ہمارے حوصلے بلند ہیں


ملکی حالات کتنے بھی ابتر کیوں نہ ہوں۔ ذلت اور رسوائی کا سامنا ہو، ہر میدان میں شکست در شکست نصیب ہو اور دنیا میں ہم ایک مشہور بھکاری کی حیثیت سے جانے جاتے ہوں، لیکن ہمارے حکمرانوں کی ایک عادت بہت اچھی ہے کہ وہ حوصلہ افزا اور مثبت جھوٹ بولتے ہیں، بلکہ جھوٹ پہ جھوٹ بولے جاتے ہیں، مثلاً ہمارے حوصلے بہت بلند ہیں، ہم دشمن کو کیفر کردار تک پہنچائیں گے، ہماری طرف کوئی بھی میلی آنکھ اٹھا کے نہیں دیکھ سکتا۔ دشمن کو آہنی ہاتھ سے نمٹ لیں گے وغیرہ وغیرہ ”

قیام پاکستان سے لے کر اب تک، اعلیٰ سول و فوجی اداروں اور بیوروکریٹس کی محلاتی سازشوں کے نتیجے میں، پیارا پاکستان اپنے منطقی انجام کو پہنچ چکا۔ ان ابتر حالات سے نکل کر، دوبارہ خوشحال پاکستان حاصل کرنے کا سفر ایک معجزہ ہی لگتا ہے۔ حالانکہ اگر حکمران ٹولے کی نیت صاف ہو تو منزل بہت آسان ہے لیکن یہ لوگ اس ضمن میں یقیناً کچھ کریں گے ہی نہیں۔

1947 سے لے کر آج تک جمہوریت کو پنپنے نہیں دیا گیا۔ ملکی تاریخ کے تقریباً 32 سال، چار مارشلاؤں کی نظر ہوئے، باقی عرصے میں جمہوریت کے نام پہ جو حکومتیں قائم ہوئیں وہ بھی خود مختیار نہیں، بلکہ لولی لنگڑی تھیں۔ 1970 کے الیکشن کے سوا ملک میں کبھی بھی فیئر الیکشن نہیں ہوئے لیکن ہماری رولنگ کلاس نے 1970 کے الیکشن کے نتائج کو عملاً صدق دل سے تسلیم نہیں کیا اور نتیجے میں آدھا ملک گنوا بیٹھے۔

ڈھاکا میں پاک فوج سرینڈر کر رہی تھی لیکن تخت پہ بیٹھا، ایک بدمست جنرل، قوم کو حوصلہ افزا جھوٹ سنا رہا تھا کہ ”جنگ جاری ہے اور فتح ہماری ہے، ہمارے حوصلے بلند ہیں“ بنگالیوں نے ہم سے جان چھڑا کے سکھ کا سانس لیا اور پھر ترقی کی راہ میں ہمیں کب کا کراس کر چکے۔

بنگال کی علیحدگی کے بعد ، بچے کچھے پاکستان میں جمہوریت بحال ہوئی۔ بھٹو صاحب نے پاکستان کے معاشی حالات بدلنے میں کافی اصلاحات کیں اور دور رس اقدامات کیے ، لیکن آہستہ آہستہ پارٹی اپنے معاشی پروگرام، یعنی سوشلسٹ نظریے سے پیچھے ہٹتی گئی اور پارٹی پہ سندھ اور پنجاب کے جاگیردار قابض ہوتے گئے، نتیجتاً سوشلسٹ ذہن رکھنے والے لیڈرز اور کارکن ایک ایک کر کے، پارٹی کو الوداع کرتے گئے۔

چونکہ جمہوریت پہ شب خون مارنے والی قوتوں نے ماضی میں عوام کے خون کا مزہ چکھ لیا تھا اس لئے ایک بار پھر ایک بدبخت جنرل، مؤمن کے روپ میں اور نام نہاد اسلام کے نام پر تقریباً 11 سال پاکستان کے عوام کی گردن پہ سوار رہا۔ اس کے ہی دور سے پاکستان کے زوال کا سفر شروع ہوا لیکن حکمران ٹولہ اور اس کے ہمنوا ”سب ٹھیک ہے اور پاکستان اسلام کا قلع ہے“ کا راگ الاپتے رہے۔ پیارے پاکستان کی بنیاد ہلانے والے فیکٹرز کا آغاز ضیاء کے دور میں ہوا جس میں ”کافر“ روس کو افغانستان سے بھگانے کی ”پراکسی وار“ ہم نے لڑی، نتیجے میں ملک میں مذہبی انتہاپسندی اور نسل پرستی پروان چڑھی، منشیات اور ہتھیاروں کا سیلاب آیا۔

روس کے افغانستان سے نکلنے کے بعد بھی حالات پاکستان کے فیور میں نہیں ہوئے۔ اگر 1988 میں جنرل ضیاء کی فضائی موت نہ ہوتی تو شاید وہ تاحیات ”اسلامی خلیفہ“ بن کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے عوام کے گلے کا طوق بن جاتا۔ اس پراکسی وار کے نتیجے میں طالبان پورے پاکستان میں پھیل چکے اور پورے ملک میں دہشتگردی کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ جنوری 2001 کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان، 83 ہزار سے بھی زیادہ قیمتی جانوں کا نذرانہ دے چکا اور 126 ملین ڈالرز کا مالی نقصان بھی۔

یہ الگ بات ہے کہ ملک کی اعلیٰ ترین قیادت کے کچھ لوگوں کے حصے میں لاکھوں امریکی ڈالرز بھی آئے۔ سن 2000 سے 2022 تک سولہ ہزار سے بھی زیادہ دہشتگردی کے واقعات ہوئے، ہر واقعہ کے بعد ہمارے حکمران قوم کو تسلی دیتے رہے کہ ”دہشتگردوں کا قلعہ قمع کر دیں گے“ لیکن ہوا یہ کہ ”مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی“ اور پھر ان ناحق مارے گئے ہزاروں انسانوں کو شہادت کے رتبے میں لپیٹ کر، ان کے وارثوں کو جھوٹی تسلیاں دیتے رہے۔ ملک کے جتنے بھی مذہبی اور سیاسی لیڈرز، جو طالبان کے بالواسطہ یا بلاواسطہ حامی ہیں، ان کے بچے محفوظ ملکوں میں رہائش پذیر ہیں۔ وہ خود اور ان کی اولاد اس جہاد میں حصہ لے کر شہادت کا رتبہ اور ثواب کیوں نہیں حاصل کرتے؟

آرمی پبلک اسکول پشاور پہ کیے جانے والے حملے میں مارے جانے والے ایک بیٹے کی ماں نے دھاڑیں مارتے ہوئے کیا سچ کہا کہ ”میرا بیٹا شہید نہیں ہوا وہ کسی جہاد میں نہیں گیا، وہ پڑھنے گیا تھا اور ناحق مارا گیا ہے“

حقیقت یہ ہے کہ یہ سب کچھ ہمارے مفاد پرست حکمرانوں اور اعلیٰ ترین اداروں میں بیٹھے ہوئے کرپٹ ترین شخصیات کی ناقص اور غلط پالیسیوں کا نتیجہ ہے کہ ایک طرف ہمیں دہشتگردوں سے ہر وقت خطرہ لاحق ہے (جیسے حالیہ دنوں میں کراچی پولیس ہیڈ کواٹر پہ خونی حملہ ہوا) دوسری طرف اشرافیہ کلاس کی عیاشیوں، فضول خرچیوں اور میگا کرپشن نے ملک کو معاشی طور پہ کنگال کر دیا۔

حیرت کی بات یہ ہے کہ سب سے زیادہ محب وطن ہونے کے دعویدار لوگ، مدت ملازمت پوری ہونے کے بعد ایک منٹ بھی پاکستان میں نہیں رکتے کیونکہ انہوں نے پاکستان کو دونوں ہاتھوں سے نہیں بلکہ مشینوں کی مدد سے لوٹا ہے۔ ان کے اربوں ڈالرز بیرون ممالک میں پڑے ہیں۔ ان کے لئے یہ ملک بس ایک معاشی Hub ہے، لیکن ان کا اصل وطن، مڈل ایسٹ کے ممالک یا یورپین ممالک ہیں اس لئے وہ بالکل صحیح کہتے ہیں کہ ”ہمارے حوصلے بلند ہیں“ کیونکہ ان کے پاس بے پناہ لوٹی ہوئی دولت ہے اور ان کو ملک کے ڈوبنے یا عوام کے بے موت مرنے سے کوئی سروکار نہیں تو ان کے حوصلے کیوں پست ہوں گے ؟ حوصلے پست تو عوام کے ہو چکے جو خودکشی کرنے پہ مجبور ہو چکے ہیں!

ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کے جو فارمولے موجودہ حکومت اپنا رہی ہے وہ کینسر کے زخم پہ مرہم لگانے کے مترادف ہیں، علاج نہیں۔ اس کا علاج خالص سوشلسٹ معاشی نظام میں ہے جو کہ ہماری رولنگ کلاس اور اشرافیہ کلاس کو کسی بھی صورت میں قابل قبول نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments