اپنے پانچ بچوں کا قتل کرنے والی ماں جنھوں نے جرم کے 16 برس بعد اپنے لیے موت کا انتخاب کیا


Balgium
اپنے ہی پانچ بچوں کے قتل کے جرم میں عمرقید کی سزا پانے والی بیلجیئم کی خاتون کو ’یوتھینائز‘ کر کے موت کی نیند سلا دیا گیا ہے۔

’یوتھینائز‘ کسی لاعلاج بیماری یا شدید کرب میں مبتلا شخص کو اُس کی مرضی سے موت دینے کے عمل کو کہا جاتا ہے۔ بیلجیئم سمیت کئی یورپی ممالک میں قانونی طور پر (موت کے) اس عمل کی اجازت ہے جس میں ناقابل برداشت درد یا ناقابل علاج نفسیاتی تکلیف میں مبتلا شخص کو اس کی مرضی سے موت کی نیند سلا دیا جاتا ہے۔

جینیویو لرمائتھ نے 16 سال قبل اپنے پانچ بچوں کو قتل کیا تھا۔ بیلجیئم کے شہر نیویلس میں قتل کا یہ واقعہ 28 فروری 2007 کو پیش آیا جب جینیویولرمائتھ نے اپنی چار بیٹیوں اور ایک بیٹے کا قتل کیا جن کی عمریں 3 سے 14 سال کے درمیان تھیں۔ قتل کے اس واقعے کے وقت بچوں کے والد گھر سے باہرتھے۔

جینیویولرمائتھ نے بچوں کو جان سے مارنے کے بعد اپنی جان لینے کی کوشش بھی کی تاہم وہ اس میں ناکام رہیں اور پھر طبی مدد کے بعد ان کو بچا لیا گیا۔

اپنے پانچ بچوں کو قتل کرنے کے جرم میں 56 سالہ جینیویو کو 2008 میں عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔

سنہ 2019 میں انھیں علاج کے لیے نفسیاتی ہسپتال بھی منتقل کیا گیا تھا۔

Balgium

’جینیویو لرمائتھ نے ’اپنے بچوں کی موت کے احترام کی علامت‘ کے طور پرہمیشہ کی نیند سونے کا فیصلہ کیا‘

جیوری نے ’سوچا سمجھا قتل کا منصوبہ‘ قرار دے کر عمر قید کی سزا سنائی

ماں کے ہاتھوں بچوں کے اس ہولناک قتل کی واردات اور اس کے بعد کے مقدمے کی کارروائی نے بیلجیئم کے لوگوں کو جھنجوڑ کے رکھ دیا تھا۔

مقدمے کی سماعت کے دوران جینیویو لرمائتھ کے وکلا نے موقف اختیار کیا کہ اُن کی مؤکلہ کو شدید ذہنی عارضہ لاحق ہے اور انھیں اس صورت میں جیل نہیں بھیجنا چاہیے، تاہم جیوری نے اسے ’سوچا سمجھا قتل کا منصوبہ‘ قرار دے کر انھیں مجرم قرار دیا اور انھیں عمر قید کی سزا سنائی گئی۔

سنہ 2010 میں جینیویو کی جانب سے ایک سول مقدمہ بھی دائر کیا گیا تھا تاہم 10 سال تک قانونی جنگ لڑنے کے بعد وہ مقدمہ کی پیروی سے دستبردار ہو گئیں۔

جینیویو کے وکیل نے اس بارے میں بتایا: ’موت کے اس مخصوص طریقہ کار کے لیے ان کی موکل جینیویو لرمائتھ کے لیے مختلف طبی آراء کو سامنے رکھا گیا اور پھر اس فیصلے کی پیروی کی گئی۔‘

ماہر نفسیات ایملی ماریوئت نے آر ٹی ایل ٹی وی کو بتایا کہ جینیویو لرمائتھ نے ’اپنے بچوں کی موت کے احترام کی علامت‘ کے طور پر اپنی زندگی کے خاتمے کے لیے 28 فروری کا دن منتخب کیا۔

ماہرنفسیات ایملی ماریوئت نے کہا کہ ’ان کی زندگی کا اختتام اسی راستے کی منزل ہے جس کا سفر انھوں نے شروع کیا تھا کیونکہ وہ بنیادی طور پر اپنی زندگی کا خاتمہ کرنا چاہتی تھیں جس کے لیے انھوں نے پہلے اپنے بچوں کی جان لی۔‘

موت کے اس طریقے کے تحت کن افراد کو ہمیشہ کی نیند سلایا جاتا ہے

بیلجیئم سمیت کئی یورپی ممالک میں قانونی طور پر (موت کے) اس عمل کی اجازت ہے جس میں ناقابل برداشت درد یا ناقابل علاج نفسیاتی تکلیف میں مبتلا شخص کو اس کی مرضی سے موت کی نیند سلا دیا جاتا ہے۔

موت کے اس فیصلے میں متاثرہ شخص کی اجازت ضروری سمجھی جاتی ہے اور انھیں اپنی زندگی کے خاتمے کی اس خواہش کو معقول اور مربوط انداز میں ظاہر کرنے کے قابل بھی ہونا چاہیے۔

بیلجیئم میں موت کا خود انتخاب کرنے کے اس طریقہ کار سے سنہ 2022 میں تقریبا دو ہزار 966 افراد ہمیشہ کی نیند سو گئے اور 2021 کے مقابلے میں ان اموات میں 10 فیصد کا اضافہ دیکھا گیا۔

یہ بھی پڑھیے:

کشتیاں ڈبونے والی 600 کلو وزنی ’فریا‘ جسے لوگوں کی حفاظت کی خاطر ’نرم دلی‘ سے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا

فیصل آباد: ماں نے بیٹی کے مبینہ قاتل شوہر کو 15 برس بعد کیسے ڈھونڈ نکالا؟

بیوی کا قتل: پوڈ کاسٹ جو ایک قاتل کو گرفتار کرنے میں مددگار ثابت ہوئی

رضاکارانہ موت کو اختیار کرنے کی سب سے عام وجہ کینسر کے مرض کو قرار دیا جاتا تھا تاہم اب حکام کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے موصول ہونے والی ہر چار میں سے تقریباً تین درخواستیں ایسے مریضوں کی ہوتی ہیں جس میں وہ شدید جسمانی اور نفسیاتی تکالیف سے نبرد آزما ہوتے ہیں۔

بیلجیئم 2014 کے بعد سے اب بالغ افراد کے ساتھ ساتھ ایسے بچوں کو مرنے میں مدد کرنے کی اجازت بھی دیتا ہے جنھیں صحت کے شدید عارضے لاحق ہوں اور اس موت میں ان کے والدین کی رضامندی اور اجازت شامل ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32503 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments