فیض میلہ: جاوید اختر کی نفرت میں بھیگی پانچ ہزار روپے کی کتاب


افسوس اس بات کا نہیں کہ سنگیت کار جاوید اختر سرحد پار سے اپنے دل کی پوٹلی میں نفرت بھرے لفظوں کے بم چھپا کر فیض میلہ میں لائے اور پاکستانیوں کے بیچ بیٹھ کر بڑے مزے سے ان پر بم پھوڑ کر چلے گئے (یہ تو ہندو سرکار کو خوش کرنے کا ہر موقع پرست اینٹی پاکستان ہندوستانی کا وتیرہ رہا ہے ) بلکہ زیادہ تکلیف دہ بات تو یہ ہے کہ وہ پاکستانیوں کی عقیدت کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے ان پر نفرت کے بارود سے بھرے لفظوں کے بم پھوڑتے ہوئے پوری پاکستانی قوم پر کیچڑ اچھالتے رہے۔ کیا وہ فیض میلہ کی آڑ میں ہندوستانی سرکار کا یہ پیغام لے کر ہمیں بتانے آئے تھے کہ ممبئی حملوں کے ذمہ دار پاکستان میں گھوم رہے ہیں؟ کیا کوئی اس فلمی ہستی جاوید اختر سے یہ سوال کرے گا کہ یہ فیض میلہ ایسی متنازع گفتگو کے لیے سجایا گیا تھا کہ وہ خوشبو بھرے ماحول میں نفرت کا تعفن چھوڑ کر چلے جائیں؟ یعنی کیا کبھی جاوید اختر نے ایسا کیا کہ اپنے صاف ستھرے محل کے چمکتے دمکتے فرش پر گندگی پھینک دی ہو؟ آفرین ہے عقیدت کی سرحدوں کو توڑ کر شخصیت پرستی کے کیچڑ میں اتر جانے والے ہمارے ان پاکستانیوں کی جو جاوید اختر کی طرف سے کی جانے والی نفرت کی بمباری میں خوب سیٹیاں بجاتے رہے اور ان کی شان میں ایسے تالیاں پیٹتے رہے جیسے وہ پاکستانیوں کی شان میں کوئی شاہکار نظم لکھ کر لائے ہوں اور سٹیج پر بیٹھ کر وہی سنا رہے ہوں۔ یہاں سٹیج پر بیٹھے عدیل ہاشمی کی بھی ذمہ داری بنتی تھی کہ وہ ایسے موقع پر سلجھے ہوئے انداز میں جاوید اختر کو ٹوک کر انہیں اپنی غلطی کا احساس دلا سکتے تھے مگر شخصیت پرستی کے بوجھ تلے دبے لوگ اپنے مقابل سے برابری کی سطح پہ گفتگو نہیں کر سکتے۔ صد افسوس ہے عدیل ہاشمی سمیت پاکستانیوں کے اس غیر منطقی عقیدت بھرے اندھے رویے پر جو سرحد پار کے فلمی لوگوں کی شخصی محبت میں اتنی حد تک گر جاتے ہیں کہ انہیں ادراک بھی نہیں ہو پاتا کہ اس پار سے آئے ہوئے اینٹی پاکستان ہندوستانی لفظوں میں نفرت لپیٹ کر ان کے منہ پر مار رہے ہیں۔ مزے کی بات تو یہ ہے کہ جاوید اختر نے اپنے ملک ہندوستان واپس جا کر اسی پاکستانی رویے کی سیڑھی پر کھڑے ہو کر بڑے فخر کے ساتھ اپنے دفاع میں بیان داغا کہ پاکستانیوں نے ان کی باتوں پر خوب سیٹیاں ماریں اور تالیوں بجا کر ان کے موقف کی تائید کی جبکہ شدید پاکستان اینٹی اداکارہ کنگنا رناوت نے بھی جاوید اختر کے بیان کی آڑ میں سلگائی ہوئی نفرت زدہ آگ میں پٹرول چھڑکتے ہوئے کہا کہ ہم اسی طرح دشمن کے گھر میں گھس کے مارتے ہیں۔ اب کیا کہیں اپنے لوگوں کو کہ اے پیارے پیارے شخصیت پرست پاکستانیو! یہ تم نے ٹھیک نہیں کیا کہ تمہاری اندھی عقیدت کی بدولت دوست کے بہروپ میں سرحد پار سے آنا والا دشمن ہم پر نفرت کی بمباری کرنے کے بعد اب ہمارے زخموں پر نمک پاشی کر کے خوب مزے لے رہا ہے۔

مسئلہ کیا تھا؟ فیض میلے کی کھلکھلاہٹوں کے دوران سوال کے غلاف میں محبت ہی لپیٹ کر تو انہیں پیش کی گئی تھی جو احمد بشیر جیسے مہان صحافی و ناول نگار کی بہادر بیٹی افسانہ نگار نیلم احمد بشیر نے پیش کی اور جاوید اختر سے سوال کیا کہ کیا آپ اپنے ملک واپس جا کر ہندوستانیوں کو بتاتے ہیں کہ پاکستانی آپ لوگوں کو کس طرح سر آنکھوں پر بٹھاتے ہیں اور کتنی محبت لٹاتے ہیں۔ آپ انہیں ضرور بتائیں کہ ہم سڑکوں پر بم پھوڑنے والے لوگ نہیں ہیں۔ اب سوچئے کہ سوال کرنے والی بڑے باپ کی بڑی بیٹی نیلم احمد بشیر اور فیض میلے کے سٹیج پر براجمان ایک بڑے ہندوستانی گیت کار جاوید اختر یعنی دونوں اپنے اپنے ملکوں کے نامور اور ذمہ دار ہستیاں، اس لیے جواب میں بھی ویسے ہی ذمہ دارانہ رویے کی امید تھی مگر کیا کہنے فلمی کہانیوں میں محبت کے جھوٹے گیت لکھنے والے سنگیت کار جاوید اختر کے کہ اس محبت بھرے سوال کا ایسا کڑوا کسیلا جواب دیا کہ سارا پاکستان تکلیف سے بلبلا اٹھا اور مہان سنگیت کار پر تھو تھو کرنے لگا۔ چلو ایک لحاظ سے اچھا ہی ہوا کہ نیلم احمد بشیر کا سوال محض سوال نہیں تھا بلکہ ایک تیر تھا جو ایسا نشانے پر لگا کہ جاوید اختر کے دل کی چمکتی پوٹلی پھٹ گئی اور اندر سے پاکستان کے لیے دبا زہریلا مواد بہہ نکلا، اگر یہ نیلا تیر نہ چلتا تو کیسے پتہ چلتا کہ جاوید اختر کے دل کی چمکدار پوٹلی میں پاکستان کے لیے کیسا زہریلا سیاہ مواد چھپا ہوا ہے۔ شکریہ نیلم احمد بشیر اس چمکدار ریشمی پوٹلی کو پھوڑنے کے لیے۔

میں دیکھتا ہوں کہ ایک طرف قلم تھامے جاوید اختر کھڑے ہیں اور دوسری طرف بلا تھامے ہندوستانی کرکٹر نوجوت سنگھ سدھو جن پر مجھے رشک آتا ہے جو چند سال قبل سارے ہندوستان کی مخالفت مول کر پاکستان آئے اور اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان کی تقریب حلف برداری میں بھرپور انداز میں شرکت کی جس کی پاداش میں ہندوستان بھر کا میڈیا ان پر ایسا چڑھ دوڑا کہ ان کا جینا حرام کر دیا۔ سخت ترین سوال کر کے ان پر ایسے تابڑ توڑ حملے کیے گئے کہ کوئی اور ہوتا تو لرز جاتا یا چھپ جاتا مگر مجال ہے جو محبت کے خمیر سے گندھے نوجوت سنگھ سدھو کا لہجہ ذرا بھی کانپا ہو یا انہوں نے کوئی غیر ذمہ دارانہ رویہ اپنا کر پاکستان کے خلاف کوئی بات کر کے اپنی جان چھڑائی ہو، شروع سے آخر تک وہ محبت کی زبان ہی بولتے رہے۔ وہ تو پھر بھی ایک سیاسی تقریب میں تشریف لائے تھے مگر جاوید اختر تو ایک ادبی تقریب کا حصہ تھے جہاں ایسے نفرت بھرے بیانیے کی کوئی گنجائش نہیں بنتی تھی۔ اگر مجھ سے کوئی پوچھے کہ قلم بڑا یا بلا؟ تو میں بلاجھجک کہوں گا بلا بلکہ میرے خیال سے فلمی صنعت کی چکاچوند میں زندگی گزارنے والے سنگیت کار جاوید اختر کو نوجوت سنگھ سدھو سے بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے کہ زندگی کی اننگ کھیلتے ہوئے وکٹ پر رک کر مخالفین کا مقابلہ کرتے ہوئے کس طرح جم کر کھیلا جاتا ہے۔

اب فیض میلے کے سٹیج پر بیٹھ کر پاکستان کے وجود پر نفرت کی بمباری کرتے ہوئے جاوید اختر نے جو کہا سو کہا مگر سچ کہوں تو میرے نزدیک سب سے زیادہ افسوسناک لمحہ تو فیض میلے میں اس وقت اترا جب جاوید اختر کی کتاب پانچ ہزار روپے میں ہاتھوں ہاتھ لی گئی اور آفرین ہے ان محب وطن پاکستانیوں کی جنہوں نے ایک لمحہ ضائع کیے بغیر فوراً ایک لمبی قطار باندھی اور پاکستان کی بدنامی کو ایک ڈکار سمجھ کر ہضم کرتے ہوئے اتنی مہنگی کتاب خریدنے پر جھٹ تیار ہو گئے بلکہ بہت سے تو لال گلال چہروں پر خوشی سجائے جاوید اختر سے آٹوگراف لینے کے لیے مرے جا رہے تھے، یہاں تک کہ چمکتے شوبز کی اندھیری دنیا کے لوگ بھی اس قطار میں ٹھنسے دکھائی دیے۔ عجیب ہی منطقہ ہے کہ ہندوستان کی یونیورسٹیوں کے نوجوان طالب علم فیض کی نظم ”ہم دیکھیں گے“ پڑھتے ہیں تو ہندوستان میں ان کا میڈیا ٹرائل شروع ہو جاتا ہے جبکہ پاکستان کے فیض میلے میں ہندوستان ہی سے آیا ہوا فلمی شخص پاکستان کے خلاف آگ اگلتا ہے اور علی ظفر جیسے شخصیت پرست گلوکار اپنے گھر میں ایلیٹ کلاس کو بلا کر اس کے اعزاز میں تقریب منعقد کر کے عزتوں سے نوازتے ہیں۔ یار قوموں کا کوئی معیار ہوتا ہے، کچھ اصول ہوتے ہیں جنہیں توڑنے کی کڑی سزا ملنی چاہیے نہ کہ اپنی بے عزتی کو خراب انڈا سمجھ کر پھینک دیا جائے بلکہ یہی انڈا پاکستان کے وجود کو گالی دینے والوں کے منہ پر مار دینا چاہیے۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جاوید اختر کو ان کے نہایت غیر ذمہ دارانہ رویے کا احساس دلایا جاتا اور ان کی کتاب کا مکمل بائیکاٹ کیا جاتا کہ ہم نہیں خریدیں گے ایک ایسے فلمی شاعر کی کتاب جو محبت کے گیتوں کی آڑ میں نفرت کا کاروبار کرتا ہے مگر افسوس کا مقام ہے کہ کوئی بھی ایسا نہیں تھا جو جاوید اختر کے غیر ذمہ دارانہ رویے کی شدید مذمت کرتے ہوئے ان کی کتاب خریدنے سے انکار کر دیتا کہ ہم پاکستانی بدھو نہیں ہیں بلکہ محبت لٹانے میں جتنے دریا دل ہیں اپنے وطن کی محبت میں اتنے ہی وطن پرست بھی ہیں اور خوب سمجھتے ہیں کہ کب کس کے لیے آنکھیں بچھانی ہیں اور کب کس کو انکھ دکھانی ہے مگر افسوس کہ ایسا کچھ بھی نہ ہو سکا۔

یقیناً منیزہ ہاشمی اس کاروباری میلے کی کامیابی پر بہت خوش ہوں گی کہ فیض احمد فیض کے فکر و فلسفہ کا سودا کرتے ہوئے نہ صرف اینٹی پاکستان لوگوں کو سرحد پار سے میلے میں بلا کر عزت سے نوازا بلکہ ان کی کتاب انتہائی مہنگے داموں بیچ کر اپنی جیبیں خوب بھریں۔ کیا ہوا جو جاوید اختر سٹیج پر بڑے طمطراق سے بیٹھ کر پاکستان کی عزت لیر لیر کر کے خوشی خوشی واپس لوٹ گئے، فیض کمرشل میلہ تو کامیاب رہا نا اور منیزہ ہاشمی اینڈ ٹیم نے خوب کمائی بھی کر لی۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments