مغربی یورپ کا ابتدائی دور وسطی: 500ء سے 1000ء تک


476 ع میں سقوط روم ( مغربی رومن سلطنت کے باقاعدہ خاتمے ) کے بعد سے اگلے 1000 سال ( 1500 ع ) تک کے عرصے کو مورخین قرون وسطی کے نام سے پکارتے ہیں۔ جس کو مزید تین ضمنی ادوار ( ابتدائی، درمیانی اور آخری ) میں تقسیم کیا ہے

500 ع سے 1000 ع تک عرصہ یورپ کا ابتدائی دور وسطی کہلاتا ہے۔ اس کو بعض اوقات یورپ کا دور تاریک بھی کہا جاتا ہے کیونکہ اس دور میں علوم و فنون اور تہذیب روبہ زوال تھی۔ اور اس کے بجائے جرمن قبائل کے حکمرانوں اور جنگجووں کا غلبہ تھا جن کے مختلف قبائل 5 ویں صدی کے اخیر تک رومن سلطنت کے مغربی حصے بخرے کر کے مسلط ہو گئے تھے۔

( دریائے رائین ”کے مشرق اور“ دریا ڈینیوب ”کے شمال میں آباد ان جرمن قبائل کے دو بڑے گروپ“ مغربی ٹیوٹن ”اور“ مشرقی گوتھ ”تھے۔“ ٹیوٹن ”تین قبائل فرانکس، الامانی اور سیکسن جبکہ گوتھ بھی تین قبائل آسٹر گوتھ، ویسی گوتھ اور ونڈال پر مشتمل تھے ) ۔

رومن سلطنت کے صوبہ اسپین پر وسی گوتھ، اٹلی پر آسٹر گوتھ، گال ( موجودہ فرانس ) پر فرانکس اور شمالی افریقہ پر ونڈال قابض ہو گئے تھے۔

جبکہ کے بحیرہ شمالی کے پار جزائر برطانیہ کے مشرقی سواحل پر انگلیز، سیکسن اور جیوٹس اور مغربی جانب میں آئرلینڈ اور اسکاٹ لینڈ سے سلٹیک قبائل حملہ آور ہوئے تھے

یوں رومن تہذیب کا ہر اہم مرکز حملوں کی زد میں تھا۔ مسلسل حملوں اور انتشار کے باعث تجارت کی زوال پذیری مغربی یورپ کے اکثر شہروں کی موت تھی۔ سلطنت کی عدم موجودگی سے شہروں کی انتظامی حیثیت غیر موثر ہو گئی اور ان کی زیادہ ترآبادی دیہاتوں کی طرف منتقل ہونے لگی۔ شہروں کی ویرانی سے علوم کو بھی زوال آ گیا۔ رومن سلطنت کے حصوں پر قابض جرمن قبائل ان پڑھ تھے۔ پڑھے لکھے رومن شہر چھوڑ گئے تھے 600 ع تک یورپ میں کسی حد تک پڑھے لکھے صرف پادری رہ گئے تھے۔ رومن سلطنت کے دور عروج میں برطانیہ جیسے دور افتادہ صوبے میں بھی لاطینی زبان رائج تھی۔ مگر جرمن قبائل کے آنے سے لاطینی زبان تبدیلی ہونے لگی۔ نئے الفاظ اور جملے آنے سے مختلف بولیاں ارتقاء پذیر ہونے لگیں۔ 800 ع تک لاطینی سے فرنچ، اسپینی، اطالوی اور کئی دوسری رومانوی زبانیں تشکیل پائیں۔

سلطنت کے انتشار سے لے کر 600 ع تک رومن صوبوں میں جرمن حکمرانیاں قائم ہوئیں۔ جن کی سرحدیں باہمی جنگوں کے باعث تبدیل ہوتی رہیں۔ ان کے یہاں طرز حکومت تبدیل ہو گیا۔ ملک، حکومت یا قانون کی جگہ خاندانی/ قبائلی وابستگی اور ذاتی وفاداری جرمن قبائل کے اتحاد کی بنیاد ٹھہرے۔ جرمن خود کو ریاستی شہری کے بجائے ایک قبیلے کے رکن اور مخصوص لیڈر کے پیروکار کی حیثیت سے سمجھتے تھے۔ جرمن قبیلے کے سردار کے پاس جنگجوؤں کا لشکر ہوتا تھا جو اس کے وفادار رہنے کا عہد کرتے تھے۔ رومن قوانین اور اداروں کے انتشار کے اس دور میں صرف ”رومن کیھتولک چرچ“ ایک ایسا ادارہ تھا جو محفوظ رہا تھا ابتدائی دور وسطی میں چرچ نے مغربی یورپ میں ایک موثر تہذیبی قوت کی حیثیت سے مذہبی کردار کے علاوہ سیاسی اور سماجی لحاظ سے بھی بڑا اہم رول ادا کیا۔

سقوط روم سے قبل کئی عیسائی مبلغین رومن سلطنت کے سرحدوں کے پار قریبی جرمن اور سیلٹک قبائلی گروہوں میں عیسائیت کا پرچار کرتے رہتے تھے۔ آئرلینڈ میں کئی چرچ قائم کیے تھے۔ عیسائیت کے پھیلاؤ میں سیاسی عنصر کا بھی اکثر اہم رول رہا۔ 5 ویں صدی کے آخیر میں ”کلوویس“ نامی فرانک بادشاہ بیشتر شمال گال ( موجودہ فرانس ) کا حکمران تھا۔ اگر چہ وہ پیگان ( مظاہر پرست) تھا تاہم اس کی بیوی عیسائی تھی۔ 494 میں کلوویس نے ایک حریف جرمن لشکر کے ساتھ لڑائی کے دوران عیسائی خدا کے نام پر دعا مانگی۔ فتح پا کر اس نے اپنے 3000 لشکریوں کے ساتھ ایک بشپ کے ہاتھ پر عیسائیت قبول کر لی۔ کلوویس کا کیتھولک عیسائی بن جانے بہت اہم اس لیے تھا کہ کیھتولک چرچ کو مضبوط فرانک بادشاہت کی حمایت حاصل ہو گئی۔

مغربی یورپ میں زیادہ تر آبادی کا شہروں سے دیہاتوں کو منتقل ہونے پر چرچ نے دیہاتی حالات کے مطابق ڈھالنے شروع کیا جس میں ایک اہم اقدام ”مانٹیسری کا قیام تھا۔ جہاں عیسائی افراد کے گروہ اپنی ذاتی مال متاع ترک کر کے سادگی اختیار کر کے اپنی زندگی کو عبادت کے لیے وقف کر دیتے تھے۔ ایسے افراد“ راہب ”کہلاتے تھے۔ راہب کو تین اصولوں“ عسرت ”،“ پاک دامنی ”اور“ اطاعت ”کی پیروی کرنی ہوتی تھی۔ عیسائی خواتین راہباؤں ( نن) کے لیے“ کانونٹ ”قائم کیے گئے تھے

540 ع میں ”بینڈیکٹ“ نامی راہب نے راہبانہ طرز زندگی کے لیے چند اہم اساسی اصول اور ضوابط تشکیل دیے۔ جن میں ایک راہبوں کو روزانہ سات گھنٹے کسی زمین یا ورکشاپ میں محنت کرنا بھی تھا۔ ابتدائی قرون وسطی میں مانٹیسری کمیونٹی کا اپنی تنظیم اور ضوابط کے باعث مختلف حوالوں سے بڑا موثر اور کارآمد کردار رہا۔ مغربی یورپ میں پھیلے ہوئے مانٹیسری اور کانونٹس کیتھولک چرچ کا اثر تیزی سے بڑھنے لگا۔

590 میں جب ”گریگری اول“ پوپ بنا تو اس نے ”پاپائیت“ کو سیاسی اور مذہبی لحاظ سے طاقتور ادارہ بنایا۔ علمی کتابیں لکھنے۔ عیسائیت کے پرچار کے لیے مبلغین تیار کرنے اور روم کو عیسائیت کا مستحکم مرکز بنانے اور بعض فلاحی کاموں سے کیتھولک چرچ کی تاریخ میں پوپ ”گریگری اول“ ایک اہم مقام رکھتا ہے۔

شارلیمان اور سلطنت کا احیاء۔

رومن سلطنت کے انتشار کے بعد مغربی یورپ میں لاتعداد چھوٹی بڑی بادشاہتیں قائم ہو گئیں تھیں مگر ان میں صوبہ ”گال“ میں ”کلوویس“ کی قائم کردہ فرانکس بادشاہت سب سے بڑی اور طاقتور بن کر ابھری۔ 511 میں اپنی موت تک ”کلوویس“ بیشتر موجودہ فرانس کا حاکم بن گیا تھا۔ ”کلوویس“ اور اس کے جانشین اپنے لیجینڈری جد کے نام پر ”میروونجئین“ کہلاتے ہیں۔ ان کو لمبے بالوں والے بادشاہ بھی کہا جاتا تھا۔ اگرچہ ان کی حکمرانی 275 سال تک رہی مگر یہ زیادہ تر پرامن دور نہیں رہا۔ میروونجنین بادشاہ کی موت کے بعد اس کے بیٹے بادشاہت کو ذاتی جائیداد کی طرح تقسیم کرنے لگتے۔ جس سے اکثر خانہ جنگی رہتی اور یوں اس کی طاقت گھٹنے لگی۔ 700 کے لگ بھگ ان کی طاقت نہ ہونے کے برابر رہ گئی تھی۔ اس عرصے میں طاقتور عہدیدار بادشاہ کے بجائے ”محل کا مئیر“ تھا۔ شاہی جائیداد کا انچارج یو نے کے ساتھ وہ فوج کا سپہ سالار اور فیصلہ ساز بھی ہوتا تھا۔

714 میں محل کے مئیر کا عہدہ چارلس المعروف ”چارلس مارٹل“ کے پاس تھا اور وہ ہی اصل اقتدار کا مالک تھا۔ اس نے شمال۔ جنوب اور مشرقی اطراف میں فرانکس اقتدار بڑھا دیا۔ 732 ع میں اس نے ”طورس“ کی لڑائی میں اسپین کے عرب مسلمان حملہ آوروں کو شکست دے کر ان کو یورپ میں داخل ہونے سے رک دیا۔ چارلس مارٹل کے بعد یہ عہدہ اس کے بیٹے ”پاپین“ کو ملا جس نے ”پوپ“ کے تعاون سے خود کو بادشاہ قرار دے کر تخت پر قبضہ کر لیا۔ پوپ اور نیا فرانک بادشاہ ایک دوسرے کے ضرورت تھے۔ پاپین اور اس کے جانشینوں کو حکمرانی کی آئینی سند پوپ سے مل سکتی تھی جبکہ پوپ کو روم پر حملہ آور لومبارڈ قبائل سے تحفظ ”پاپین“ جیسا طاقتور بادشاہ دلا سکتا تھا۔ 754 میں پوپ ”سٹیفن دوم“ لومبارڈ قبائل کے خلاف مدد مانگنے کے لیے خود ”پاپین“ کے ہاں گیا۔

مدد کا وعدہ کرنے پر ایک اہم تاریخی واقعہ یہ ہوا کہ پوپ نے ”پاپین“ کے سر کو مقدس تیل سے مالش دے کر اس کو بادشاہ قرار دیا ”پاپین“ نے اٹلی جا کر ہر شہر سے لومبارڈ قبائل کو شکست دے کر نکال دیا۔ 756 میں اس کے تمام شہروں کی چابیاں پوپ کے حوالے کر دیں یوں پوپ اٹلی میں بکھری ”پاپل ریاستوں“ کے نام سے جانے جانے والے علاقوں کے سیاسی حکمران بن گئے۔ فرانک بادشاہ اور رومن پوپ کے درمیان ایک غیر رسمی اتحاد قائم ہو گیا تاہم یہ غیر مستحکم اتحاد تھا کیونکہ بعد میں قرون وسطی کی تاریخ پوپ اور اور بادشاہوں کا ایک دوسرے کو زیر دست لانے کی کشمکش سے بھری ہے۔

شارلیمان۔

768 میں پاپین کی موت کے بعد اس کا 25 سالہ بیٹا چارلس بادشاہ بنا۔ جس کا 46 سالہ دور فرانکس بادشاہت کا شاندار دور رہا۔ لاطینی میں اس کو ”کارلوس میگناس“ بولا جاتا تھا۔ جبکہ فرانسیسی میں اس کا نام ”شارلیمان“ پڑ گیا۔ اس کے جانشین ”کارلونگئین“ شاہی خاندان کہلائے جاتے تھے۔

”شارلیمان“ کا دستور یہ تھا کہ ہر سال موسم بہار میں اپنی راج دھانی کے تمام بڑے لارڈز ( امراء اور بشپ ) کو دارالحکومت اہن (Aachen) (موجودہ جرمنی کا مغربی شہر ) مسلح لشکروں سمیت بلاتا اور پھر موسم گرما میں اپنی سلطنت کے اردگرد موجود دشمنوں کے خلاف لشکر کشی کرتا۔ یوں جنوب اور مشرق میں اس نے نئے علاقے فتح کر لیے ۔ 773 میں شمال اٹلی جا کر پوپ کے لیے خطرہ بنے ہوئے لومبارڈ قبائل کو شکست دی۔ 778 میں شمالی اسپین پر قبضہ کرنے کے ارادے سے مسلم اسپین کی طرف بڑھا مگر کامیاب نہ ہوسکا۔

شارلیمان نے سخت لڑائیاں مشرقی سرحد پر لڑیں۔ بحیرہ ایڈریاٹک کے جنوب ( موجودہ ہنگری ) میں ”ایورس“ نامی ایشائی قوم جو سلاوک باشندوں پر حکمرانی کر رہے تھے، کی طاقت کو سات سال کی خونریز جنگ کے بعد ختم کر دیا۔ اسی طرح ”جرمنی کے سیکسن“ ، جو سب سے زیادہ خطرناک تھے، کے خلاف تقریباً 30 سال تک جنگیں لڑ کر انہیں اپنی حکومت اور عیسائی مذہب کا اطاعت گزار اور پیروکار بنا دیا۔ فتوحات کے ساتھ وہ قبیلوں کو عیسائی بنانے کے لیے اکثر جبر سے بھی کام لیتا تھا۔

800 ع تک فرانکس بادشاہت دو تہائی اٹلی، تمام موجودہ فرانس، اسپین کا کچھ حصہ اور تمام جرمن سیکسنی پر مشتمل تھی۔ تمام بادشاہوں کی طرح ملک کو چلانے کے لیے شارلیمان کا انحصار بھی طاقتور امراء پر تھا۔ اور ان کی طرح وہ امراء کی طاقت کو ایک حد میں بھی رکھنا چاہتے تھے۔ اس نے ملک کو 250 کاونٹیز ( اضلاع ) میں تقسیم کیا تھا۔ اس کے نگران کاونٹ ( طاقتور لینڈ لارڈ ) ہوتے تھے۔ جو بادشاہ کے نمائندے کی حیثیت سے وہاں عدل و انصاف اور دفاع کے ذمہ دار ہوتے۔ شارلیمان اگرچہ خود پڑھا لکھا نہیں تھا تاہم علوم و فنون کی ترویج میں بڑی دلچسپی لی۔ مذہبی تعلیم کے لیے ادارے کھولنے پر خصوصی توجہ دی۔

800 ع میں وہ مغربی یورپ کا سب سے طاقتور بادشاہ تھا۔ اس نے ”پوپ لیو سوم“ کے خلاف اہل روم کے ہنگامے کو فرو کیا۔ اسی سال ”سینٹ پیٹرک چرچ“ میں پوپ نے اس کو تاج پہنا کر شہنشاہ ( قیصر ) قرار دیا۔ یہ کئی حوالوں سے ایک اہم اقدام تھا۔ اس کے دوسرے اثرات کے ساتھ ایک یہ رہا کہ 800 کے بعد یورپ میں مشرقی یورپ کی ارتھوڈاکس عیسائی سلطنت کے ساتھ مغربی یورپ میں رومن کیھتولک سلطنت بھی قائم ہو گئی

کیتھولک چرچ کے سربراہ کے ہاتھوں جرمن حکمران کا رومن شہنشاہ کی حیثیت سے تاج پوشی تین اہم عناصر ( جرمن، عیسائی اور رومن ) کے امتزاج کی نمائندہ بنی۔ جو قرون وسطی کی مغربی تہذیب کی نمایاں خصوصیت ہے۔ عیسائیت اسی تہذیب کا مرکز، روم اس کا مذہبی دارالحکومت، لاطینی اس کی علمی و فکری زبان اور جرمن روایات اس کے سماجی اور قانونی امور کی بنیادیں تھیں

شارلیمان کے جانشین۔ 814 میں شارلیمان کی وفات کے بعد اس کا بیٹا ”لوئس پوئس“ بادشاہ بنا۔ مگر زیادہ مذہبی ہونے کی وجہ سے وہ موثر حکمران نہیں تھا 840 میں فوت ہو گیا جس کے بعد اس کے تین بیٹوں کے مابین تخت نشینی کی لڑائی شروع ہو گئی۔ 843 میں ”وردون سمجھوتے“ کے تحت سلطنت کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا۔ ”چارلس بالڈ“ کو مغربی حصہ (فرانس) ”لوئیس دی جرمن“ کو مشرقی حصہ (جرمنی) جبکہ بڑے بیٹے ”لوتھیر“ کو شہنشاہ کے خطاب کے ساتھ درمیانی علاقے (روم سے لے کر شمالی بحیرہ بشمول شاہی دارالحکومت روم اور اہن ) دیے گئے۔ اس تقسیم سے ”کرولیگیئن“ بادشاہ کمزور ہو گئے اور مرکزی اتھارٹی ٹوٹ گئی۔ اسی دور میں تمام یورپ آئرلینڈ سے اٹلی تک نئے اور شدید حملوں اور لوٹ مار کا نشانہ بنا۔ جنوب کی طرف سے سسلی، اسپین اور شمالی افریقہ سے مسلمان اٹلی پر حملے کرتے رہے حتی کہ 846 میں روم کے گرد و نواح تک گھیراؤ بھی کیا۔

مشرقی جانب سے وسطی ایشیا کے ”میگیار“ قبائل حملہ آور ہوتے تھے۔ جنہوں نے پچھلے ادوار کے ”ہنز“ اور ”ایورز“ قبائل کی طرح جرمنی اور اٹلی کو دہشت زدہ کیے رکھا۔ جبکہ سب سے زیادہ خطرناک شمال ( اسکینڈے نیویا ) کی طرف سے حملہ آور قبائل تھے۔ جو ”وائی کنگز“ ڈنز یا نارتھ مین کے نام سے پکارے جاتے تھے۔

یہ بھی جرمن تھے مگر تا حال عیسائیت کی بجائے جنگجو دیوتاؤں کے متقعد تھے۔ دو سو سال تک بیشتر یورپ میں یہ حملہ آور خطرے بنے رہے اس کے ساتھ وہ مختلف علاقوں میں آباد بھی ہونے لگے۔ انہوں نے آئرلینڈ کے کئی حصوں میں راج دہانیاں قائم کر لیں اور بیشتر انگلینڈ کو فتح کرنے لگ گئے تھے۔ یورپ میں ان کی آبادکاری کے وسیع اثرات پڑے۔ 1000 کے لگ بھگ ”وائی کنگز“ دہشت بتدریج کم ہو کر ختم ہو گئی

فیوڈلزم کا ظہور۔

ان حالات میں جب مرکزی اتھارٹی مخدوش ہو گئی تھی اور عدم تحفظ بڑھ گیا تھا تو مغربی یورپ کے مختلف علاقوں میں مقامی تحفظ، مقامی حکومت اور مقامی خود انحصاری کی اہمیت بڑھنے لگی۔ جس سے یورپی معاشرے میں ایک نیا طرز بندوبست ابھر آیا جو فیوڈلزم کہلایا جاتا ہے۔

یہ جاگیر پر استوار سیاسی اور فوجی قسم کا نظام تھا اس میں حکومت کا مرکز بادشاہت نہیں بلکہ مقامی علاقہ ( جاگیر ) رہا۔ سیاسی اقتدار اور انتظام مقامی لارڈز کے ہاتھوں میں آیا۔ لارڈز اپنے جاگیر کے کچھ حصے اپنے وفادار افراد کو عطا کر دیتا۔ لارڈ کے ماتحت یہ چھوٹے امراء، جو ”بیرن“ اور ”نائیٹس“ کہلاتے تھے، اپنے متعلقہ لارڈ کے لیے بوقت ضرورت عسکری امداد فراہم کرنے کے ساتھ متعدد انتظامی فرائض اور خدمات انجام دیتے تھے۔

مرکزی اتھارٹی کے انہدام، متواتر حملوں، مالیاتی بحران۔ تجارت اور شہری زندگی کے زوال کے اس دور میں فیوڈلزم بڑی حد تک نظم و ضبط کے قیام، عوام کو تحفظ اور انصاف کی فراہمی اور قانون پر عملداری کا ذریعہ بنا۔ یہ عمومی اصولوں پر مبنی کوئی یکساں نظام نہیں تھا۔ بلکہ اس وقت کے حالات میں مسائل سے نمٹنے کا ایک عبوری سیاسی بندوبست تھا۔

فیوڈلزم کے ساتھ ایک اہم نظام یا حصہ ”مینورئل“ بھی تھا۔ جاگیر متعدد زرعی یونٹس ( گاؤں ) میں تقسیم کیا جاتا تھا جس کو ”مینور“ کہا جاتا تھا فیوڈلزم جاگیر کا سیاسی یونٹ تھا جبکہ مینور اس کا معاشی یونٹ تھا۔ یہ خوراک کے پیداوار کی بنیادی اکائی تھا۔ اور اس کے گرد قائم معاشی اور سماجی انتظام کو ”مینیورل نظام“ کہا جاتا تھا۔

ایک مینیور ( زرعی گاؤں ) عموماً صرف چند مربع میل زرعی زمین پر مشتمل ہوتا تھا۔ اس پر کاشت کرنے والے کسان ( مزارعے ) ، زیادہ تر نیم غلام ہوتے تھے۔ جو لارڈز کی طرف سے دی گئی زمین اور تحفظ کے عوض پیدوار کا ایک حصہ دینے کے علاوہ مختلف موقعوں پر لارڈ کو بعض ٹیکس دینے کے پابند تھے۔

فیوڈل نظام موثر مرکزی حکومت کی عدم موجودگی میں معاشرے کو تحفظ فراہم کرنے کا ذریعہ تھا جبکہ :مینور ”معاشرے کو خوراک اور روزمرہ ضرورت کی اشیاء ( تیل، کپڑا، چمڑا، تعمیراتی لکڑی وغیرہ ) میں خود کفیل رکھنے کا بندوبست تھا۔

فیوڈلزم، بادشاہوں کا اپنا مرکزی اقتدار کی مستحکم بحالی تک بیشتر مغربییورپ میں بالا دست اور موثر سیاسی انتظام تھا۔ رومن کیتھولک چرچ کی طرح فیوڈلزم نے ابتدائی قرون وسطی کے دوران مغربی یورپ میں کافی اہم اور کارآمد رول ادا کیا اور مغربی تہذیب پر کئی حوالوں سے بعض دیرپا اثرات چھوڑے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments