حکومت کا کفایت شعاری پلان اور زمینی حقائق


گزشتہ ہفتے وزیر اعظم شہباز شریف نے کابینہ کے اجلاس کے بعد وفاقی وزراء کے ہمراہ ایک پریس کانفرنس میں کفایت شعاری پلان کا اعلان کیا جس کی منظوری کابینہ کے مذکورہ اجلاس میں دی گئی تھی۔ وزیراعظم نے بتایا کہ اس پلان سے 200 ارب روپے کی بچت ہوگی۔ اس پلان کے تحت تمام وفاقی وزراء، مشیر، وزرائے مملکت اور معاونین خصوصی رضاکارانہ طور پر تنخواہیں اور مراعات نہیں لیں گے اور بجلی، گیس سمیت دیگر یوٹیلٹی بلز خود اپنی جیب سے ادا کریں گے۔

اس پلان میں غیر ضروری غیرملکی دوروں پر پابندی ہوگی۔ وزراء غیر ملکی دوروں کے دوران فائیو اسٹار ہوٹلوں میں قیام نہیں کریں گے۔ آئندہ دو سال کے لیے کوئی انتظامی یونٹ، ڈویژن، ضلع یا تحصیل قائم نہیں کی جائے گی۔ سرکاری افسران کے پاس موجود سیکورٹی گاڑیاں واپس لی جا رہی ہیں جب کہ بوقت ضرورت سیکورٹی کے لیے ایک گاڑی دی جائے گی۔ سرکاری تقریبات میں ون ڈش ہوگی۔ تمام وزارتوں، ذیلی ماتحت دفاتر کے اخراجات میں 15 فیصد کٹوتی کی جائے گی۔

جب کہ کابینہ کا سائز کم کرنے کا فیصلہ مؤخر کر دیا گیا ہے۔ سرکاری ملازمین اور حکومتی اہلکاروں کو ایک سے زائد پلاٹ الاٹ نہیں کیا جائے گا۔ وفاق اور صوبوں میں انگریز دور کے کئی ایکٹروں کے گھروں کی فروخت کے لیے وزیر قانون کی سربراہی میں کمیٹی قائم کردی گئی ہے۔ جب کہ موجودہ صورتحال میں پاک فوج نے بھی غیر جنگی اخراجات میں کمی کے حوالے سے مثبت رد عمل کا ظاہر کیا ہے۔

جس معصومیت سے کفایت شعاری پلان بنایا گیا ہے اور عوام کو جس طرح یہ بار آور کرانے کی کوشش کی گئی ہے کہ حکمران عوام سے الگ نہیں ہیں، اس پر ہنسا ہی جاسکتا ہے۔ کیا ہمارے اہل سیاست واقعی تنخواہوں اور سہولیات کے لیے یہ سارا کاروبار سیاست چلاتے ہیں؟ کروڑوں روپے انتخابی مہم پر خرچ کر کے، ہر آنے والے انتخاب میں سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنا، کیا یہ تنخواہوں اور مراعات کے لیے ہے؟ اصل میں تو یہ سارا کھیل اختیارات اور وسائل پر اپنا تسلط برقرار رکھنے کے لیے ہے۔

وزارتوں کے ترقیاتی فنڈ اپنے من پسند ٹھیکیداروں اور فرموں کو دینے کے لیے کیا کیا منصوبے پیش کیے جاتے ہیں۔ آنے والے ترقیاتی منصوبوں کے قریب زمین کوڑیوں کے مول لے کر کروڑوں میں بیچنے کے پروگرام بنائے جاتے ہیں۔ جس ذہن کے ساتھ سیاستدانوں کی اکثریت سیاست اور اقتدار میں آتی ہے ان سے اگر آپ دس کروڑ ماہانہ بھی سرکاری خزانے میں جمع کروانے کا کہیں تو یہ تیار ہوں گے۔ یہاں پروفیسر خورشید احمد صاحب کا ایک ویڈیو کلپ یاد آیا جس میں وہ فرماتے ہیں کہ اگر پاکستان کی سیاست کا سائنٹفک تجزیہ کریں تو تقریباً تین سو سے چار سو خاندان ہیں جن کے چار پانچ ہزار افراد ہیں جو قیام پاکستان سے لے کر آج تک سیاست اور اقتدار پر مسلط رہے ہیں۔

جاگیر دار، زمیندار، سرمایہ دار بیوروکریٹ سب کا تعلق انھی چار پانچ سو خاندانوں سے ہے۔ انھی کا ایک شخص فوج میں ہو گا۔ ایک ایڈمنسٹریشن میں ہو گا۔ ایک ڈی سی بنے گا، ایک ڈی ایس پی بنے گا۔ یہ قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں میں بھی ہوں گے، انھی خاندانوں کے افراد وفاقی اور صوبائی کابینہ کا بھی حصہ ہوں گے۔ لیکن اپنے علاج پر ایک روپیہ خرچ کرتے ہوئے ان کی جان جاتی ہے اور یہ ساری مراعات اور سہولیات عوام کے ٹیکس کے پیسے سے پوری کرتے ہیں۔

ایک طرف کابینہ کفایت شعاری پلان کے تحت سرکاری ملازمین کی مراعات میں کمی کا اعلان کرتی ہے دوسری طرف چند روز قبل وزیراعظم اس نازک معاشی صورتحال کے باوجود گریڈ 17 سے گریڈ 22 تک کے افسران کے لیے 150 فیصد ایگزیکٹو الاؤنس کا اعلان کیا ہے۔ یہ ہمارے سرکاری افسران ہی ہیں جن کی ایک بڑی تعداد دوہری شہریت رکھتی ہے۔ یہ سرکاری افسران ہی ہیں جن کی اولادوں کی شادیوں میں اربوں روپے کی سلامی اکٹھی ہوتی ہے۔ یہ ہمارے سرکاری افسران ہی جو اپنی قابلیت کی بنیاد پر کسی ادارے کو منافع بخش بنا سکیں ہیں نہ ہی عوام کے لیے سہولیات پیدا کرسکیں ہیں۔

بے بسی کا یہ عالم ہے کہ ملک کا وزیر دفاع کہہ رہا ہے کہ اگر صرف دو گالف کلب ہی فروخت کر دیے جائیں تو ملک کا ایک چوتھائی قرض ادا ہو سکتا ہے۔ لیکن وزیر دفاع اپنے خیالات کو عملی شکل دینے سے معذور ہے۔ سینیٹر مشتاق احمد خان نے ایک تقریب میں اپنے خطاب میں یو این ڈی پی کی ایک رپورٹ کا حوالہ دیا کہ جس میں بتایا گیا تھا کہ پاکستان کی اشرافیہ سالانہ 17.4 ارب ڈالر سالانہ کی مراعات حاصل کرتی ہے۔ پاکستان میں اربوں روپے کی آمدن والی سرکاری زمین، کلبوں، جیم خانوں اور گالف کے میدانوں کو کوڑیوں کے نرخوں پر کرائے یا لیز پر دی ہوئی ہیں۔

مہنگائی کا ایک بڑا سبب صنعت کاروں اور تاجروں کا کارٹل بنا کر اور مصنوعی طور پر ڈیمانڈ اور سپلائی کی بحران پیدا کر کے اپنے منافع کو بڑھاتا ہے۔ مگر کسی حکومت میں یہ جرات نہیں ہے کہ گھی، چینی، ادویات، سیمنٹ اور اسٹیل کی ملوں اور کارخانوں کو کارٹل بنانے سے روک سکے اور قیمتوں کو حقیقی معیار پر لا سکے۔ ہر ماہ تقریباً دو ارب ڈالر افغانستان اسمگل ہو رہے ہیں مگر ہم آنکھیں بند کیے ہوئے ہیں۔

کفایت شعاری پلان یقیناً ایک اچھی کوشش ہے اور اس کے ثمرات بھی ہوسکتے ہیں لیکن ہماری سیاست اور اقتدار اور اختیارات پر جو طبقات قابض ہیں جب تک ان کا تسلط نہیں ٹوٹے گا، یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ عوام الناس کی حالت میں کسی مثبت تبدیلی کا گمان بھی نہیں رکھا جا سکے۔ اس حوالے سے میں معروف مفکر اور سماجی سائنسداں محمود مرزا صاحب مرحوم کے چند الفاظ نقل کروں گا جو انہوں نے اپنی مشہور کتاب Social Change کی تقریب رونمائی میں اپنی تقریر میں کہے تھے کہ ”یہ کتاب میں نے کیوں لکھی یہ مجھے نہیں پتہ۔ یہ ایک لگن کی بات تھی۔ یہ میری فکر تھی جو اس کتاب کی شکل میں ظاہر ہو گئی۔ اس کتاب کا مختصر تعارف یہ ہے کہ پاکستان ایک قبائلی، نیم فیوڈل اور نیم صنعتی معاشرہ ہے۔ یہاں اشرافیہ، کالے دھن اور فیوڈل سوچ کا تسلط ہے۔ اگرچہ حکمران ٹولہ اپنی غلط کاریوں کی وجہ سے بدنام ہوا ہے مگراس کی پشت پر ریاست کی طاقت ہے۔ کمزور ریاست بالا دست طبقے کو لوٹ کھسوٹ کی سہولت فراہم کرتی ہے۔ حکمران طبقے کو کرپشن بھرے سماج کی طاقت بھی حاصل ہے۔”

آزاد الیکشن کمیشن کے پاس اختیار نہیں کہ وہ سماجی اور سیاسی قوت کے ان مراکز سے قوم کو نجات دلوائے۔ ہمیں اپنے مسائل کا حل انھی مخصوص حالات کے تناظر میں ڈھونڈنا ہے۔ اسٹیٹس کو میں شفاف جماعت کی کامیابی غیر معمولی بات ہوگی۔ شفاف حکمران گڈ گورننس کر سکتے ہیں۔ یہ ابھی بات ہوگی۔ اس سے ملک ایک بار بحران سے نکل سکتا ہے۔ مگر بحران کسی نہ کسی شکل میں پھر سر اٹھائے گا۔ بحران موجودہ سماج اور معیشت کی ساخت میں ہے۔ سماج کی ساخت بدلنے کی ضرورت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments