انڈین خواتین کھلاڑیوں کے لیے جنسی ہراس کے معاملات کو سامنے لانا آسان نہیں ہوتا


18 جنوری 2023 کو جب خواتین کی ریسلنگ چیمپئن ونیش پھوگاٹ نئی دہلی کے جنتر منتر پر دھرنے پر بیٹھیں تو کھیل کی دنیا کو جھٹکا لگا۔

ونیش پھوگاٹ کے ساتھ بجرنگ پونیا اور ساکشی ملک جیسی اولمپیئن بھی دھرنے پر بیٹھے تھے۔ ان لوگوں نے انڈین ریسلنگ ایسوسی ایشن کے صدر برج بھوشن شرن سنگھ پر کم از کم دس خاتون ریسلنگ کھلاڑیوں کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کا الزام لگایا۔ حالانکہ برج بھوشن شرن سنگھ نے اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کی تردید کی تھی۔

لیکن یہ بہت سنگین الزامات تھے اور تین دن کے احتجاج کے بعد وزارت برائے امور نوجوان اور کھیل کی مداخلت سے معاملے کی تحقیقات کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی۔ تحقیقات مکمل ہونے تک ریسلنگ ایسوسی ایشن کے صدر کو عہدے کی ذمہ داریوں سے دور رہنے کو کہا گیا ہے۔

اس معاملے کی تحقیقات جاری ہیں، ڈیڑھ ماہ سے زیادہ کا عرصہ گذر چکا ہے اور اب احتجاج کرنے والے کھلاڑیوں نے بھی انصاف ملنے کی امید پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا ہے۔ لیکن اس پورے معاملے نے ایک بار پھر ایک پرانی بحث کو زندہ کر دیا۔

کچھ لوگوں نے اسے انڈین کھیلوں کی دنیا کا ’می ٹو‘ لمحہ قرار دیا، جب کہ کچھ لوگوں نے سوال اٹھایا کہ ان خواتین کھلاڑیوں نے اس معاملے کو پہلے کیوں نہیں اٹھایا؟

جب بھی کوئی خاتون جنسی ہراس کا معاملہ عام کرتی ہے تو ہر جگہ یہ سوال پوچھا جاتا ہے کہ پہلے کوئی شکایت کیوں نہیں کی؟ تاہم اس معاملے پر کام کرنے والے ماہرین نفسیات اور کارکنوں کا کہنا ہے کہ جنسی ہراس کے بارے میں بات کرنا ہمیشہ مشکل ہوتا ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ انڈین کھیلوں کی دنیا کا ’ایکو سسٹم ‘ ایسا ہے کہ خواتین کھلاڑیوں کے لیے شکایت کرنا اور بھی مشکل ہو جاتا ہے۔

مردانہ غلبہ

یہ بات سب کو معلوم ہے کہ انڈیا میں زیادہ تر کھیلوں کی فیڈریشنوں کی سربراہی یا تو سیاست دان کرتے ہیں یا طاقتور بیوروکریٹس یا امیر کاروباری شخصیات۔

ایسا نہیں ہے کہ یہ صرف قومی سطح پر ہو رہا ہے، بلکہ مقامی سطح پر بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔

ایک ویٹ لِفٹر نے دو ٹوک الفاظ میں کہا ’سب سمجھتے ہیں کہ جب کسی طاقتور پر الزام لگایا جائے گا تو کوئی کارروائی نہیں ہوگی۔‘

اس خاتون ویٹ لفٹر کا کہنا تھا کہ ’یہ سچ ہے کہ با اثر اور طاقتور مرد شخصیات کھیلوں کے لیے انفراسٹرکچر اور سہولیات مہیا کرتے ہیں، یہ کھیلوں کے لیے بھی بہتر ہے لیکن ان میں سے کچھ لوگوں کو ایسا لگنے لگتا ہے کہ جیسے وہ سپورٹس فیڈریشنز اور کھلاڑیوں کے حقیقی مالک بن گئے ہیں۔ ایسے لوگوں کی من مانی کو بے نقاب کرنا بھی آسان نہیں ہوتا۔‘

کھیلوں میں جارحیت

کھیلوں میں جارحیت کو کھلاڑیوں کی فطری خوبی سمجھا جاتا ہے۔ لیکن اس پر اتنی زیادہ توجہ دی جاتی ہے کہ یہ غنڈہ گردی یا جنسی ہراس کی لکیر کو کب پار کر جا تی ہے لوگ اس کا خیال نہیں رکھتے۔

سوئٹزرلینڈ میں مقیم ایتھلیٹس کے حقوق کی کارکن پیوشنی مترا اس پہلو کو اجاگر کرتے ہوئے کہتی ہیں ’صرف جنسی ہراس ہی نہیں بلکہ طاقتور لوگوں کی جانب سے ہتک آمیز رویے کو بھی معمول کے رویے کی طرح دیکھا جاتا ہے۔ جب میں ونیش پھوگاٹ، ساکشی ملک اور بجرنگ پونیا کو میڈیا سے بات کرتے ہوئے سن رہی تھی تو میری توجہ اُسی پہلو پر گئی۔

پایوشنی مترا نے این ڈی ٹی وی سے بات کرتے ہوئے کہا ’کھیلوں کی دنیا میں اوپر سے نیچے تک ایک درجہ بندی ہے اور اس کی وجہ سے طاقتور لوگ اپنی طاقت کا غلط استعمال کرنا شروع کر دیتے ہیں، ٹاپ ایتھلیٹس کا باہر آنا اور اس طرح بولنا بہت بڑی بات ہے۔‘

خواتین کھلاڑیوں کو مضبوط اور رول ماڈل کے طور پر دیکھا جاتا ہے، لیکن ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ وہ بھی آخر انسان ہی ہیں۔

کئی سطحوں پر دباؤ ہوتا ہے

سنہ 2018 میں 150 سے زیادہ جمناسٹوں نے امریکی جمناسٹ ٹیم کے ڈاکٹر لیری ناسیر کے خلاف گواہی دی جس کے بعد انہیں 175 سال قید کی سزا سنائی گئی۔ اولمپک تمغہ جیتنے والی اور سٹار جمناسٹ، سیمون بائلز نے ان دباؤ کے بارے میں بات کی جس کی وجہ سے وہ اس معاملے پر پہلے بولنے سے خود کو روکتی تھیں۔

انہوں نے ٹوڈے اخبار کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا ’مجھے لگتا ہے کہ ہم خواتین چیزوں کو در گزر کرنے میں بہت اچھی ہوتی ہیں، ہم نے اسے اپنے ذہن میں کہیں پیچھے دبا دیا کیونکہ ہم نہیں چاہتے تھے کہ کوئی اس کے بارے میں سوچے، یہاں تک کہ خود بھی اس بارے میں سوچنا نہیں چاہتے۔‘

ناسیر کے کیس نے یہ بھی ظاہر کیا کہ امریکہ جیسے ممالک میں بھی، جہاں مکمل طور پر پروفیشنل سیٹ اپ ہے، مینٹرز اور ٹرینرز کھلاڑیوں کا استحصال کر سکتے ہیں۔

انتہائی مسابقتی ماحول میں کھلاڑی اپنے ہدف پر توجہ دیتے ہیں، جہاں بہتر سے بہتر کے لیے مسلسل دباؤ ہے ایسے ماحول میں ہراساں کیے جانے کے خلاف بات کرنا بہت مشکل ہے۔

ہراس

کائلی سٹیفنز ناصر پر الزام لگاتے ہوئے

ممبئی کی جمناسٹک کوچ اور بین الاقوامی جمناسٹک جج ورشا اپادھیائے کہتی ہیں ’کھلاڑیوں پر دباؤ ضلع کی سطح سے ہی شروع جاتا ہوتا ہے۔ والدین بھی بہتر نتائج چاہتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ان کی بیٹی کسی بھی قیمت پر جیتے اور آگے بڑھے۔ اس لیے وہ بھی ہراساں کیے جانے والی صورتحال کو نظر انداز کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ والدین کو ہر طرح کی حد کا خیال رکھنا چاہیے۔ کوچ اور کھلاڑیوں کے درمیان پیشہ ورانہ رشتہ ہوتا ہے اور یہ رشتہ برقرار رہنا چاہیے۔‘

اس سوال کے جواب میں کہ کھلاڑیوں پر اچھی کارکردگی کا کتنا دباؤ ہوتا ہے، ورشا کہتی ہیں ’زیادہ تر لڑکیاں غریب اور متوسط طبقے سے آتی ہیں۔ کھیلوں کے ذریعے وہ اپنی غربت پر قابو پا سکتی ہیں، انہیں نوکری مل سکتی ہے۔ اس لیے وہ پریشانی سے بچنے کے لیے شکایت نہیں کرتیں۔‘

ایتھلیٹکس فیڈریشن آف انڈیا کے صدر اور ارجن ایوارڈ یافتہ اولمپیئن عادل سماری والا کہتے ہیں، ’یاد رکھیں کہ جب کوئی کھلاڑی میدان میں مقابلہ کر رہا ہوتا ہے تو اسے جذباتی، جسمانی اور نفسیاتی چیلنجز کا بھی سامنا ہوتا ہے اور ان لمحات میں ہمیشہ آپ کے ساتھ صرف ایک ہی شخص ہوتا ہے۔ اسی لیے بعض اوقات چیزیں حد سے گزر جاتی ہیں۔‘

کھیلوں کی وجہ سے آپ کا بیرونی دنیا سے رابطہ بھی منقطع ہو جاتا ہے۔ ایک سابق اولمپیئن شوٹر کے مطابق، کھلاڑیوں کو اپنا ’سیفٹی نیٹ‘ یعنی حفاظتی جال خود بنانے کی ضرورت ہے۔

اس نے بتایا ’میں شوٹنگ کے میدان میں اپنے دوستوں کے قریب تھی۔ ہم سب ایک دوسرے سے مقابلے میں تھے، لیکن ہم سب ایک دوسرے کے لیے کھڑے تھے۔ اگر کوئی ایسی چیز ہوتی جس سے مجھے تکلیف ہوتی، تو میں اس کے خلاف بولتی۔ اس نے مجھے مضبوط بنایا۔ اور ضرورت پڑنے پر جواب دینے کے قابل بھی۔‘

سیمون بائلز

اولمپک جمناسٹ سیمون بائلز اپنی ساتھی جمناسٹ کے ساتھ

ان کا مزید کہنا ہے ’حالانکہ مقابلے میں اضافے کے ساتھ آپس میں یکجہتی کم ہوئی ہے۔ خواتین کھلاڑیوں میں ایسی یکجہتی ہونی چاہیے کہ جب آپ مل کر سوالات اٹھاتے ہیں تو کارروائی ہونے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔‘

لیکن کھیلوں کی دنیا میں ہر خاتون کھلاڑی کے پاس ایسا نیٹ ورک نہیں ہوتا۔

خواتین کوچز کی کمی

کھیلوں کی دنیا میں مردوں کا غلبہ کھلاڑیوں کے کوچ اور مینٹر یعنی سرپرست کے درمیان تعلق کو بھی متاثر کرتا ہے۔

انڈین ایکسپریس نے سنہ 2010 سے 2020 کے درمیان ڈیٹا جمع کیا تھا، جس کے مطابق ان دس سال کے دوران سپورٹس اتھارٹی آف انڈیا کو جنسی ہراس کی 45 شکایات موصول ہوئیں، جن میں سے 29 شکایات کوچز کے خلاف تھیں۔ ان کوچز کے خلاف معمولی کارروائی کی گئی۔ پانچ کوچز کی تنخواہوں میں کمی، ایک کو معطل اور دو کے کانٹریکٹ منسوخ کر دیے گئے۔

بہت سے ماہرین کا خیال ہے کہ اگر خواتین کوچز اور سپورٹ سٹاف کی تعداد زیادہ ہو گی تو خواتین کھلاڑیوں کی صورتحال بہتر ہوگی۔ لیکن اس وقت ماہر خواتین کوچز کی بہت زیادہ کمی ہے۔

ورشا اپادھیائے کا کہنا ہے ’عام اصول یہ ہے کہ اگر مرد کوچ ہے تو خاتون معاون عملہ موجود ہونا چاہیے لیکن کئی بار اس اصول کو بھی نافذ نہیں کیا جاتا۔ کوچز کو بھی سمجھنا ہوگا کہ وقت بدل گیا ہے، اب وہ کلچر ختم ہو گیا ہے جہاں ان کی کہی بات آخری فیصلہ ہوا کرتا تھا۔‘

اس سب کے بعد بھی اگر کوئی خاتون کھلاڑی ہمت کا مظاہرہ کرنے اور جنسی ہراس کے خلاف بولنے کا فیصلہ کرتی ہے تو وہ اپنی بات کہنے کہاں جائے گی؟ ان کے پاس محدود راستے ہیں۔

عادل سمری والا نہ صرف کوچنگ بلکہ کھیلوں کی انتظامیہ میں بھی زیادہ خواتین کی موجودگی پر زور دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کھیلوں کے منتظمین کو اعتماد کا ماحول بنانا ہوگا، کھیلوں کی فیڈریشنز کو کھلاڑیوں کے ساتھ بہتر تعلقات رکھنے چاہئیں۔

’ہم ایتھلیٹکس فیڈریشنز میں خواتین کی موجودگی کو بڑھانے کے لیے کام کر رہے ہیں۔ ہم نے سنہ 2022 تک ٹیکنیکل آفیشلز میں 20 فیصد خواتین رکھنے کا فیصلہ کیا ہے اور اسے 50 فیصد کرنے کا ہدف ہے۔ ہم اسے ترجیحی بنیادوں پر کر رہے ہیں۔‘

جنسی ہراس کی روک تھام کے لیے کمیٹی یا قوانین؟

جنسی طور پر ہراساں کیے جانے کے واقعات کے بارے میں سمری والا کا کہنا ہے کہ ’جنسی ہراس کے واقعات ہوتے ہیں اور ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ ہمیں ان کیسز کی منصفانہ تحقیقات کے لیے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے، تمام متعلقہ افراد کی حفاظت بھی ضروری ہے۔ ایک عام تاثر ہے کہ ایسا صرف خواتین کے ساتھ ہوتا ہے لیکن میں ایسے بہت سے معاملات جانتا ہوں جہاں مرد کھلاڑیوں کو بھی ہراساں کیا گیا ہے۔‘

سمری والا کہتے ہیں ’اس طرح کے معاملات میں دو فریق ہوتے ہیں۔ اسی لیے پورے معاملے کو سنجیدگی اور غیر جانبداری سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اگر کسی کو سزا نہیں بھی دی جاتی تب بھی اس کی مکمل تحقیقات ہونی چاہیے کہ کیا ہوا تھا۔‘

’ایتھلیٹکس میں ہمارے پاس سیف گارڈ پالیسی ہے۔ میں اسے حفاظتی پالیسی کہتا ہوں کیونکہ یہ سب کو تحفظ فراہم کرتی ہے۔ تاہم خواتین اور بچے ہماری ترجیح ہیں، اس پر توجہ دی جاتی ہے، اس میں جھوٹے الزامات لگانے والوں کے خلاف کارروائی کا انتظام بھی ہے۔‘

حکومت ہند کے نیشنل سپورٹس ڈیولپمنٹ کوڈ 2011 کے تحت یہ سپورٹس فیڈریشنز اور سپورٹس اتھارٹیز کی ذمہ داری ہے کہ وہ خواتین کو محفوظ ماحول فراہم کریں۔ اگرچہ اس طرح کی کمیٹی زیادہ تر سپورٹس فیڈریشنز میں موجود نہیں ہے تاہم کمیٹی کہاں موجود ہے اس کی معلومات ان کی ویب سائٹ پر دستیاب نہیں ہیں۔ یہ کمیٹیاں بھی قواعد پر پوری طرح عمل نہیں کرتیں۔ ریسلنگ ایسوسی ایشن کی کمیٹی میں صرف ایک خاتون رکن ہے ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32292 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments