکار پیدا ہوئے جن کو صرف ریڈیو تک رسائی حاصل تھی۔

میں جب گاؤں سے شہر گیا تو لوگوں کو ریڈیو کم ہی سنتے دیکھا۔ جو سنتے بھی تھے تو میڈیم ویوز پر ہی سنتے تھے جس میں صرف مقامی نشریات ہی سنائی دیتی تھیں۔ میڈیم ویوز سننے کی ایک اور وجہ یہ بھی تھی کہ شہر کے شور اور ٹریفک میں شارٹ ویویز پر نشریات صاف سنائی بھی نہیں دیتی تھیں۔ بی بی سی، وائس آف امریکہ یا دیگر عالمی نشریات شارٹ ویوز پر صاف سننے کے لئے شور سے دور جانا پڑتا تھا۔

میں تو شہر میں آ کر ٹی وی کا عادی ہو گیا مگر دس سالوں تک پہاڑوں میں ریڈیو سے کان لگائے خود کو دنیا سے جوڑے رکھنے والا بلوچستان کا کامریڈ سرور شاید آج بھی ریڈیو ہی سنتا ہے۔ ستر کی دہائی میں ہتھیار اٹھا کر مادر علمی کو خدا حافظ کہہ دیا تو کامریڈ سرور اپنے ساتھ بندوق کے ساتھ ایک ریڈیو سیٹ بھی لے کر گیا تھا تب سے وہ اس کے ساتھ منسلک ہے۔ واپسی پر سلسلہ تعلیم کو دوبارہ شروع کرنے ولا کامریڈ سرور رات کو یونیورسٹی کے گراؤنڈ میں ایک جگہ خاموشی سے سگریٹ پھونکتا ہوا لیٹ کر ریڈیو سنتا تھا۔ اس کو ٹیلی ویژن اس لئے پسند نہیں تھا کہ اس پر لوگوں کو صرف ایک ہی منبع سے مطلع رہنے پر مجبور کیا جاتا ہے جبکہ ریڈیو سننے والے کے پاس یہ اختیار ہوتا ہے کہ وہ کس کو سنتا ہے۔ بقول کامریڈ سرور کے ساری بات اختیار کی ہی تو ہے کہ کس کا اختیار کس کے پاس ہے۔

امریکہ میں یہ دیکھ کر تعجب ہوا کہ صدر کا قوم سے خطاب ریڈیو پر ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں تو جب تک ٹیلی ویژن پر لائٹنگ صحیح نہ ہو وہ بھی خطاب نہیں فرماتے جن کو قوم سے خطاب کرنے کا کوئی قانونی اور آئینی جواز بھی نہیں۔ امریکی صدر کے ریڈیو پر خطاب کی رسم کا عقدہ یہ کھلا کہ ٹیلی ویژن پر صدر کا خطاب دیکھنے کے لئے کسی کو دوسرے کام چھوڑنا پڑے گا جبکہ ریڈیو کوئی کہیں بھی سن سکتا ہے۔ کچن میں کھانا پکاتے ہوئے یا گاڑی چلاتے ہوئے بہترین مشغلہ ریڈیو ہی ہوتا ہے۔ پھر یہ بھی بتایا گیا کہ امریکہ میں ٹیلی ویژن سے زیادہ لوگوں کی رسائی ریڈیو تک ہے اس لئے سب تک پیغام پہنچانے کے لئے صدر کا خطاب بھی ایسے ذریعہ ابلاغ سے کیا جانا ضروری ہے جس تک زیادہ لوگوں کی رسائی ہو اور وہ ریڈیو ہی ہے۔

ریڈیو جو آج ہر جیب میں موبائل فون کے اندر موجود ہے کبھی اشیائے تعیش میں شمار ہوتا تھا۔ گھر میں نمایاں مقام پر رکھے جانے والے ریڈیو سیٹ کے علاوہ خوبصورت ڈیزائن میں کاندھے پر بھی لٹکائے نظر آتے تھے جو اس دور کا ایک فیشن ہوا کرتا تھا۔ ریڈیو کبھی وہ سب کچھ تھا جو بعد میں ٹیلی ویژن پر منتقل ہوا مگر ریڈیو کے لئے خط لکھنا اور اس کا جواب سننے کا لطف کہیں نہیں ملا۔

ریڈیو آج بھی ہے ایک نئے رنگ میں مگر دیگر ذرائع ابلاغ میں نمایاں نہیں۔ ہر بڑے شہر میں سرکاری ریڈیو اسٹیشن کے علاوہ متعدد ایف ایم ریڈیو کے چینل بھی موجود ہیں مگر یہ سب شہروں تک محدود ہیں جہاں دیگر ذرائع ابلاغ کی موجودگی میں ان کی اہمیت وہ نہیں جو کبھی ہوا کرتی تھی۔ شارٹ ویوز پر اب بہت کم لوگ سنتے ہیں اب ایف ایم کے علاوہ میڈیم ویوز تک محدود ہونے کی وجہ سے اس کی رسائی بھی محدود ہو گئی ہے۔

دفتر میں کام کرتے ہوئے، گاڑی چلاتے ہوئے یا گھر میں کام کرتے ہوئے ریڈیو ہی سب سے بہتر مشغلویت ہے اور یہی وجہ ہے ریڈیو اب بھی ہمارے کانوں میں اپنی آواز کا رس گھولتا رہتا ہے۔ سب سے ارزاں، سستا ہونے علاوہ بجلی، انٹرنیٹ کی ڈوری سے آزاد ریڈیو کی اہمیت کا اندازہ اس وقت ہوتا ہے جب لوڈ شیڈنگ ہو یا انٹرنیٹ کی کیبل خراب ہو۔

ریڈیو کا مستقبل کیا ہو گا، کیا ہمیں یہ صرف میوزیم میں ہی دیکھنے کو ملے گا؟ گزشتہ چند سالوں میں ذرائع ابلاغ کی ترقی کے دوران ہم نے دیکھا کہ جہاں ریڈیو کی عالمی نشریات محدود ہو گئی ہیں وہاں مقامی سطح پر اس کی افادیت میں اضافہ ہوا ہے۔ سوات میں بدنام زمانہ ملا ریڈیو کی ایف ایم نشریات نے پورے علاقے کو خوف زدہ کر کے رکھا تھا جس کے توڑ میں وائس آف امریکہ کی قبائلی علاقوں میں نشریات کا مقبول ہونا اس بات کی غمازی ہے کہ ریڈیو کی ضرورت ابھی ختم نہیں ہوئی۔

دور دراز کے پسماندہ علاقوں میں ریڈیو اب بھی موثر ذریعہ ابلاغ ہے۔ سکولوں میں تعلیم کے لئے ریڈیو کے استعمال کے کامیاب تجربے ہوچکے ہیں۔ ریڈیو کو علم و آگاہی، امن و آشتی اور معاشرے میں اجتماعی و انفرادی بھلائی کے لئے استعمال ہو تو بہتر ہے وگرنہ ٹیلی ویژن کی نشریات کے بارے میں بعض مذہبی انتہا پسند آراء کی وجہ سے جہادی گروہوں کے لئے ریڈیو ایک پسندیدہ ذریعہ ہے جو ایک بار پھر دہشت پھیلانے کے لئے استعمال ہو سکتا ہے۔

علی احمد جان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

علی احمد جان

علی احمد جان سماجی ترقی اور ماحولیات کے شعبے سے منسلک ہیں۔ گھومنے پھرنے کے شوقین ہیں، کو ہ نوردی سے بھی شغف ہے، لوگوں سے مل کر ہمیشہ خوش ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہر شخص ایک کتاب ہے۔ بلا سوچے لکھتے ہیں کیونکہ جو سوچتے ہیں, وہ لکھ نہیں سکتے۔

ali-ahmad-jan has 279 posts and counting.See all posts by ali-ahmad-jan