آئین عدالت کے دروازے پر


صحافی کے قلم اور منصف کے فیصلے کی گواہی تاریخ دیتی ہے اور تاریخ کے کٹہرے میں احتساب بھی ہے اور انصاف بھی، جزا بھی ہے اور سزا بھی۔ منصف کا ترازو اور صحافی کا قلم ہر دور کی وہ اہم گواہی ہے جو اگر سچ کی بنیاد پر نہ دی جائے تو صدیاں سزا پاتی ہیں۔

ہماری عدالتی تاریخ قابل دست درازی آئین کے واقعات سے بھری پڑی ہے اور ابتدائے مملکت سے ہی ابتلائے آئین کا آغاز بھی ہوا۔ ہم چونکہ تاریخ کے جھروکے میں کھڑے ہیں اور آئین دروازے پر دستک دے رہا ہے تو کیوں نہ دروازے کی کواڑ کے پیچھے چُھپے اُن آئین فروشوں اور آئین شکنوں کو کھنگالا جائے جن کے باعث آج بھی نظامِ جمہوریت مغالطوں اور آئین مشکلات کا شکار ہوا ہے۔

یہ کہنے میں عار نہیں کہ جس حال میں وطن عزیز پہنچا ہے اسے یہاں تک لانے میں آئین شکن جرنیلوں کے ساتھ سہولت کار عدلیہ کا بھی برابر کا ہاتھ ہے۔

1973 کے آئین کو مارچ میں 50 برس ہو جائیں گے۔ پاکستان کے سیاست دانوں، آئین اور جمہوریت پسندوں کے لیے اگر آج کوئی ایک متفقہ دستاویز ہے تو وہ آئین پاکستان ہے۔

1973 کے آئین کی تخلیق، تشکیل اور بقا کے لیے پاکستان کے سیاستدانوں، وکلا، صحافیوں اور سول سوسائٹی نے نہ صرف قربانیاں دیں بلکہ اس میں تحریف سے روکنے کے لیے بھی انھیں بے پنا آزمائشوں سے گزرنا پڑا۔

کبھی آئین کی راہ میں جسٹس منیر جیسے کردار آئے جنھوں نے ہانس کیلسن کے نظریہ ضرورت سے متاثر ہو کر ایک ’انقلاب یا بغاوت کے لیے آئین کو تبدیل کرنے‘ کا جواز فراہم کیا تو کبھی جسٹس انوار الحق نے قانون ساز اسمبلی کو برخاست کرنے اور مارشل لا کے نفاذ کو جائز قرار دیا۔

جنرل ایوب، جنرل ضیا اور جنرل مشرف کے آمرانہ اقدام کو عدلیہ تحفظ دیتی رہی اور زمانہ جمہوریت میں اسٹیبلشمنٹ کی جگہ پارلیمان کے اختیار کو نگلنے اور سیاسی حکومتوں کو غیر فعال کرنے میں اپنا منفی کردار ادا کرتی رہی۔

ایسا نہیں کہ سیاست دانوں نے اپنا حصہ نہیں ڈالا تاہم اصل قصور اُس عدلیہ کے سر ہی ہے جو آئین کے تحفظ کی ضامن ہے۔ بیگم بھٹو نے جنرل ضیا کے مارشل لا کو چیلنج کیا تو جسٹس انوار الحق کی عدالت نے ریاست کی ضرورت اور عوامی بہبود کی بنیاد پر اسے جائز قرار دیا اور یوں نظریہ ضرورت کے بعد ’نظریہ ریاست‘ نے آمریت کو دوام دیا۔

عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کا گٹھ جوڑ 50 سالہ آئین کے گھٹنوں میں عین جوانی کے وقت بیٹھ گیا اور اب جب آئین از خود دستک دینے پہنچا تو رینگتا ہوا گھٹنوں کے بل کھڑا ہے۔

آئین پاکستان

وقت کی عدالت میں بے شک اس وقت ایک انتہائی اہم مقدمہ موجود ہے اور قصہ یوں ہے کہ تحلیل شدہ صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات 90 دنوں میں کروانے کا سوال جس طرح از خود ہوا، اُس پر خود عدلیہ ہی معترض ہے۔ اس وقت نہ تو کسی آمریت کو دوام دینا ضروری ہے اور نہ ہی پارلیمان کو کوئی خطرہ لاحق ہے جبکہ تحریک انصاف کی جانب سے تحلیل شُدہ اسمبلیوں کے 90 دن کے اندر انتخابات کا مطالبہ ضرور موجود ہے۔

اس بار اسمبلیاں نہ تو جنرل ضیا نے برخاست کی ہیں اور نہ ہی جنرل مشرف نے البتہ اس بار اسمبلیاں وقت سے قبل انتخابات کے انعقاد کے لیے عمران خان کی خواہش پر تحلیل ہوئی ہیں۔

سوال یہ ہے کہ قبل از وقت انتخابات کی خواہش کیوں ہے اس کا بھید کوئی عمران خان صاحب سے ہی پوچھے۔

دلچسپ بات تو یہ ہے کہ عدالت میں اسمبلیوں کی تحلیل کے جواز کا سوال جسٹس اطہر من اللہ نے اٹھایا اور عین اُسی وقت فواد چوہدری کا بیان آیا کہ اسمبلیاں بحال ہوئیں تو دوبارہ تحلیل کر دی جائیں گی۔ اب ایسی صورت میں کیا کہا جائے یہ کوئی معزز ججوں سے پوچھ لے۔

یہ سوال خود اعلیٰ عدلیہ کے جج صاحبان پوچھ رہے ہیں کہ ایک سرکاری افسر کی تبدیلی کے مقدمے سے انتخابات کے انعقاد کا از خود نوٹس کیسے جنم لے سکتا ہے؟

چار معزز ججوں کے اختلافی نوٹس نے خود معاملے پر سوالات اُٹھا دیے ہیں مگر کیا وجہ ہے کہ معزز عدالت فُل بنچ کی تشکیل سے دور رہی؟

اب جب آئین بحران سے گُزر رہا ہے تو کوئی یہ دستک بھی دے کہ آئین کے آرٹیکل 63 اے کی متنازع تشریح اور آئین کی دوبارہ تحریر کا اختیار عدلیہ کو کس نے دیا؟ نیز یہ کہ از خود نوٹس ملک کو بحران سے نکالنے کے لیے ہے یا بحران بڑھانے کے لیے؟

90 دن میں انتخابات کا انعقاد آئین کا حصہ ہے اور اس پر عمل ہونا چاہیے تاہم اسمبلی کی تحلیل کے جواز کا درست جواب ڈھونڈنا بھی اہم ہے۔

50 سالہ آئین بوڑھا ہو رہا ہے، جس نظام نے اُسے جوان رکھنا تھا وہ نظام یرغمال ہو رہا ہے۔ خدارا آئین پر رحم کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments