ڈالر کی قیمت میں 18 روپے کا تاریخی اضافہ: وجوہات کیا ہیں اور کیا ہمیں مہنگائی کی نئی لہر کے لیے تیار رہنا چاہیے؟


پاکستان
آئی ایم ایف سے معاہدے ہونے میں تاخیر کا اثر ایک بار پھر پاکستان کی کرنسی کی قدر پر بُری طرح اثرانداز ہوا ہے اور دو مارچ (جمعرات) کو پاکستان میں ایک ڈالر کی قیمت میں اچانک 18 روپے سے زیادہ کا اضافہ دیکھا گیا ہے جو پاکستانی روپے کی قدر میں سات فیصد کمی کے مترادف ہے۔

ڈالر کی قدر میں اضافے کا سلسلہ بدھ سے ہی شروع ہو گیا تھا اور کاروبار کے اختتام پر یکم مارچ کو ڈالر کا پاکستان میں انٹربینک ریٹ چار روپے اضافے کے بعد 266 روپے 11 پیسے تھا۔

تاہم جمعرات کو مارکیٹ کھلتے ہی ڈالر کی قدر میں تیزی سے اضافہ ہونا شروع ہوا اور چند ہی گھنٹے میں ایک ڈالر کی قیمت انٹر بینک میں ہی تقریباً 19 روپے اضافے کے بعد 285 روپے تک پہنچ گئی جو ملکی تاریخ میں ایک نیا ریکارڈ ہے۔

تازہ ترین اطلاعات کے مطابق ریکارڈ سطح پر پہنچنے کے بعد ڈالر کی قیمت 285 روپے سے کچھ کم ہو کر فی الحال 283 روپے کی سطح پر موجود ہے۔

یہی نہیں بلکہ اوپن مارکیٹ میں ایک ڈالر 300 روپے سے بھی زیادہ میں فروخت ہونے لگا۔

ڈالر کی قدر میں اضافہ ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب پاکستان کو ایک معاشی بحران کا سامنا ہے جس میں زرمبادلہ ذخائر بھی چار ارب ڈالر سے کم رہ چکے ہیں۔ دوسری جانب حکومت اس بحران سے نمٹنے کے لیے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی جانب دیکھ رہی ہے۔

جنوری کے آخر میں پاکستان میں زرِ مبادلہ کی ایکسچینج کمپنیوں نے اعلان کیا تھا کہ ڈالر کی قیمت پر لگایا جانے والا مصنوعی کیپ ختم کر دیا گیا ہے جس کے بعد کرنسی مارکیٹ میں کچھ استحکام دیکھنے کو ملا تھا اور آئی ایم ایف کی ٹیم کے دورۂ پاکستان کے بعد روپے کی قدر میں کچھ اضافہ بھی دیکھا گیا تھا۔

تاہم اس دورے کے بعد اب تک آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان کے قرض پروگرام کے حوالے سے معاہدے کے بارے میں کوئی اعلان سامنے نہیں آیا ہے اور پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے گذشتہ ہفتے یہ کہا گیا کہ آئی ایم ایف سے معاہدے میں مزید وقت لگے گا۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ یہی غیریقینی صورتحال مارکیٹ پر اثرانداز ہو رہی ہے۔

حکومت آئی ایم ایف کو مالی مدد کے لیے منا پائے گی یا نہیں، اس سے قبل پاکستان میں اس خدشے کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ روپے کی قدر میں کمی کے معیشت اور ایک عام آدمی پر کتنے گہرے اثرات پڑیں گے اور آیا روپے کی قدر بحال ہو بھی سکتی ہے؟

dollar

’آئی ایم ایف کی شرط کے مطابق ڈالر کا ریٹ وہ ہو گا جو گرے مارکیٹ میں ہے‘

ایکسچینج کمپنییز ایسوسی ایشن کے سیکریٹری ظفر پراچہ کے مطابق ڈالر کے بھاؤ میں اضافہ آئی ایم ایف کی اس شرط کے مطابق ہو رہا ہے جس کے تحت یہ عالمی مالیاتی ادارہ پاکستان میں ڈالر کا وہی ریٹ چاہتا ہے جس پر افعان ٹریڈ ہو رہی ہے (یعنی گرے مارکیٹ میں ڈالر کی وہ اصل قیمت جس پر اس کی خرید و فروخت ہو رہی ہے)۔

اس کی وضاحت کرتے ہوئے ظفر پراچہ کا کہنا تھا کہ ’جو آج ہوا اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ آئی ایم ایف نے جو نئی شرائط لگائی ہیں اس میں ایک بڑی شرط یہ ہے کہ افغانستان کے ساتھ جس ریٹ پرڈالر کی ٹریڈ ہو رہی ہے اس کے مطابق ڈالر کا ریٹ طے کیا جائے۔ دوسرے لفظوں میں آئی ایم ایف نے کہا ہے کہ جو گرے مارکیٹ کا ریٹ ہے وہی دراصل اوپن مارکیٹ ہے اور ڈالر کا وہی ریٹ ہونا چاہیے جو گرے مارکیٹ میں ہے۔‘

ظفر پراچہ کے مطابق ’ گرے مارکیٹ میں ڈالر کا ریٹ بدھ کے روز لگ بھگ 290 روپے جبکہ انٹر بینک میں 263 کے قریب تھا۔ بظاہر آج بنیادی طور پر آئی ایم ایف کی اس شرط کو پورا کیا گیا ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ آئی ایم ایف کی شرط کے علاوہ چند دیگر عوامل بھی ہیں جیسا کہ زر مبادلہ کے کم ہوتے ذخائر، عالمی اداروں کی جانب سے پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ میں کمی۔

ظفر پراچہ کے مطابق ایک دفعہ بڑھنے کے بعد ڈالر کا ریٹ دوبارہ اتنا نیچے نہیں آئے گا کیونکہ فی الوقت پاکستان کی ساکھ عالمی مالیاتی اداروں میں اتنی بہتر نہیں ہے۔

IMF

یہ بھی پڑھیے:

کیا ڈالر کی اونچی اڑان کا سبب آئی ایم ایف ہے؟

روپے کی ریکارڈ تنزلی کہاں جا کر رُکے گی اور ڈالر کی قدر میں بے تحاشا اضافے کے کیا اثرات ہوں گے؟

آئی ایم ایف سے قرض ملنے کے باوجود ڈالر کی قیمت کیوں بڑھ رہی ہے؟

’روپے کی قدر بحال نہیں ہو سکے گی‘

دوسری جانب ماہر معاشیات عبدالصمد کا کہنا ہے روپے کی قدر اب کبھی اس طرح بحال نہیں ہو گی۔ ان کے مطابق اس وقت وجہ یہ بھی بنی ہے لوگ گھبرا کر ڈالر ذخیرہ کر رہے ہیں۔

’عالمی مارکیٹ میں ہماری ساکھ بری طرح متاثر ہوئی ہے کیونکہ ہم آئی ایم ایف کے معاملے میں بار بار حماقتیں کر رہے ہیں۔‘

عبد الصمد کے مطابق ’ڈالر کی قیمت میں معمولی کمی آ بھی جائے تو اس سے عام آدمی کے مسائل کم نہیں ہوں گے۔ عام آدمی کی مشکلات میں کمی نہیں بلکہ زندگی مشکل ہی ہو گی۔‘

دوسری جانب ماہر معیشت مزمل اسلم کے مطابق عام آدمی ڈالر کی قیمت میں اضافےکے ساتھ ہی بالواسطہ اور بلا واسطہ متاثرضرور ہوتا ہے۔

عوام کو کیا اثرات برداشت کرنا پڑیں گے؟

مزمل اسلم کے مطابق جب ڈالر صرف ایک روپیہ مہنگا ہوتا ہے تو مجموعی طور پر پاکستان پر 130 ارب روپے کا قرض مزید بڑھ جاتا ہے۔ دو دن میں تقریباً ڈالر کی قدر میں اصافے سے روپے کی قدر میں 21 روپے کی کمی ہوئی جس سے 250 ارب روپے کا قرض بڑھ گیا ہے۔

مزمل کے مطابق اب اس کے بڑھنے کے ساتھ ہی نئے ٹیکسز لگیں گے جس کا بوجھ عوام پر آئے گا۔

تیل، بجلی، گیس، دالیں، گاڑیاں، موبائل سمیت تمام اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ ہو گا۔

مزمل نے کہا کہ اس کے ساتھ ساتھ ایسے بیرونی سرمایہ کار جنھوں نے پاکستان میں سرمایہ کاری کی ہوتی ہے ان کی رقم روپے گرنےکے ساتھ ہی کم ہوتی ہے جس سے سرمایہ کاروں کا اعتماد کم ہوتا ہے اور سرمایہ کار پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے سے ہچکچاتے ہیں۔

معیشت پر نظر رکھنے والے صحافی شہباز رانا کے مطابق پاکستان میں اس وقت پہلے ہی مہنگائی ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے اور ڈالر کی قدر بڑھنے سے فوری طور پر اس مہنگائی میں مزید اضافہ ہو گا کیونکہ پاکستان تقریباً تمام اشیا امپورٹ کرتا ہے۔

انھوں نے کہا کہ آئندہ چند ہی روز میں روپے کی اس تازہ بےقدری کا اثر روز مرہ استعمال کی تمام اشیا پر نظر آنا شروع ہو گا۔

شہباز کے مطابق یہاں تک کے جو چیزیں پاکستان میں بنتی ہیں اُن کا خام مال بھی پاکستان باہر سے منگواتا ہے، چنانچہ مہنگائی کی ایک نئی لہر آئے گی جس کی وجہ سے پاکستان میں ’ہائیپر انفلیشن‘ کا خطرہ بڑھ جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments