ذیشان مجھے تم معاف کر دینا


مجھے آج ذیشان کی موت کی خبر ملی۔ یہ بھی آج ہی معلوم ہوا کہ ذیشان کو انتقال کیے تقریباً دس مہینے ہو چکے ہیں۔ موت غم کا استعارہ ہے۔ جب وہ خبر بن کر آپ تک پہنچتی ہے وہ آپ کو غمگین کر دیتی ہے۔ موت کی خبر جن الفاظ میں بیان ہو سن کر ملال ہوتا ہے۔ خبر دیر سے ملے یا سویر، اس کی غم ناکی اور اداسی کا اثر زائل نہیں ہوتا۔ ذیشان میرا دوست تھا۔ وہ دوست جس کو ہم گاؤں میں یار بھی کہتے ہیں۔ میرا یار دنیا چھوڑ کر چلا گیا۔

مجھے اس کی خبر تک نہ ہوئی۔ خبر ملی تو دس مہینے بیت جانے کے بعد ۔ میں اس کے گھر والوں اور بال بچوں کے ساتھ غم نہیں منا سکا۔ میں کس کا ماتم کروں، ذیشان کی موت کا یا اس کی موت پر اس کے بال بچوں کے غم میں شریک نہیں ہونے کا۔ دس مہینے بعد ذیشان کی موت کی خبر اس کی شریک حیات سے ملی۔ اس خبر نے مجھے کتنا دکھی کیا اس کو بتانے کے لیے میرے پاس الفاظ نہیں ہیں۔ یہ انسان کے اوپر کتنا بڑا ظلم ہے کہ وہ اپنا دکھ بتانا بھی چاہے تو بتا نہیں سکتا۔

انسانی جذبات کے ساتھ الفاظ کیسا گندا مذاق کرتے ہیں۔ یہ زبان کی سرکشی ہی تو ہے کہ وہ عین وقت پر احساسات کے خلاف بغاوت کر دیتی ہے۔ میرے لیے تو سب سے بڑی اذیت یہ تھی کہ پہلے میں یہ یقین کروں کہ ذیشان اب ہمارے درمیان نہیں رہا۔ میں کیسے یہ یقین کرتا کہ اتنا زندہ دل انسان دنیا کو اتنی جلدی الوداع کہہ دے گا؟ میں یہ بات کیسے مان لیتا کہ دوسروں کو حوصلہ دینے والا خود اپنی زندگی سے ہار جائے گا؟ میں کیوں کر یہ تسلیم کرتا کہ دو خوبصورت اور معصوم بچوں کا باپ جینے کی خواہش چھوڑ دے گا؟

میں کیسے یہ اعتبار کرتا کہ بیوی سے پیار کرنے والا ایک شوہر اسے بیوہ کر دے گا؟ میرے لیے یہ خبر ناقابل یقین تھی کہ ایک جفا کش اور محنت کش انسان زندگی کی پریشانیوں سے تھک جائے گا۔ وہ پابند صوم و صلوٰۃ تھا، اس کے ذہن و دماغ میں منفی خیالات کیوں پیدا ہوئے؟ کس چیز نے اسے یہ قدم اٹھانے پر مجبور کیا؟ میرے لیے یہی بہت تکلیف دہ بات تھی کہ میں ذیشان کی موت کا یقین کروں اور اس سے بڑھ کر یہ کہ اس نے خودکشی کی ہے۔

کیا رات کے وقت میں دن اور دن کے وقت میں رات ہوتی ہے۔ ؟ اگر کوئی ایسا کہے تو بھلا کون یقین کرے۔ خبر پر یقین تو کرنا تھا کہ خبر اس کی زندگی کی ساتھی دے رہی تھی۔ یقین کرنے کے ساتھ ہی مجھ پہ کیا کیا قیامت بیت گئی۔ قیامت کا منظر کون بتائے۔ میری بے بسی کا اندازہ اس سے لگائیں کہ میں ذیشان کی اہلیہ کو ٹھیک سے حوصلہ بھی نہ دے سکا۔ وہ خاموش زبان سے کہہ رہی تھی:

اس سے پوچھو عذاب رستوں کا
جس کا ساتھی سفر میں بچھڑا ہے

میرے لیے یہ بات بھی تو روح فرسا ہے کہ میں ذیشان کی موت سے کس قدر بیگانہ اور اجنبی رہا۔ ایک دوست کو فوت ہوئے دس مہینے ہو گئے اور مجھے اس کا کوئی علم نہیں ہوا۔ میری یہ لا عملی میری دوستی کا منہ چڑھا رہی ہے۔ ظاہر ہے میں دوست کہلانے کا حق نہیں رکھتا۔ دوست تو ایسے نہیں ہوتے کہ اسے اپنے دوست کی موت کی خبر تک نہ پہنچے۔ مجھے اگر کسی نے بتایا نہیں تو میں خود کہاں تھا کہ اس کی خبر خیریت دریافت نہیں کی؟ کوئی کسی کو ایک ہفتہ بھلائے رکھتا ہے۔

اگر کوئی ناراضگی ہوئی تو چلو ایک ہفتہ نہیں ایک مہینہ ہی سہی۔ دس مہینے کی مدت تو بہت ہوتی ہے۔ میں نے ان دس مہینوں میں ایسا کوئی تحقیقی کام نہیں کیا کہ سب سے کٹ جاتا۔ میں بھی ان دنوں میں عام انسان کی طرح دن کاٹتا رہا ہوں۔ اس بیچ دوست کی خاموشی نے آواز تو دی ہوگی۔ خموشی کی بھی اپنی ایک زبان ہوتی ہے۔ میں نے وہ آواز کیوں نہیں سنی۔ دوست کی طرف سے کوئی پیغام نہیں آیا تو کیا میرا یہ فرض نہیں تھا کہ میں ہی اسے کوئی پیغام بھیجتا۔

کسی بہانے اس کے حال احوال پوچھتا۔ دوست کو دوست سے بات کرنے کی تو کوئی وجہ بھی نہیں ہوتی ہے۔ وہ تو بس یوں ہی فون گھما دیتا ہے اور گپ شپ کر لیتا ہے۔ میں کتنا سخت جان دوست ٹھہرا کہ ایک دوست کے دس مہینے کی خاموشی نے مجھے کسی طرح بھی پریشان نہیں کیا۔ اس کا مطلب تو یہی ہوا کہ میں بے حس انسان اپنی زندگی میں خوش رہا۔ اپنے کیریئر میں مصروف رہا۔ مجھے اپنے دوست کی پروا نہیں رہی، وہ زندہ ہے یا مر گیا۔ یہ کتنی شرم کی بات ہے کہ ایک دوست دوسرے دوست کی زندگی اور موت سے بے خبر ہو جائے۔

میں ذیشان سے معافی بھی تو نہیں مانگ سکتا۔ میں کیسے اور کس سے کہوں کہ میری دوستی نام کی نہیں تھی۔ اب تو اپنی بے حسی اور بے بسی پر آنسوں گرانے کے سوا میرے پاس کرنے کو کچھ بھی نہیں بچا۔ بے حسی کا انجام یہی ہوتا ہے کہ ایک دن انسان کو رونا ہوتا ہے۔ میں آج صرف رو سکتا ہوں۔ تنہا رونا بھی کتنا تکلیف دہ عمل ہے۔ اپنی سسکیاں آپ خود سنتے ہیں۔ اپنے آنسوں آپ خود پوچھتے ہیں۔ بے حس انسان ایک دن بے بس ہو جاتا ہے۔

میں یہ سوچ سوچ کر بھی تو تڑپ رہا ہوں کہ ذیشان اپنی جان لینے سے قبل کس ذہنی کیفیت سے گزرا ہو گا۔ اس کی پریشانی کیا تھی اس کا ٹھیک ٹھیک اندازہ تو اس کی اہلیہ کو بھی نہیں ہے۔ معاشی مسئلہ تھا ہی نہیں۔ نوکری اچھی چل ہی رہی تھی۔ بیوی خوش مزاج اور تابع و فرمانبردار تھی۔ دو دو حسین و جمیل ننھے منے بیٹے سے گھر میں صبح و شام چہل پہل رہتی تھی۔ وہ خود بھی ہمہ وقت ہشاش بشاش رہتا تھا۔ وہ بلا کا امید پرست تھا۔ میں اس کو 2009 سے جان رہا ہوں۔

ہم جامعہ ملیہ اسلامیہ میں ملے تھے۔ کلاس ساتھی سے دوست بنے تھے۔ وقت کے ساتھ ساتھ ہماری دوستی گہری ہوتی چلی گئی تھی۔ ہم ایک ہی اپارٹمنٹ میں کئی سالوں تک ساتھ رہے۔ کئی مہینے اور کئی سال ایک ساتھ کھاتے پیتے گزرے۔ ہم ادھر ادھر بھٹکے بھی لیکن دوستی سلامت رہی۔ دور بھی رہے تو وقتاً فوقتاً ملتے رہے۔ ایک دوسرے کے کام آتے رہے۔ میں کم وہ زیادہ میرے کام آتا۔ گھر پر دعوتیں ہوتی تھیں۔ وہ اکثر کہتا تھا ریحان تمہاری بھابھی کھانا اچھا بناتی ہیں، اب ہوٹل میں کون کھائے۔

گھر پر ہی طرح طرح کے پکوان پکتے اور ہم سب چکھنے کے لیے بلائے جاتے۔ شہر بدلا تو فون پر باتیں بڑھ گئیں۔ واٹس ایپ پر خوش گپیاں ہوتی تھیں۔ اب اس کی بات چل نکلی ہے تو مجھے اس کی ایک بات یاد آ رہی ہے۔ ایک دن اس نے کسی اجنبی نمبر سے شاہ رخ خان کی آواز میں مجھے کال کیا اور بولا: ”ہائے دس از شاہ رخ، شاہ رخ خان۔“ میں نے جواب میں کہا: ہائے شاہ رخ، دس از سلمان، سلمان خان۔ ”پھر ہم دونوں بہت دیر تک ہنستے رہے۔ میں جس ذیشان کو جانتا تھا اور جس ذیشان نے خودکشی کی ہے دونوں میں کوئی مطابقت نہیں ہے۔

میرے دوست ذیشان کے چہرے پر زندگی رقص کرتی تھی۔ اس کے لبوں پر روح افزا الفاظ تیرتے تھے۔ اس کی آنکھوں کی روشنی سے یہ دنیا منور ہوتی تھی۔ اس کے جولی مزاج سے اس جہان میں چہل پہل تھی۔ وہ ذیشان جس کو دیکھ کر زندگی کے فلسفے کو سمجھنا آسان تھا وہ خود زندگی کو بے معنی کیسے کہہ سکتا ہے؟ مجھے اس سوال کا جواب کون دے گا؟ کاش! کاش میں اس وقت ذیشان کے رابطے میں ہوتا جب وہ زندگی اور موت کے فلسفے پر غور و فکر کر رہا تھا۔

وہ کس کرب سے دوچار ہوا ہو گا جب زندگی سے موت کی طرف جاتے ہوئے اس نے آس پاس اپنے کسی دوست کو نہیں پایا۔ میں تو اس کرب کو محسوس کر کے رو پڑا جس نے وہ کرب جھیلا اس پہ کیا گزری ہوگی۔ ذیشان مجھے تم معاف کر دینا۔ میں نے بڑی تاخیر کر دی۔ میں نے تمہارے نمبر پر میسج بھیجا تھا تقریباً دس مہینے بعد ۔ میسج میں سلام تھا، تمہاری خیریت پوچھی گئی تھی اور شکایت تھی کہ پٹنہ کے لوگ بڑے بے وفا ہوتے ہیں۔ ادھر سے جواب آیا کہ تم نہیں ہو اس دنیا میں۔ تمہیں رخصت ہوئے پورے دس مہینے ہوئے گئے ہیں۔ میرے دوست میں تمہیں ایک خوشخبری دینا چاہ رہا تھا۔ وہ تمہارے لیے سرپرائز ہوتا لیکن تم نے مجھے سرپرائز دے دیا۔ خیر مجھے یقین ہے تم جس قدر نیک، شریف، ایماندار اور صاف گو تھے اللہ تمہیں اس کے مطابق جنت میں مقام عطا کرے گا۔

آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزۂ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments