اٹلی کشتی حادثہ: ’آذان کی والدہ کو جھوٹی تسلی دی ہے کہ وہ ٹھیک ہے، مگر جب میت گھر پہنچے گی تو کیا ہو گا‘


آذان
آذان کی عمر 14 برس تھی اور وہ اٹلی کے بعد اپنے بڑے بھائی کے پاس سویڈن جانا چاہتے تھے
’والدہ پوچھ رہی ہیں کہ میرا بیٹا آذان کہاں ہے، اس نے پانچ دنوں سے مجھے فون نہیں کیا۔ فی الحال ہم نے انھیں بتایا ہے کہ وہ ہسپتال میں داخل ہے اور جلد ٹھیک ہو جائے گا۔ انھوں نے پھر پوچھا کہ اگر وہ ٹھیک ہے تو پھر یہ اتنے لوگ کیوں ہمارے گھر آ رہے ہیں؟ جس پر ہم نے انھیں بتایا کہ یہ آذان کے اٹلی پہنچنے پر خوش ہیں اور مبارکباد دینے آ رہے ہیں۔‘

’یہ سب تو ہم نے انھیں وقتی طور پر بتا دیا ہے مگر ساتھ ہی ہم یہ سوچ رہے ہیں کہ جب آذان کی میت گھر پہنچے گی تو اس کی ماں کا کیا حال ہو گا؟‘

یہ کہنا ہے حامد آفریدی کا جو پشاور کے علاقے گلبرگ میں رہائش پزیر ہیں۔ مشترکہ خاندانی نظام میں رہنے والے یہ چار بھائی اور ان کے بچے اکھٹے رہتے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ ’والدہ بار بار یہ کہہ رہی ہے کہ اٹلی میں کہو کہ آذان کو دودھ پلا دیں، وہ کمزور ہے مگر دودھ پلا دیں گے تو وہ اچھا ہو جائے گا۔‘

آذان آفریدی کی عمر 14 سال تھی اور غیرقانونی طریقے سے اٹلی جانے کی کوشش میں جان کی بازی ہارنے والے پاکستانیوں میں وہ بھی شامل تھے۔ بی بی سی بات کرتے ہوئے آذان کے والد نے بتایا کہ اُن کا بڑا بیٹا پہلے ہی سویڈن میں انجینیئرنگ کی تعلیم حاصل کر رہا ہے جبکہ آذان کے ایک ماموں اٹلی میں رہتے ہیں۔ ’آذان کو ماموں کے پاس اٹلی بھیجا تھا جہاں سے انھوں نے آذان کو آگے سویڈن بھیجنا تھا۔‘

آذان کی میت کا منتظر اُن کا خاندان

آذان کی میت

اٹلی کے مردہ خانے میں موجود آذان کی میت

اٹلی کشتی حادثے میں ہلاک ہونے والے افراد کی میتیں اس وقت اٹلی کے ایک مردہ خانے میں موجود ہیں اور ضروری قانونی کارروائی کے بعد انھیں ان کے آبائی ممالک روانہ کیا جائے گا۔ مردہ خانے میں موجود انھیں میتوں میں ایک میت آذان کی بھی ہے جن کے تابوت پر دل کی شکل کے غبارے اور پھول رکھے گئے ہیں۔

آذان آفریدی کے چچا خالد خان نے بتایا کہ ’ہمیں مطلع کیا گیا ہے کہ پاکستانیوں کی لاشیں وہاں اٹلی میں پڑی ہیں۔ اس لیے وزارت خارجہ کے حکام اگر اٹلی میں حکام سے رابطہ کریں تو میت جلد پاکستان پہنچ سکتی ہے۔‘

ان کے مطابق انھیں جو ویڈیو پیغام اٹلی سے موصول ہوا ہے اس میں کہا گیا ہے کہ آذان کی میت سمیت دیگر افراد کی میتیں یہاں پڑی ہیں اور اب تمام ممالک کے وزارت خارجہ کے اٹلی کے حکام سے رابطے کر رہے ہیں۔

آذان آفریدی کے گھر سوگ

آذان کے والد

آذان کے والد حامد خان

پشاور شہر کے علاقے گلبرک میں وہ مکان ہے جہاں آذان آفریدی رہتے تھے جہاں اب افسوس کے لیے آنے والوں کا سلسلہ جاری ہے۔ آنے جانے والے دعائیں کر رہے ہیں اور متاثرہ خاندان کے افراد کو تسلیاں دے رہے ہیں۔ حامد خان اور ان کے بھائی اس صورتحال کی وجہ سے کافی پریشان ہیں اور اُن میں اس معاملے پر بات کرنے کی زیادہ ہمت نہیں ہے۔

اہلخانہ کے مطابق جمعرات کو رات دیر سے معلوم ہوا تھا کہ آذان آفریدی کی لاش مل گئی ہے۔

کشتی حادثے کی خبر ملنے کے بعد پشاور میں آذان کے والدین اور رشتہ داروں کے علاوہ اٹلی میں موجود آذان کے ماموں اور سویڈن میں اُن کے بھائی اس کوشش میں لگے رہے کہ آذان کو تلاش کر لیا جائے۔ پانچ روز سے سب خاندان والے اس کشمکش میں رہے کہ کہ آذان کہاں ہے، سمندر میں ڈوب گیا ہے یا کسی ہسپتال میں زیر علاج یا ساحل پر کہیں لاپتہ ہے۔

حامد خان نے بتایا کہ ان کے لیے وہ وقت انتہائی تکلیف دہ تھا جب تک آزان کی لاش نہیں ملی تھی۔ ’یہ امید تھی کہ ہو سکتا ہے کہ وہ زندہ ہو اور ابھی یہ خبر مل جائے کہ آذان صحیح سلامت مل گیا ہے۔‘

حامد خان نے بتایا کہ آذان کے ساتھ ایک افغان نوجوان یوسف بھی تھا اور آذان نے حادثے سے قبل ٹیلیفون پر اُن سے اس کی بات بھی کروائی تھی۔ ’میں نے یوسف سے کہا تھا کہ آذان تمھارے چھوٹے بھائیوں کی طرح ہے، اس کا خیال رکھنا۔ اس پر یوسف نے کہا تھا کہ وہ اس کا خیال رکھے گا۔‘

انھوں نے کہا کہ جب حادثے کے بعد یوسف سے رابطہ کیا گیا تو اس نے بتایا کہ وہ کشتی میں اکٹھے تھے اور آذان نیچے بیٹھا تھا لیکن جب حادثہ ہوا تو اس وقت کشتی بالکل ٹوٹ گئی اور کسی کا کچھ پتہ نہیں چل رہا تھا کہ کون کہاں ہے۔ حامد کے مطابق یوسف نے مزید بتایا کہ اسے ایک لکڑی کا ٹکڑا مل گیا تھا جس کا اس نے سہارا لے لیا اور پھر اسے بچا لیا گیا تھا۔

حامد خان نے بتایا کہ آذان اور ان کے ساتھ دو لڑکوں اور ایک لڑکی کی لاش سمندر میں جھاڑیوں میں ایک ہی جگہ پھنسی ہوئی تھی جہاں سے انھیں نکالا گیا۔

آذان کب کیسے اٹلی روانہ ہوا؟

آذان

حامد بتاتے ہیں کہ ’وہ بہت ضد کر رہا تھا کہ میں نے پڑھنے کے لیے بھائی کے پاس سویڈن جانا ہے۔ ہر وقت اس کا یہی کہنا ہوتا تھا کہ مجھے آپ وہاں بھیجیں میں یہاں نہیں رہوں گا۔‘

حامد بتاتے ہیں جب انھوں نے آذان کے اٹلی میں موجود ماموں سے بات کی تو انھوں نے کہا کہ آپ اسے بھیج دیں۔

حامد خان نے بتایا کہ انھوں نے ماموں کے کہنے پر آذان کو روانہ کر دیا تھا اور وہ ٹیلیفون پر ماموں کے ساتھ اور ہمارے ساتھ رابطے میں تھا ۔ ’وہ کوئی دو ماہ پہلے یہاں پشاور سے روانہ ہوا تھا اور اس کے منزل اٹلی کے بعد سویڈن تھی۔

آذان اس سارے سفر میں ماں کے ساتھ مسلسل رابطے میں رہا اور اس سے ساری باتیں کرتے رہا۔ جب کشتی کو حادثہ پیش آیا تو اس کے بعد آذان کا فون ماں کو نہیں آیا تو وہ پریشان ہو گئی تھیں اور بار بار کہہ رہی تھیں کہ آذان کا فون نہیں آ رہا اللہ خیر کرے۔ بعد میں انھیں حادثے کا پتہ چل گیا تھا مگر ہم نے انھیں یہ تسلی دی تھی کہ آذان زندہ ہے اور وہاں ہسپتال میں ہے جلد ٹھیک ہو جائے گا پھر آپ سے رابطہ کرے گا۔ْ‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32288 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments