ججوں کے اختلاف رائے کو کیسے دیکھا جائے


پاکستان میں آج کل عام لوگ بھی اعلی عدالتوں کے فیصلوں میں گہری دلچسپی لیتے ہیں۔ وہ سیاسی نوعیت کے مقدمات کی تفصیل اور فیصلوں کو ٹیلی ویژن، اور سوشل میڈیا پر دیکھتے ہیں یا اخبارات میں پڑھتے ہیں۔ موجودہ سنسنی خیز سیاسی حا لات میں یہ دلچسپی اور بھی بڑھتی جا رہی ہے۔ پاکستان کے بڑے بڑے سیاسی تنازعے آج کل پاکستان کی اعلی عدالتوں میں زیر سماعت نظر آتے ہیں۔ آج کل سپریم کورٹ کی طرف سے کسی بڑے عدالتی مقدمے کے فیصلے کے ساتھ یہ بھی سنا اور پڑھا جاتا ہے کہ اس مقدمے میں کسی جج نے ”ڈیسنٹنگ رائے“ دی ہے۔ اب عوام بھی اس رائے کو سنجیدہ لیتے ہیں، اور اس کے بارے میں بات چیت کرتے ہیں۔ کسی جسٹس کی ”ڈیسنٹنگ رائے“ کو سادہ زبان میں اختلافی رائے کہا جاتا ہے۔ لفظ ”اختلاف“ کا مطلب اس تناظر میں کسی جسٹس کا اکثریت ججوں کی طرف سے کیے گئے فیصلے کے خلاف رائے رکھنا ہے۔

ایک سپریم کورٹ میں کسی مقدمے میں کسی جسٹس یا جسٹسز کے اختلاف رائے اختلاف رائے کی تعریف کیا ہے؟ عوامی زبان میں اسے یوں بیان کیا جا سکتا ہے کہ اختلاف رائے عدالت میں کسی ایک جسٹس یا بہت سارے جسٹسز کے ذریعہ دیا جاتا ہے، جو عدالت کی اکثریت کی رائے کے خلاف دلائل پر مبنی ہوتا ہے۔ اس اختلاف رائے کے ذریعے، جج اپنے دلائل دیتے ہیں کہ وہ کیوں مانتے ہیں کہ اس مقدمے میں اکثریت کی رائے غلط ہے۔ اختلافی رائے اکثریتی رائے یا پھر متفقہ رائے کے متضاد ہوتی ہے۔

اکثریت کی رائے وہ رائے ہوتی ہے، جس پر ججوں کی اکثریت کسی خاص فیصلے کے بارے میں متفق ہوتی ہے۔ جیسا کہ ابھی الیکشن کیس میں ہوا ہے، جس میں ججوں نے اکثریتی رائے سے قرار دیا ہے کہ مقررہ مدت کے اندر انتخابات آئینی ذمہ داری ہے۔ دوسری طرف متفقہ رائے ایک جج یا ججوں کی طرف سے لکھی گئی رائے ہوتی ہے، جس میں وہ وضاحت کرتے ہیں کہ وہ اکثریت کی رائے سے کیوں متفق ہیں، لیکن وہ اکثریت کی رائے کے استدلال کے لیے مزید تفصیلات بھی فراہم کر سکتے ہیں۔

اختلاف رائے دنیا بھر کے سپریم کورٹس یا اعلی عدالتوں میں عام نہیں ہے۔ یہ دنیا کے چند ممالک کے لیے کسی حد تک منفرد ہے، اور زیادہ عام استعمال ہوتا ہے۔ آج، ریاستہائے متحدہ امریکہ میں ایک طرف سول لا کے نظام کا استعمال ہوتا ہے، جو اختلاف رائے کو روکتا ہے، اور دوسری طرف کامن لا کے نظام پر بھی انحصار کیا جاتا ہے، جہاں ہر جج اپنی رائے کا اظہار کرنے کے لیے آزاد ہوتے ہیں۔ شروع شروع میں امریکی سپریم کورٹ میں عام روایت یہ تھی کہ جسٹسز اپنی الگ الگ رائے کا اظہار کرتے تھے۔

جب مشہور جسٹس جان مارشل چیف جسٹس بنے تو انہوں نے ایک ہی رائے میں فیصلوں کا اعلان کرنے والی عدالت کی روایت شروع کرنے کا فیصلہ کیا، جسے اکثریتی رائے کہا جاتا ہے۔ اس طرح ایک رائے نے سپریم کورٹ کو قانونی حیثیت دینے میں مدد کی۔ تاہم، ہر جسٹس کے پاس اب بھی یہ صلاحیت تھی کہ اگر وہ ضرورت محسوس کریں تو الگ رائے لکھ سکتے ہیں، خواہ وہ متفق ہو یا اختلاف رائے ہو۔ کسی بھی عدالت کے لیے مثالی منظر نامہ وہ ہوتا ہے، جہاں عدالت کی طرف سے ایک متفقہ فیصلہ دیا گیا ہو، جو یہ واضح پیغام دیتا ہے کہ فیصلہ عدالت کا متفقہ اور بہترین انتخاب تھا۔

اس کے بر عکس ایک بار جب جج اختلافی رائے لکھنا شروع کر دیتے ہیں، تو یہ اکثریت کی رائے پر مبنی فیصلوں کے بارے میں شکوک پیدا کر سکتا ہے، اور آنے والے وقتوں میں تبدیلی کے لیے ایک دروازہ کھول دیتا ہے۔ اگر کوئی جج اختلاف رائے کے ساتھ آگے بڑھتا ہے، تو وہ اپنی رائے کو ہر ممکن حد تک دلائل سے واضح کرتا ہے۔ بہترین اور مدلل اختلاف سامعین یا قارئین کو یہ سوال کرنے پر مجبور کرتا ہے کہ آیا اکثریت کی رائے درست ہے یا نہیں۔

عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ اختلاف رائے جج کے لیے اپنی الگ سوچ کے اظہار کا صرف ایک طریقہ ہے، لیکن اختلاف رائے حقیقت میں اس سے کہیں زیادہ آگے اور اہم ہوتی ہے۔ عموماً اختلافی فیصلے بنیادی طور پر اس امید پر لکھے جاتے ہیں کہ مستقبل کے جج عدالت کے سابقہ فیصلے پر نظر ثانی کریں گے، اور مستقبل کے مقدمے میں ایسے فصلوں کو بدلنے کے لیے کام کریں گے۔ اختلاف رائے عام طور پر اکثریت فیصلے کی تشریح میں خامیوں اور ابہام کو نوٹ کرتے ہیں، اور ایسے حقائق کو اجاگر کرتے ہیں جن کو اکثریت نے اپنی حتمی رائے میں نظر انداز کیا ہو۔

اختلاف رائے عدالت کے فیصلے کو تبدیل کرنے کی بنیاد رکھنے میں بھی مدد کرتا ہے۔ مستقبل میں جج اپنی اکثریت، ہم آہنگی، یا اختلاف رائے کی تشکیل میں مدد کے لیے اختلاف رائے کا استعمال کر سکتے ہیں۔ اس اختلاف رائے کا اثر نظر ثانی یا اپیل کی کارروائی پر بھی پڑھ سکتا ہے۔ اور اگر فیصلوں میں قانون یا حقائق کی کوئی غلطی ہو تو اسے درست کرنے کا امکان ہوتا ہے۔ ایک فنکشنل سماج میں ان اختلافی فیصلوں سے قانون ساز ادارے بھی رہنمائی لیتے ہیں، اور اگر قانون میں کوئی سقم سامنے آئے تو اس کی درستگی کے لیے اقدامات کرتے ہیں۔ اس کی ایک مشہور ترین مثال ایک امریکی مقدمہ ہے۔ یہ مقدمہ ایک خاتون نے طاقت ور اور امیر ٹائر کمپنی گڈ ائر کے خلاف کیا تھا۔ خاتون کے مقدمہ یہ تھا کہ ان کو عورت ہونے کی وجہ سے مردوں کے برابر تنخواہ نہیں دی جاتی۔

اس مشہور و معرف کیس میں وکلا نے 1964 کے سول رائٹس ایکٹ میں موجود صنفی مساوات کے تحفظات کا حوالہ دیا۔ سپریم کورٹ نے ٹائر کمپنی کے حق میں فیصلہ دیا، کیونکہ مدعی نے اپنا کیس تاخیر سے دائر کیا تھا، جس کے لیے اس وقت کی 180 دن کی مدت گزر چکی تھی۔ اس کیس میں اختلافی رائے سامنے آئی، جس نے تاریخ کا دھارا بدل کر رکھ دیا۔ جسٹس روتھ بدر گینسبرگ نے فیصلے سے اختلاف کیا اور کانگرس سے کہا کہ وہ اس قانون کو بہتر الفاظ میں لائیں تاکہ مدعی جیسے لوگوں کے ساتھ پیش آنے والے واقعات کو روکا جا سکے۔

یہ اختلاف بالآخر ”للی لیڈ بیٹر فیئر پے ایکٹ“ کی تخلیق کا باعث بنا، جس نے مقدمہ دائر کرنے کے لیے مزید وقت فراہم کرنے کے لیے حدود کے قانون کو تبدیل کر دیا۔ اگر یہ جسٹس روتھ کی اختلاف رائے نہ ہوتی تو یہ قانون منظور نہ ہوتا، جس نے امریکہ میں کروڑوں لوگوں کی زندگیوں کو بدل دیا۔ پاکستان میں بھی ایسے کچھ مقدمات ہیں، جن میں بعض ججوں نے اختلافی نوٹ لکھے۔ ان میں سے بعض اختلافی نوٹ اتنے اہم ہیں کہ آنے والے وقتوں میں عدالتوں، وکلا اور اسمبلیوں نے اکثریتی رائے کی نسبت اس اختلافی رائے کو زیادہ اہمیت دی۔

ان میں مولوی تمیزالدین کیس سے لے کر ذوالفقار عالی بھٹو کیس تک کئی مقدمات بہت اہم اور قابل ذکر ہیں۔ اس لیے کسی مقدمے میں ججوں کے درمیان اختلاف رائے کو صرف سیاسی عینک سے نہیں دیکھنا چاہیے، اور نہ ہی اس عمل کو ججوں کی ذاتی مخاصمت یا غلط فہمی کا نتیجہ سمجھتا چاہیے۔ ظاہر ہے اس طرز عمل کے لیے اعلی عدالتوں کا معیار اور ججوں کا مجموعی طرز عمل بھی ایک ایسا اہم عنصر ہوتا ہے، جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ کئی دفعہ کسی ایک جج کا غیر مناسب طرز عمل پورے نظام انصاف کو داغ دار کر دیتا ہے، جس کی وجہ سے نظام انصاف پر عوام کا اعتبار کمزور پڑ جاتا ہے۔ یہ کسی بھی ملک اور سماج کے لیے ایک انتہائی خطرناک صورت حال ہوتی ہے۔ ایک منصفانہ سماج کے لیے عوام کا نظام انصاف پر مکمل اور غِیر مشروط اعتماد اور اعتبار لازم ہے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments