گجرات میں احمدی ڈاکٹر کا قتل اور اُن کے مبینہ قاتل کی خودکشی کا معمہ جو سلجھنے کا نام نہیں لے رہا


تصویر
پنجاب کے ضلع گجرات کی تحصیل کھاریاں کے گاؤں گوٹریالہ میں گذشتہ ماہ 19 فروری کو احمدی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے 71 سالہ ہومیو ڈاکٹر رشید احمد کو اُن کے کلینک میں قتل کر دیا گیا۔ ڈاکٹر رشید نے ایک کمرے کا کلینک اپنے ہی گھر میں بنا رکھا تھا۔

ہومیو ڈاکٹر رشید احمد کے مبینہ قاتل کی شناخت 20 سالہ حافظ انعام الحق کے نام سے ہوئی تاہم اس معاملے نے پیچیدہ صورتحال اس وقت اختیار کی جب مبینہ قاتل نے اس واردات کے تھوڑی ہی دیر بعد خود کو گولی مار کر اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیا۔ اُس کی لاش کلینک سے ملحقہ خالی کھیت میں پڑی ہوئی ملی۔

واقعہ کیسے پیش آیا؟

19 فروری کو اتوار کا دِن تھا اور اسی روز کلینک شروع کرنے سے پہلے ڈاکٹر رشید احمد معمول کے مطابق اپنے گاؤں گوٹریالہ کے قریبی گاؤں ڈوگا تھیال میں اپنی شادی شدہ بیٹی سے ملنے گئے۔

رشید احمد کے داماد ضیا الرحمن بتاتے ہیں کہ ’میرا بھائی بیرون ملک سے آیا ہواتھا۔ جس وقت میرے سسر (ڈاکٹر رشید) اُس سے ملنے ہمارے گھر آئے تو میرا بھائی سو رہا تھا۔ میرے سسر نے اُنھیں جگانے سے منع کیا اور کہا کہ وہ بعد میں ملنے آ جائیں گے۔‘

رشید احمد اپنی بیٹی کے گھر سے واپس آ کر کلینک پر بیٹھ گئے۔

اس روز گاؤں میں ایک فوتگی ہوئی تھی اور ساڑھے تین سے چار بجے کے درمیان گاؤں کے زیادہ تر لوگ جنازہ پڑھنے کے لیے جنازہ گاہ میں موجود تھے جب مبینہ قاتل حافظ انعام اور ان کے ہم عمر دوست اور کاروباری شراکت دار بابر، نے رشید احمد کے ملازم ذکا اللہ سے استفسار کیا کہ کیا آج ڈاکٹر صاحب کا کلینک کُھلا ہوا ہے؟

کلینک

وہ کلینک جہاں پر ہومیو ڈاکٹر رشید احمد کو قتل کیا گیا

یہاں سے آگے اس واقعہ کی تفصیل مقتول رشید احمد کے دو ملازمین ذکا اللہ اور محمد محبوب یوں سناتے ہیں کہ ’ہم دونوں کلینک سے کچھ ہی فاصلے پر گھاس کاٹنے کی مشین سے گھاس کاٹ رہے تھے جب بابر کے ہمراہ آنے والے حافظ انعام نے ہم سے پوچھا کہ ’کیا ڈاکٹر صاحب کلینک پر ہیں؟ میری داڑھ میں درد ہے، دوا لینی ہے۔‘

’ہم نے کہا کہ کلینک کھلا ہوا ہے۔اس کے بعد ہم کام میں لگ گئے۔ جب دس پندرہ منٹ بعد کلینک پر آئے تو ڈاکٹر رشید خون میں لت پت نیچے گرے ہوئے تھے۔ میں (ذکا اللہ) وہاں سے بھاگتا ہوا ڈاکٹر صاحب کے بھتیجے ضراراحمد کے پاس پہنچا اور انھیں ساتھ لے کر آیا۔‘

یاد رہے کہ ضرار احمد اس کیس میں مدعی بھی ہیں۔

ضرار احمد نے ہمیں بتایا کہ ’میں نے فوراً پولیس کو کال کی اور تھوڑی دیر بعد پولیس آ گئی۔‘

حافظ انعام کے دوست بابر نے اپنے والدین کو واقعے کے بارے کیا بتایا؟

گاؤں کے ایک چھوٹے مگر صاف ستھرے گھر کے برآمدے میں بچھی چارپائی پر بیٹھی بابر کی والدہ معروف بی بی نے ہمیں بتایا کہ ’واقعے کی صبح جب ہمارے گھر کا دروازہ بجا تو میرا بیٹا بابر باہر گیا اور وہیں سے کھڑے ہو کر مجھے آگاہ کیا کہ امی! حافظ انعام آیا ہے، مَیں اُس کے ساتھ جا رہا ہوں۔‘

معروف بی بی کے مطابق حافظ انعام اور ان کے بیٹے نے مل کر گاؤں میں ماربل کی دُکان بنائی ہوئی تھی اور وہ دونوں بچپن کے دوست تھے۔

انھوں نے بتایا کہ ’حافظ انعام مجھے میرے بیٹے کی طرح پیارا تھا۔ عصر کے وقت مَیں اپنے ہمسائے میں دودھ لینے کے لیے برتن رکھنے گئی کہ پیچھے سے میری دیورانی یعنی بابر کی چچی بلانے آ گئیں اور بتایا کہ بابر کو کچھ ہو گیا ہے۔‘

بابر کی والدہ کے مطابق ’گھر آئی تو دیکھا میرا بیٹا گھبرایا ہوا بیٹھا تھا۔ اُس نے بتایا کہ انعام نے مجھے کہا کہ میری داڑھ میں درد ہے، ڈاکٹر کے پاس دوائی لینے چلتے ہیں۔ ہم وہاں چلے گئے۔ کلینک میں گئے تو ڈاکٹر صاحب اکیلے بیٹھے تھے۔ انعام نے ڈاکٹر سے کہا کہ اس کی داڑھ میں درد ہے اور جیسے ہی ڈاکٹر صاحب دوا اُٹھانے کے لیے مُڑے تو حافظ انعام نے ان کی گردن میں گولی مار دی۔‘

’ہم فوراً وہاں سے بھاگ نکلے، کلینک سے باہر کھیتوں کی طرف جاتے ہوئے میں گِر گیا۔ انعام آگے تھا اور اُسی دوران اس نے مجھے کہا کہ میں خود کو بھی گولی مار رہا ہوں۔ مَیں نے چیخ کر کہا ایسا نہ کرو لیکن اُس نے خود کو گولی مار دی اور مَیں بھاگ کر گھر آ گیا ہوں۔‘

کھیت

کلینک کے قریب واقع وہ کھیت جہاں مبینہ قاتل حافظ انعام نے خود کو گولی مار کر اپنی زندگی کا خاتمہ کیا

بابر کے والد ولایت حسین اس واردات کے وقت گاؤں سے باہر جنگل میں بکریاں چرا رہے تھے۔ اُنھوں نے بھی ہمیں یہی کہانی سُنائی۔ اس واقعے کے کچھ دیر بعد پولیس آئی اور بابر کو گرفتار کر کے لے گئی۔ بعدازاں بابر نے پولیس کو اپنا یہی بیان ریکارڈ کروایا۔

مقتول ڈاکٹر رشید احمد کون تھے؟

ڈاکٹر

رشید احمد کی عمر 71 برس تھی اور وہ ناروے کی شہریت بھی رکھتے تھے

رشید احمد کی عمر 71 برس تھی اور وہ ناروے کی شہریت بھی رکھتے تھے۔ ان کے خاندانی ذرائع کے مطابق رشید احمد 1980 سے 2010 تک ناروے میں اپنے بیوی بچوں کے ساتھ رہے مگر پھر پاکستان واپس آ گئے۔

رشید احمد کے بیٹے وقاص احمد کے مطابق ’ہم آٹھ بہن بھائی ہیں۔ میرے والد ناروے میں فیکٹری میں کام کرتے تھے مگر 2010 میں گاؤں واپس آ گئے۔ ہماری ایک بہن پاکستان میں رہتی ہیں جبکہ باقی بہن بھائی بیرون ملک آباد ہیں۔ ہمیں جیسے ہی والد صاحب کی اطلاع ملی تو ہم پاکستان آ گئے۔‘

رشید احمد کے داماد ضیا الرحمن کے مطابق ’میرے سسر اکیلے رہ رہے تھے۔ دوملازم کام کاج کے لیے رکھے ہوئے تھے مگر دونوں شام کو اپنے گھروں میں چلے جاتے تھے۔ وہ رات کو اکیلے رہتے تھے اور اپنا کھانا بھی خود ہی تیار کرتے تھے۔‘

رشید احمد کے ملازم محمد محبوب بتاتے ہیں کہ ’مَیں ڈاکٹر صاحب کا ہمسایہ بھی ہوں اور پارٹ ٹائم ملازم بھی تھا۔ وہ بہت ہی شریف آدمی تھے۔ اگر کوئی بزرگ اُن سے دوائی لینے آتا تو وہ موٹر سائیکل پر اُس کو گھر بھی چھوڑ آتے تھے۔‘

اس واقعے کے ملزمان حافظ انعام الحق اور بابر کون ہیں؟

دکان

حافظ انعام الحق کی عمر 20 برس تھی۔ وہ حافظ قرآن تھے اور گاؤں کی مسجد میں رمضان میں تراویح بھی پڑھایا کرتے تھے۔

انعام الحق کے والد ریٹائرڈ فوجی تھے اور مقامی افراد کے مطابق چند برس قبل ہی انھوں نے کنویں میں کود کر خودکشی کر لی تھی۔

انعام کے ایک بھائی عمر احسان نے ہمیں بتایا کہ ’ہم تین بھائی ہیں۔ انعام نے دو دکانیں ویلڈنگ اور ماربل کی بنا رکھی تھیں۔ صبح سویرے وہ کام پر چلا جاتا تھا۔ اس نے قرآن بھی حفظ کر رکھا تھا اور رمضان میں مسجد میں تراویح بھی پڑھاتا تھا۔‘

بابر جو اس وقت پولیس کی حراست میں ہیں، کی عمر اکیس برس ہے۔

حافظ انعام اور بابر دونوں گہرے دوست تھے اور عموماً گاؤں میں ساتھ ہی گھومتے پھرتے تھے، ماربل کی دکان بھی دونوں نے مل کر بنا رکھی تھی۔ بابر کے والد بھی فوج سے ریٹائرڈ ہیں اور گاؤں ہی میں کھیتی باڑی کرتے ہیں۔ بابر کی والدہ کے مطابق اُن کے بیٹے نے دسویں تک تعلیم حاصل کی ہوئی ہے۔

ڈاکٹر رشید،حافظ انعام اور بابر کے بارے میں گاؤں کے لوگ کیا کہتے ہیں؟

ڈاکٹر رشید احمد کے بارے اُن کے دونوں ملازمین کا کہنا تھا ’وہ بہت ہی محبت کرنے والے انسان تھے جو گاؤں والوں کو مفت دوائیاں بھی دیتے تھے۔ اگر کوئی مریض اپنی مرضی سے پیسے دینا چاہتا تو تھوڑے بہت لے بھی لیتے تھے۔‘

ہم نے جب ملازمین سے پوچھا کہ دونوں لڑکوں کو پہلے کبھی کلینک پر دیکھا گیا تھا؟ تو انھوں کا کہنا تھا کہ ’ہم نے انھیں کبھی پہلے کلینک پر آتے نہیں دیکھا اور اس واقعے سے پہلے ہم ان لڑکوں کو جانتے بھی نہیں تھے۔‘

واضح رہے کہ گھاس کاٹنے کی مشین والی جگہ، جہاں واردات کے وقت دونوں ملازم موجود تھے، وہاں سے حافظ انعام کی دُکان بالکل ہی پاس ہے۔ علاوہ ازیں رشید احمد کے کلینک اور مذکورہ دُکان کے مابین اڑھائی ایکڑ کا فاصلہ ہے۔ کلینک کے سامنے رشید احمد کا باغ ہے، جس میں مختلف پھل دار درخت ہیں۔ جیسے ہی باغ ختم ہوتا ہے، گندم کا کھیت ہے، کھیت کے اختتام پر حافظ انعام کی دُکان ہے۔

حافظ انعام کی لاش کلینک کے بالکل ساتھ باغ سے ملحقہ کھیت میں پڑی ہوئی ملی اور اس جگہ سے دُکان سامنے نظر آتی ہے۔

گاؤں کے مختلف دُکان داروں اور دونوں لڑکوں کے دوستوں اور چند ایک بزرگوں اور خواتین سے ہماری بات ہوئی اور سب کے سب یہی کہتے ہوئے پائے گئے کہ لڑکوں کو کبھی کسی متشدد کارروائی میں پہلے ملوث ہوتے نہیں دیکھا گیا۔

البتہ ایک شخص نے شناخت ظاہر نہ کرنے پر بتایا کہ حافظ انعام چند دن پہلے ایک جگہ کسی کے سامنے ڈاکٹر رشید احمد کا ذکر کر رہا تھا۔

گاؤں کے ایک رہائشی نے ہمیں بتایا کہ احمدی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر رشید کا ایک عزیز اُن کا ہمسایہ ہے۔ ’یہ سب شریف لوگ ہیں، چونکہ ہمارے مذہب الگ ہیں تو کبھی آمنا سامنا ہو جائے تو بات چیت ہیلو ہائے تک ہی محدود رہتی تھی۔‘

اسی گاؤں سے تعلق رکھنے والے ماسٹر محمد احسان بتاتے ہیں کہ ’حافظ انعام کے والد کو کوئی ذہنی مسئلہ ہوا تھا کہ اُس نے کنویں میں چھلانگ لگا کر اپنی جان لے لی۔ انعام اچھا لڑکا تھا۔ راستے میں ملتا تو بہت احترام کرتا تھا۔ دوسرا لڑکا بابر بھی اچھا تھا۔ رشید احمد کا مذہب الگ تھا لیکن وہ شریف اور مہذب انسان تھے۔‘

قتل کا واقعہ کیوں ہوا؟ گاؤں کے لوگ کیا سوچ رہے ہیں؟

گاؤں

رشید احمد کو کیوں قتل کیا گیا؟ اس سوال پر احمدی کمیونٹی کے ساتھ ساتھ گاؤں کے لوگ متفرق خیالات رکھتے ہیں اور اس واقعے پر زیادہ بات کرنے سے گریز کرتے ہیں۔

حافظ انعام کے بھائی نے ہمیں بتایا کہ ’میرے بھائی کا رشید احمد سے لین دین کا کوئی معاملہ نہیں تھا، نہ ہی کوئی ذاتی عناد یا رنجش تھی۔‘

پولیس کی حراست میں موجود بابر کی والدہ اور والد کا بھی یہی کہنا ہے کہ اُن کا یا ان کے بیٹے کا رشید احمد سے کوئی لین دین تھا اور نہ ہی کوئی ذاتی رنجش تھی۔

تاہم ڈاکٹر رشید احمد کے اپنے عزیزوں سے، جو اُن کی کمیونٹی سے تعلق نہیں رکھتے، ماضی میں جائیداد کے تنازعات رہے ہیں۔

رشید احمد کے بھتیجے ضراراحمد نے بتایا کہ ’میرے چچا کے اپنے برادرِنسبتی سے جائیدا کا مسئلہ رہا ہے۔ میرے چچا نے گھر بنایا تھا، جو اُن لوگوں نے زبردستی خرید لیا اور ایک قطعہ زمین پر ٹیوب ویل لگایا تھا، اُس ٹیوب ویل کی جگہ بھی انھوں نے اپنے قبضہ میں کر لی۔‘

اس حوالے سے رشید احمد کے برادرِنسبتی نے ہمیں بتایا ’وہ میرے بہنوئی تھے۔ اگرچہ عقیدہ الگ ہونے کی وجہ سے آنا جانا کم ہے مگر یہ بہت اچھے اور شریف آدمی تھے۔ ہمارا ان سے جائید اد کا کبھی جھگڑا نہیں رہا، ان کا ایک گھر تھا جو میرے ماموں کے بیٹے نے خریدا تھا اور وہ گھر رشید احمد نے خود بیچا تھا۔ البتہ میرے بہنوئی سے اپنے رشتہ داروں نے جو احمدی ہیں، کچھ زمین ہتھیا لی۔‘

گاؤں کے ایک اور شخص کا کہنا ہے کہ ’ڈاکٹر رشید احمد نے جو گھر بیچا،اس کی وہ قیمت نہ بنتی تھی جو شاید ادا کی گئی تھی۔ گھر زیادہ مہنگا تھا۔‘

تو کیا یہ قتل عقیدے کے نام پر ہوا؟

یہ سوال کہ عقیدے کی وجہ سے یہ قتل ہوا؟ جب گاؤں کے لوگوں کے سامنے رکھا گیا تو زیادہ تر نے اس پر بات کرنے سے انکار کر دیا۔

چند ایک نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر دعویٰ کیا کہ ’ایسا ہی ہے، قتل عقیدے کی بنیاد پر ہوا ہے مگر لڑکوں کو ورغلایا گیا ہے۔ کس نے ورغلایا،اس بارے معلوم نہیں۔‘

حافظ انعام کے ایک قریبی عزیز کے مطابق ’حافظ انعام نے مقامی مدرسے سے قرآن حفظ کیا تھا۔ یہاں اس گاؤں میں زیادہ آبادی بھی سُنی مسلک کی ہے۔ ایک مسجد کے علاوہ باقی مساجد بھی مذکورہ مسلک کی ہیں۔ یہ شبہ اپنی جگہ پر موجود ہے کہ کسی نے شرپسندی کے لیے مذہبی سطح پر بچوں کو ورغلایا ہو۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’کوئی ذاتی رنجش بھی نہیں تھی اور جو احمدی شخص مارا گیا وہ اپنے عقیدے کا پرچار بھی نہیں کرتا تھا اور نہ ہی لڑنے جھگڑنے والا بندہ تھا۔ لین دین بھی کسی طرح کا نہیں تھا، پھر مزید کیا گنجائش رہ جاتی ہے۔ تاہم جب تک پولیس کی تفتیش مکمل نہیں ہوتی اور حقائق سامنے نہیں آتے، اس وقت تک حتمی طورپر کچھ نہیں کہا جا سکتا۔‘

اس واقعے کے بعد سے علاقے میں بسنے والے احمدی کمیونٹی کے لوگ سہمے ہوئے تھے اور سوالات کا جواب دینے سے گریز کر رہے ہیں۔

بشیر احمد جو مقتول رشید احمد کے رشتہ دار ہیں کا کہنا ہے ’ہمیں سمجھ نہیں آ رہی کہ یہ واقعہ کیوں ہوا۔ اس کے پیچھے کوئی مذہبی مسئلہ بظاہر تو نظر نہیں آ رہا۔‘ مقتول کے بھتیجے ضرار احمد کا بھی ایسا ہی خیال تھا۔

گلیانہ تھانہ کے ایس آئی اور اس کیس کے تفتیشی افسر ندیم بٹ نے ہمیں بتایا کہ ’ابھی تفتیش چل رہی ہے اور اس معاملے پر کسی طرح کا کوئی بیان نہیں دیا جا سکتا۔‘

جب اس سے پوچھا گیا کہ اس واردات میں استعمال ہونے والا پستول کس کا تھا؟ تو اُن کا کہنا تھا کہ ’اُن لڑکوں کو ایک تیسرے لڑکے نے دس بارہ دن پہلے پستول دیا تھا، مگر اب وہ لڑکا بیرون ملک جا چکا ہے۔‘

گاؤں میں پہلے کبھی کوئی مذہبی تنازع ہوا؟

مسجد

گاؤں میں اس واقعہ سے پہلے دو بڑے مذہبی تنازعات کے واقعات ہو چکے ہیں۔

ایک واقعہ نوے کی دہائی میں ہوا۔ یہاں ایک مسجد واقع ہے جس کا نام دندے والی مسجد تھا جو کہ گاؤں کے درمیان میں نہایت بلند مقام پر قائم ہے۔

ماضی میں اِس مسجد میں احمدی بھی اپنی عبادت کیا کرتے تھے۔ لیکن ایک دِن کسی دوسرے گاؤں سے علما آئے اور اُنھوں نے خطاب کر کے بتایا کہ ’احمدیوں کا مسلمانوں کی مساجد میں عبادت کرنا جائز نہیں۔‘ اس کے بعد احمدیوں کا مسجد میں آنا بند کر دیا گیا اور دندے والی مسجد کا نام بھی بدل کر ’مسجد ختم نبوت‘ رکھ دیا گیا۔

دوسرا واقعہ 2012 میں پیش آیا جب احمدی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے بشیر احمد کے بھائی کے گھر دروازے پر کنندہ کلمہ مٹانے کو کہا گیا۔ اس معاملے پر تنازع اُٹھ کھڑا ہوا اور پولیس کی مداخلت سے یہ معاملہ تھما۔

بشیر احمد نے ہمیں بتایا ’ہمارے انکار کے بعد اور تنازع ختم کرنے کے لیے ایک پولیس اہلکار نے وہاں سے کلمہ مٹا دیا۔‘

احمدیوں کو مسجد میں عبادت کی اجازت کیوں تھی؟ اس پر کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ ’ہم سب رشتہ دار ہیں۔‘

دو مذہبی تنازعات کے واقعات کے بعد تعلقات کی نوعیت میں کیا فرق آیا؟

یہاں اس بات کا خیال رہے کہ گوٹریالہ گاؤں میں بسنے والے زیادہ تر لوگ آپس میں رشتہ دار بھی ہیں۔ یہاں احمدی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے چند افراد کے گھر بھی ہیں، یہ تمام متمول لوگ ہیں اور گاؤں کے سرکردہ لوگوں کے قریبی رشتہ دار ہیں۔

گاؤں کے جن لوگوں سے ہماری بات ہوئی اُن کا کہنا ہے کہ چند واقعات کے بعد احمدی کمیونٹی محدود ہو کر رہ گئی اور ایک دوسرے کے ہاں آنا جانا بھی بند ہو گیا۔ شادی بیاہ اور خوشی غمی میں ٹیلی فونز پر اظہار ہونے لگا۔

اس گاؤں میں کل ملا کر بارہ مساجد ہیں اور گاؤں میں مذہبی رجحان کافی زیادہ ہے۔

سنہ 2018 کے انتخابات میں اس حلقہ سے، جس میں گاؤں واقع ہے، ایک مذہبی جماعت کے رہنما نے 29 ہزار سے زائد ووٹ لیے تھے۔ گجرات کے ایک صحافی نے ہمیں بتایا ’2018کے الیکشن سے قبل یہاں سروے ہوا تو معلوم ہوا کہ مذہبی ووٹ بڑی تعداد میں موجود ہے اور زیادہ تر گاؤں کے لوگوں کا مذہبی رجحان ہے۔‘

حافظ انعام نے رشید احمد کو گولی مار کر مبینہ طور پر خودکشی کیوں کی؟ اس بارے میں فی الحال نہ تو پولیس کو کچھ معلوم ہے اور نہ ہی گاؤں والوں کو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments