معیشت کی ڈوبتی کشتی اور سیاسی طوفان


جب کسی بھی ملک میں عدم استحکام ہو تو اس ملک کا پنپنا، ترقی کرنا، معیشت اور سماجی حالات سب کچھ متاثر ہوتا ہے جبکہ عدم استحکام کسی بھی ملک اور کسی بھی معاشرے کے لئے ایک ناسور اور زہر قاتل ہے۔

عدم استحکام کے محرکات اور وجوہات کو دیکھنا زیادہ ضروری ہے لیکن اگر مسائل کا احاطہ کیا جائے تو ہمارے جو سیاسی رہنما اور اکابرین ہیں، شاید انہیں حالات کا ادراک نہیں اور ان کے اپنے ملک سے زیادہ ان ممالک سے دلچسپی وابستہ ہے جہاں ان کا مال و اسباب موجود ہے جس کی وجہ سے وہ اب تک ملک کو سنبھالنے کے لئے سنجیدہ کاوشیں کرتے نظر نہیں آتے۔

پاکستان کے سیاسی رہنماؤں کے رویوں سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ ان کو پاکستان کی معیشت کی ڈوبتی کشتی سے کوئی سروکار نہیں، ایسا لگتا ہے کہ ہمارے اکابرین کو معیشت کی مخدوش حالت یا غریب عوام کے مسائل سے کوئی تعلق واسطہ نہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ پاکستان اندرونی اور بیرون قرضوں کو ملا کر تقریباً 220 ارب ڈالر کا مقروض ہے اور ہمیں اگلے مالی سال کے آغاز سے پہلے اس جاری مالی سال کے لئے کم سے کم 8 ارب ڈالرز کی فوری ضرورت ہے۔

ایسے حالات میں صرف نشستاً، گفتاً، برخاستاً ہی نہیں بلکہ عملی طور پر بھی اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے اور ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ اپنی بساط کے مطابق حکومت کو تجاویز و معاونت بھی پیش کریں جس سے ہمارے ملک کو مسائل سے نکلنے میں مدد مل سکے۔

معیشت کی ڈوبتی کشتی کو بھنور سے نکالنے کے لئے فوری کوشش کرنی چاہیے کیونکہ اگر یہ کشتی ڈوب گئی تو 22 کروڑ عوام بھی ساتھ ہی ڈوب سکتے ہیں جس سے بچانے کے لئے میثاق معیشت وقت کی اہم ضرورت ہے۔

ہمیں دباؤ پیدا کرنے والے معاملات کو مل بیٹھ کر حل کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ اس وقت پاکستان میں جو عدم استحکام کی صورتحال درپیش ہے اس کی وجہ سے دیگر ممالک ہمارے ملک میں سرمایہ کاری کرنے سے گریزاں ہیں۔ کوئی غیر ملکی سرمایہ کار پاکستان میں پیسہ لگانے کو تیار نہیں ہے۔

ہمارے اقتصادی ریٹنگ بتدریج نیچے گرتی جا رہی ہے۔ حالات ایسے ہوچکے ہیں کہ غریب کے لئے 3 وقت تو دور 2 وقت کی روٹی کا حصول بھی ناممکن ہوتا دکھائی دے رہا ہے، پہلے جو اشیاء 663 روپے میں دستیاب تھیں وہ اب ایک ہزار روپے میں بھی ملنا ناممکن ہو چکا ہے۔ ان حالات میں لوگ سڑکوں پر نکلیں گے، بھوک مٹانے اور روزگار بچانے کے لئے اپنے جسم و جان کی بازی لگانے سے بھی گریز نہیں کریں گے۔

بقول شاعر۔
بڑھ جائیں گے کچھ اور لہو بیچنے والے
ہو جائے اگر شہر میں مہنگائی ذرا اور

حالات اس نہج پر پہنچتے جا رہے ہیں کہ اب لوگوں کا سڑکوں پر نکل کر حکمرانوں کے گریبانوں تک جانا دور نہیں اور اگر اب تک حالات کی سنگینی کا ادراک نہیں کیا جاتا تو پھر لوگوں کے پاس خودکشیوں اور لہو بیچنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہے گا۔

پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان ابھی تک قرض کے معاملات طے نہیں پائے، مارچ میں آئی ایم ایف ایگزیکٹو بورڈ کے اجلاس میں پاکستان کو قرض دینے کا فیصلہ کیا جائے گا اور تشویش کی بات تو یہ ہے کہ اس حوالے سے ابھی اسٹاف کی سطح کا معاہدہ بھی نہیں ہوسکا۔

ماضی میں امریکا کی جنگ کا حصہ ہونے کی وجہ سے آئی ایم ایف اور دیگر ادارے پاکستان کے لئے کسی حد تک نرم رویہ اختیار کرلیتے تھے لیکن اب ایسا نہیں ہے۔ امریکا کے فوجی مینوئل میں یہ موجود ہے کہ امریکا اپنے بیرونی اہداف کے حصول کے لئے آئی ایم ایف اور دیگر عالمی مالیاتی اداروں کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرے گا اور آئی ایم ایف اور دیگر اداروں میں امریکا کے نامزد ڈائریکٹرز کی موجودگی کی وجہ سے ان اداروں میں امریکی اثر و رسوخ کسی سے چھپا ہوا نہیں۔

جب آپ کی معیشت خراب ہوتی ہے تب آپ آئی ایم ایف کے پاس جاتے ہیں اور آئی ایم ایف پیسے دینے سے پہلے واپسی کی راہ ہموار کرتا ہے اور اس کا اثر مہنگائی کی صورت میں عوام پر پڑتا ہے۔

معیشت کی ڈوبتی کشتی کو بھنور سے نکالنے کے لئے سب سے پہلے سیاستدانوں کو عقل کے ناخن لینا ہوں گے اور حکومت کو فوری طور پر ڈالرز کے حصول کے لئے جنگی بنیادوں پر اقدامات اٹھانے ہوں گے ، مثال کے طور پر :

1۔ بجلی کے اوقات 12 سے ایک بجے کے بجائے 8 بجے تک محدود کر دیں تو تقریباً 4 ارب ڈالر بچ سکتے ہیں۔

2۔ اپنی صحت کو خراب کرنے کے لئے ہم 4 ارب ڈالر کا پام آئل بیرون ممالک سے منگواتے ہیں جس میں کمی کر کے کم سے کم 2 ارب ڈالر بچانا ممکن ہے۔

3۔ حج اور عمرہ پر 2 ارب ڈالر خرچ کرتے ہیں لیکن اس کو بیرون اسپانسر شپ پر منتقل کیا جاسکتا ہے۔

4۔ ترسیلات زر میں اضافے کے لئے حکومت کو کچھ تجاویز بھجوائی تھیں اگر ان پر عمل کیا جائے تو ترسیلات زر میں فوری اضافہ ہو سکتا ہے۔

5۔ ایکسپورٹ کے کلیدی ادارے ٹڈاپ کو فعال کر کے مختلف ممالک میں اپنے سفارتخانوں میں اشیاء کی نمائش کا انعقاد کر کے خطیر زرمبادلہ حاصل کر سکتے ہیں۔

ڈاکٹر جمیل احمد خان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر جمیل احمد خان

سابق سفیر، سینئر تجزیہ کار، ماہر بین الاقوامی امور

dr-jamil-ahmed-khan has 6 posts and counting.See all posts by dr-jamil-ahmed-khan

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments