یاسر پیرذادہ کے کالم پہ اختلافی نوٹ


میں یاسر پیرزادہ کے کالم ”پاکستان سے نقل مکانی کرنے کی کیا قیمت ہے“ کے مندرجات سے اختلاف کر رہا ہوں۔ میں نے اپنے مضمون کا عنوان، اختلافی نوٹ، جان بوجھ کر رکھا ہے۔ وجہ تسمیہ کا پس منظر وہ طلسماتی اختلافی نوٹ ہے جس کا ان دنوں خوب چرچا ہے۔ پوتروں کی اس سرزمین کے کسی ایوان عدل میں ایسا تماشا پہلی دفعہ رچا ہے کہ اختلاف کرنے والوں کی تعداد پہ ہی اتفاق نہیں کہ یہ دو ہیں یا چار۔

غالب یاد آ گئے۔
اسے کون دیکھ سکتا کہ یگانہ ہے وہ یکتا
کہ دوئی کی بو بھی ہوتی تو کہیں دو چار ہوتا
فی زمانہ ایسے بہت سے اختلافات کی وجہ سے ملکی سیاست خانہ غالب کی طرح خوب ہنگامی خیز بنی ہوئی ہے۔

میں یاسر پیرزادہ کی زیادہ تر تحریروں کے طرفداروں میں شامل ہوں۔ اگرچہ مجھے یہ تحریریں پڑھنے سے قبل پکا شک رہا کہ یہ سیاں جو کوتوال بہے ہیں اس میں ان کی صلاحیت کا کم اور حضرت کے والد گرامی کے اثر و رسوخ کا کرشمہ ہونے کا امکان زیادہ ہے۔ اس شک میں پہلی دفعہ تب دراڑ پڑی جب پتہ چلا کہ آپ تو کوتوالوں کے برہمن گروہ سے تعلق نہیں رکھتے۔ بلکہ جس گروہ سے تعلق رکھتے ہیں وہ برہمنوں کے نزدیک ویش یا زیادہ سے زیادہ کھشتری مانا جاتا ہے۔ میں نے سوچا اگر میرے اندازے کے مطابق ان کا افسر بالا ہونا کرامت والد بزرگوار کے طفیل ہے تو حضرت ایسے کمزور نہیں کہ ان کے فرزند کو دوسرے یا تیسرے درجے کے افسران میں رکھنے کی جرآت کی جاتی۔

اس کے بعد جب ان کی تحریریں مطالعہ میں آنا شروع ہوئیں اور یہ شک ہوا ہو گیا اور کہنا پڑا۔
ع۔ کہتے کہ “یاسر” کا ہے انداز بیاں اور

اب آتا ہوں سخن گسترانہ بات کی طرف۔

اس کالم میں آپ نے ہمارے نوجوانوں کے زندگی کو داؤ پر لگا کر سفر یورپ اختیار کرنے کی جو وجوہات بیان کی ہیں ان میں سے کچھ نظر انداز ہوئی ہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ جو نظر انداز ہوئی، اقرار باللسان والوں کی اکثریت والے اس معاشرے میں ملک کے باقی حصوں میں عام طور اور شاہ دولہ کے چوہوں کی سرزمین گجرات می خاص طور پر پائے جانے والے وہ ہوس پیشہ ایجنٹ ہیں جنہیں سیاسی شاہ دولوں اور ان کے چوہوں کی سرپرستی حاصل ہے۔ نہایت افسوسناک معاملہ یہ ہے کہ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات بھی نہیں ہے کیونکہ ایسے ہر المیے کے بعد فرض شناس ایف آئی اے کے حرکت میں آنے کی نوید ملتی ہے۔ اس دفعہ بھی یہ ریت دہرائی گئی۔

ع۔ واہ ری دنیا، واہ رے زمانے

پیرزادہ جی کی اپنے سماج کے بارے یہ خوش فہمی کہ یہ پہلے ایسا نہیں تھا جیسا اب ہے اور ہر میدان میں عدم تحفظ کی تصویر ہے، کچھ حد تک تو درست ہو سکتی ہے لیکن حقیقت میں ہمارے سماج کا معاملہ ماضی میں بھی بقول فیض

ع۔ یوں نہ تھا میں نے فقط چاہا تھا یوں ہو جا
والا ہی رہا ہے۔

ہم آج جس حال میں ہیں اس کے لیے پچھلی سات دہائیوں کے دوران ازحد محنت کی ہے تب کہیں اپنے “گول” کو حاصل کر پائے ہیں۔

سوشل میڈیا پہ رنگین دھوکوں کی لشکری یلغار جس کی موافقت میں یورپ کسی نہ کسی طرح پہنچنے میں کامیاب ہونے والے دوست یہاں کے دوستوں کو للچانا اس لیے ضروری سمجھتے ہیں کہ اگر ایسا کرنے کی بجائے وہاں کے مسائل کا رونا رویا تو یہ اپنی اور خاندان کی سبکی ہو گی اور شریکوں کی خوشی۔ بھی ایک وجہ ہے۔

افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہم ایک بے حس سماج میں رہتے ہیں۔ ہمارے ہاں بڑے سے بڑا سفاکانہ واقعہ اخبار کی خبر کی طرح ہمارے دل و دماغ میں لمبا بسیرا نہیں کرتا۔

کڑوا سچ یہ ہے کہ موت کے اس کھیل کا مین تھیٹر گجرات ہے جہاں مکھ منتری اور پردھان منتری کے راج سنگھاسنوں تک پہنچنے والے زندگی کے سمندر برد یا دریا برد ہونے کو کچھ ایسی اہمیت اس لیے بھی نہیں دیتے کہ یہاں چناب میں جاں گنوانے کی ایک روایت پہلے سے بہت چرچا رکھتی ہے۔
سوہنی کے دریا برد ہونے کی روایت۔

پاکستان سے نقل مکانی کرنے کی کیا قیمت ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments