آمرانہ ہتھکنڈے حالات کو مزید خراب کریں گے


گزشتہ روز عمران خان کی گرفتاری کے لئے لاہور میں کئی گھنٹوں پر محیط ’اسٹیج‘ کیے گئے ڈرامے کے بعد پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی نے چئیر مین تحریک انصاف کی تقاریر یا بیانات براہ راست یا ریکارڈ کر کے نشر کرنے پر فوری پابندی عائد کردی ہے۔ دوسری طرف پاکستان جمہوری تحریک کے صدر مولانا فضل الرحمان نے ایک پریس کانفرنس میں سوال اٹھایا ہے کہ موجودہ مالی بحران میں انتخابات کے لئے اربوں روپے کیسے فراہم کیے جا سکتے ہیں۔

پیمرا کا کہنا ہے کہ ’عمران خان اداروں کے خلاف بے بنیاد الزامات عائد کرتے ہیں اور اشتعال انگیز تقریروں سے ریاستی اداروں اور افسروں کے خلاف نفرت پھیلاتے ہیں۔ اس طرح امن و امان کی صورت حال خراب ہونے اور ملک میں انتشار کا خطرہ ہے‘ ۔ پیمرا کے بیان میں واضح کیا گیا ہے کہ ٹیلی ویژن نشریات میں ’ٹائم ڈیلے‘ طریقہ پر موثر طریقے سے عمل نہیں کیا گیا۔ اس لئے فوری طور سے عمران خان کی تقریر، بیان یا انٹرویو کو کسی بھی صورت میں نشر کرنے کی ممانعت کی جا رہی ہے۔

ملک کسی ایک فرد یا پارٹی کی وجہ سے موجودہ صورت حال تک نہیں پہنچا ہے بلکہ اختیار و اقتدار کے بے جا استعمال، بنیادی حقوق سے روگردانی اور آئینی تقاضوں کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے یہ حالات پیدا ہوئے ہیں۔ اب اظہار خیال اور آزادی اظہار پر اسی قسم کے ہتھکنڈوں سے پابندیاں عائد کر کے معاملات کو سنبھالنے کی کوشش کرنا احمقوں کی جنت میں رہنے کے مماثل ہو گا۔ تحریک انصاف نے اس پابندی کے خلاف عدالتوں سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ عین ممکن ہے کہ شہری آزادیوں کے حوالے سے آئینی ضمانتوں کو پیش رکھتے ہوئے کوئی بھی عدالت فوری طور پر ریلیف فراہم کردے۔ تاہم اگر ایسا نہ بھی ہوسکا تو بھی اب مواصلت اور عوام تک اپنی بات پہنچانے کے اتنے ذرائع موجود ہیں کہ کسی لیڈر کے خیالات کو پھیلنے سے روکنا ممکن نہیں ہے۔ البتہ مین اسٹریم میڈیا پر پابندی لگانے سے افواہ سازی میں اضافہ ہوتا ہے۔ یہ طریقہ انتشار اور بے چینی بڑھانے سبب بنتا ہے۔

لاہور کے زمان پارک میں عمران خان کو گرفتار کرنے کے لئے اتوار کے دن ڈرامہ رچایا گیا اور اس کے بعد عمران خان نے کارکنوں سے خطاب کے نام پر گرفتاری سے گریز کو اپنی ’بہادری‘ بنا کر پیش کیا۔ اس سے نہ تو عمران خان کی سیاسی شہرت کو کوئی فائدہ پہنچا اور نہ ہی حکومت وقت کی طرف سے ان کی زبان بندی کا مقصد حاصل ہوسکا ہے۔ وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کا یہ کہنا بجا ہو سکتا ہے کہ گزشتہ روز اسلام آباد پولیس، حکومت کی ہدایت پر نہیں بلکہ عدالتی حکم کی تعمیل میں زمان پارک عمران خان کو گرفتار کرنے پہنچی تھی۔ لیکن رانا ثنا اللہ اس سے پہلے متعدد بار اس ارادے کا اظہار کرچکے ہیں کہ وہ کسی بھی وقت اور کسی بھی طرح عمران خان کو گرفتار کرنا چاہتے ہیں۔ اسی پس منظر میں عمران خان کو بھی یہ اندیشہ لاحق ہے کہ اگر وہ اسلام آباد گئے تو موجودہ حکومت انہیں گرفتار کر لے گی۔ قد آور سیاسی لیڈر ہونے کے باوجود عمران خان گرفتاری سے خوفزدہ ہیں۔ حالانکہ قید و بند کسی بھی سیاست دان کی شہرت اور قدر و منزلت میں اضافہ کرتی ہے۔

تاہم عمران خان ہمیشہ گرفتاری سے خوفزدہ رہے ہیں۔ انہیں یہ گمان بھی رہا ہے کہ وہ مقبولیت کے اس منصب پر فائز ہیں کہ کوئی حکومت انہیں گرفتار نہیں کر سکتی۔ 2007 میں عدلیہ بحالی تحریک کے دوران جب پرویز مشرف نے ایمرجنسی عائد کی اور سیاسی رہنماؤں کی گرفتاریاں شروع کی گئیں تو عمران خان کی تلاش بھی شروع ہوئی۔ اس دوران گرفتاری سے بچنے کے لئے وہ لاہور کے مختلف مقامات پر روپوش رہے۔ تاہم اس موقع پر اسلامی جمعیت طلبہ فوجی آمر کے کام آئی اور انہیں پنجاب یونیورسٹی بلا کر زد و کوب بھی کیا گیا اور پولیس کے حوالے بھی کر دیا گیا جس کے بعد وہ ڈیر غازی خان میں چند دن زیر حراست رہے تھے۔ اس وقت عمران خان درجنوں مقدمات میں مطلوب ہیں لیکن عدالتوں میں حاضری کو ذاتی توہین سمجھتے ہیں۔ گزشتہ دنوں لاہور ہائی کورٹ کے اصرار پر حفاظتی ضمانت کے لئے جب عدالت کے روبرو پیش ہونے کی شرط عائد کی گئی تو وہ حامیوں کے ہجوم کے ہمراہ عدالت میں آئے تاکہ کوئی جج ان کی ضمانت سے ’انکار‘ نہ کرسکے۔

یہ رویہ اب بھی برقرار ہے۔ گزشتہ روز جب اسلام آباد کی ایک عدالت کے حکم پر ان کی گرفتاری کے لئے اسلام آباد پولیس کے اہل کار پہنچے تو فواد چوہدری نے فوری طور سے کارکنوں کو زمان پارک جمع ہونے کی ہدایت کی۔ وہاں جمع ہونے والے لوگوں نے پولیس کو روکنے کی کوشش بھی کی۔ تاہم کارکنوں کی کم تعداد کی وجہ سے یہ مقصد حاصل نہیں ہوسکا۔ اس پر تحریک انصاف کے لیڈروں نے پولیس کو رہائش گاہ تک آنے کا راستہ بنا کر دیا۔ تاہم پولیس سے کہا گیا کہ عمران خان رہائش گاہ پر موجود نہیں ہے۔ ایک سپرنٹنڈنٹ پولیس نے کمرے میں جاکر دیکھا لیکن عمران خان وہاں نہیں تھے۔ سینیٹر شبلی فراز نے وارنٹ گرفتاری موصول ہونے کی رسید دیتے ہوئے تحریری طور پر کہا کہ عمران خان دستیاب نہیں ہیں۔ لیکن تھوڑی ہی دیر بعد عمران خان زمان پارک میں جمع ہونے والے کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے حکومت، سابق آرمی چیف اور اداروں پر شعلے برسا رہے تھے۔ اس موقع پر انہوں نے دعویٰ کیا کہ ’میں زندگی میں کسی انسان کے سامنے جھکا، نہ آپ کو جھکنے دوں گا‘ ۔ ایک عدالت کے جاری وارنٹ کے خلاف دلیری کا یہ دعویٰ درحقیقت لاقانونیت کا پیغام ہے لیکن اپنی ذاتی حفاظت کے لئے عمران خان ہر قانون شکنی کو جائز سمجھتے ہیں۔ اگرچہ سیاسی طور سے ان کا نعرہ ہے کہ ملک میں نظام انصاف قائم ہونا چاہیے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ عمران خان کے قائم کردہ نظام انصاف میں کیا عمران خان کو ہر قانون اور عدالتی فیصلہ سے استثنا حاصل ہو گا؟

گزشتہ روز کی جانے والی شعلہ بار تقریر کے بعد ہی پیمرا نے عمران خان کی تقاریر و بیانات نشر کرنے پر پابندی عائد کی ہے۔ پیمرا کو آزادی رائے پر کنٹرول و پابندی کی بجائے اس کی حفاظت کرنے والا ادارہ ہونا چاہیے۔ لیکن بدقسمتی سے اسے مخالف آوازیں دبانے کے لئے حکومت کے آلہ کار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت میں بھی یہی طریقہ اختیار کیا گیا تھا اور اب پی ڈی ایم کی حکومت بھی انہیں ہتھکنڈوں کو بروئے کار لاکر اپنی گرتی ہوئی ساکھ اور ناکامیوں کو چھپانا چاہتی ہے۔ عمران خان کے دور میں نواز شریف کی تقاریر نشر کرنے پر پابندی عائد کی گئی تھی۔ کیا اس طریقے سے ان کی مقبولیت اور سیاسی اہمیت کو کم کیا جا سکا؟ یہ درست ہے کہ عمران خان سیاسی لب و لہجہ میں درشتی اور شدت بیان کو انتہا پر لے گئے ہیں لیکن اس طریقے کو مسترد کرنے کے لئے نہ تو خود بھی وہی طرز عمل اختیار کرنا مناسب ہو سکتا ہے اور نہ ہی ریاستی اختیار کے ذریعے ایک اہم سیاسی لیڈر کی آواز کو دبانے سے مطلوبہ نتائج حاصل ہوں گے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ حکومتی پارٹیاں متبادل سیاسی پروگرام سامنے لائیں اور سابقہ حکومتوں پر الزام تراشی اور پابندیوں کی بجائے عملی اقدامات سے اپنی اہلیت ثابت کریں۔

بدقسمتی سے موجودہ حکومت ایک طرف آزادی رائے کو سلب کرنے کے اقدام کر رہی ہے تو دوسری طرف انتخابات سے فرار کی خواہش رکھتی ہے۔ پنجاب اور خیبر پختون خوا اسمبلیاں تحلیل ہونے کے بعد آئینی طریقہ سے مقررہ مدت میں انتخابات کی سہولت کاری کی بجائے، اس میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کی کوششیں کی گئیں۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ آ جانے کے بعد اس کے بارے میں شبہات پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔ اور اب صدر مملکت کی طرف سے پنجاب میں 30 اپریل کو انتخاب منعقد کروانے کا اعلان ہونے کے باوجود کسی بھی طرح انہیں ٹالنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اتوار کو اسلام آباد میں مولانا فضل الرحمان کی پریس کانفرنس اس کا بین ثبوت ہے۔ مولانا نے ایک طرف سپریم کورٹ کے فیصلہ کو متنازعہ قرار دیا اور دوسری طرف ماضی میں فوجی حکومتوں کو ’آئینی اختیار‘ دینے کا حوالہ دیتے ہوئے سوال کیا کہ اب سپریم کورٹ کو اتنی کیا جلدی ہے۔ موجودہ معاشی حالات میں حکومت کیسے اربوں روپے انتخابات پر صرف کر سکتی ہے۔

کسی جمہوری حکومت کے ترجمان کو اپنا مقابلہ کسی فوجی آمر کے ہتھکنڈوں سے نہیں کرنا چاہیے اور نہ ہی یہ دلیل قابل قبول ہے کہ ماضی کی غلطیوں کا حوالہ دے کر عدلیہ سے وہی غلطیاں دہرانے کا مطالبہ کیا جائے۔ عمران خان سیاسی ضرورتوں کے تحت فوری انتخابات کا مطالبہ کرتے رہے ہیں۔ تاہم ملک اس وقت جس دوراہے پر کھڑا ہے، اس میں تنازعات سے نکلنے کے لئے اس سے مناسب کوئی دوسرا راستہ نہیں ہو سکتا۔ حکمران جماعتیں اگر تحریک انصاف کی کامیابی کے خوف سے انتخابات سے گریز کر رہی ہیں تو انہیں جمہوریت اور آئینی انتظام کے نام پر حکومت کرنے کا اختیار نہیں دیا جاسکتا۔ ہار جیت جمہوری عمل کا حصہ ہے۔ عوام کی اکثریت جس پارٹی کو ووٹ دے کر اکثریت دلواتی ہے، اسے ہی مقررہ مدت تک حکومت کا حق حاصل ہوتا ہے۔

اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ملک کو معاشی اور سکیورٹی کے حوالے سے شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ البتہ ان حالات کا سامنا کرنے کے لئے مرکز اور صوبوں میں ایسی حکومتیں قائم کرنا ضروری ہے جنہیں عوام کی تائید حاصل ہو۔ نگران حکومتیں یا عدم اعتماد کے بعد بدلی ہوئی پارلیمانی صورت حال میں قائم حکومت، ان مشکلات کا سامنا کرنے کی اہل نہیں ہے۔ بہتر ہو گا کہ پی ڈی ایم کی حکومت اس حوالے سے درست سمت میں قدم بڑھائے اور فیصلہ عوام کی صوابدید پر چھوڑ دیا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2764 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments