پنجاب’ کے پی انتخابات اور ملکی صورتحال!


سپریم کورٹ نے صوبہ پنجاب اور کے پی میں انتخابات کے معاملہ پر از خود نوٹس لیتے ہوئے فیصلہ سنایا ہے کہ دونوں صوبوں میں 90 روز میں انتخابات کروائے جائیں عدالت کے اکثریتی فیصلے کے مطابق پنجاب میں انتخابات کے لئے صدر مملکت کا تاریخ دینا درست اقدام ہے اور الیکشن کمیشن فوری طور پر صدر سے مشاورت کر کے انتخابات کی تاریخ تجویز کرے عدالت نے صوبہ خیبر پختونخوا کے گورنر کو بھی ہدایت کی ہے کہ وہ الیکشن کمیشن سے مشاورت کے بعد صوبے میں انتخابات کی تاریخ کا اعلان کریں۔

اب اعلیٰ عدلیہ کے حکم پر الیکشن کمیشن نے صدر مملکت عارف علوی کو اور گورنر کے پی کو ایک مراسلہ بھیجا کہ الیکشن کمیشن صوبہ پنجاب اور کے پی میں 30 اپریل سے 7 مئی 2023 ء کے دوران انتخابات کے لئے تیار ہے جس پر صدر مملکت نے تجویز کردہ تاریخوں پر غور کے بعد 30 اپریل کو پنجاب میں انتخابات کروانے کی منظوری دے دی ہے۔ پنجاب اور کے پی میں اسمبلیاں تحلیل ہونے کے بعد حکومتی حلقوں کے اندر سے یہ آوازیں بھی اٹھ رہی ہیں کہ دونوں صوبوں میں ضمنی الیکشن کروانے کی بجائے ملک میں عام انتخابات کے وقت ہی یہ انتخابات ہوں۔

سپریم کورٹ کے فیصلے کو حکومت اور پی ٹی آئی اپنی اپنی جیت قرار دے رہے ہیں پانچ رکنی بنچ کا فیصلہ یہی ہے کہ نوے دن کے اندر دونوں صوبوں میں انتخابات کروائے جائیں اور اس فیصلے کو تحریک انصاف اپنی جیت گردان رہی ہے دوسری جانب مسلم لیگ نون کا موقف ہے کہ یہ فیصلہ سات رکنی بنچ میں سے چار ججز نے ہمارے موقف کی تائید کی ہے سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کا ابتدائی ردعمل سامنے آیا ان کا کہنا تھا کہ ان کے خیال میں یہ پٹیشن تین دو کی اکثریت سے منظور نہیں ہوئی بلکہ چار تین کی اکثریت سے مسترد ہوئی ہے وفاقی وزیر قانون کے اس رد عمل پر ملک کے سیاسی و آئینی حلقوں میں ایک نئی بحث نے ابہام کو جنم دیا۔

سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد پاکستان تحریک انصاف نے جیل بھرو تحریک کی کال واپس لے لی اور ہائیکورٹ لاہور کے حکم پر جیل بھرو تحریک کے دوران گرفتار ہونے والے اسیروں کو رہائی بھی مل چکی ہے۔ عمران خان نے ڈاکٹرز کی جانب سے گرین سگنل ملنے کے بعد انتخابی مہم کا اعلان کر دیا ہے سوال یہ ہے کہ صدر عارف علوی کی جانب سے الیکشن کی تاریخ دینے کے بعد ایسا سیاسی ماحول نہیں بن سکا جس سے محسوس ہو کہ صوبہ پنجاب میں الیکشن کی تیاریاں شروع ہو چکی ہیں۔

یہ بات تو طے ہے کہ الیکشن کمیشن کے پاس تو اپنے پاس وسائل نہیں ہیں کہ وہ اعلیٰ عدلیہ کے حکم پر خود سے صوبہ میں الیکشن کروا سکے انتخابات کے لئے وزیر خزانہ سے رقم لینی ہو گی اور وزارت داخلہ سے سیکیورٹی کے لئے مدد درکار ہو گی اور آر اوز کے لئے بھی عملہ چاہیے اب صوبہ میں انتخابات کے لئے گیند وفاقی حکومت کی کورٹ میں پہنچ چکی ہے۔ اب نوے دن میں الیکشن کے اعلان کے بعد ماحول کیا بنے گا یہ بڑا دلچسپ ہے چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کہہ چکے ہیں کہ ایسی فضا بنائی جا رہی ہے کہ انتخابات نہ ہوں لیکن ہم انتخابات کے لئے تیار ہیں۔

آئین میں انتخابات کے لئے ساٹھ اور نوے دن کا وقت دیا گیا ہے اسمبلی کی تحلیل ہونے کے بعد نوے روز میں انتخابات ہونا لازم ہیں تحریک انصاف نے دونوں صوبائی اسمبلیاں تحلیل کر کے وفاقی حکومت پر جس انداز میں دباؤ بڑھایا اور ایسا ماحول بنانے کی بھر پور کوشش کی کہ ملک میں عام انتخابات کی راہ جلد ہموار ہو سکے دیکھنا یہ ہو گا کہ سب کی خواہش ہے کہ ملک میں جلد عام انتخابات ہوں اور ملک کا نظام ایک مستحکم حکومت چلائے تا کہ ملک بحرانوں سے نکل سکے۔

لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ ممکن ہے کہ ملک میں جلد عام انتخابات کا انعقاد ہو سکے اور کیا ملک سیاسی و آئینی بحران میں نئے انتخابات کا متحمل ہو سکے گا اس کے لئے زمینی حقائق کو پیش نظر رکھتے ہوئے تمام سیاسی اسٹیک ہولڈر کو مل بیٹھ کر معاملات آگے بڑھانے چاہیے تاکہ ملک مزید مسائل اور بحران سے بچ سکے۔ ملک میں اس وقت جو قہر کی مہنگائی ہے ان حالات نے عام آدمی پر عرصہ حیات تنگ کر کے رکھ دیا ہے دو وقت کی روٹی کے لئے عوام کو آٹے کے حصول کے لئے لائن میں لگا دیا ہے ملک کے معاملات چلانے کے لئے حکومت کے پاس پیسہ نہیں ہے معاشی صورتحال آخری ہچکیاں لے رہی ہے اور ملک غیر علانیہ طور پر ڈیفالٹ کر چکا ہے اور اگر حالات یوں ہی آگے بڑھتے رہے تو حکومت کی جانب سے ڈیفالٹ ہونے کی باقاعدہ رسم بھی ادا کر دی جائے گی۔

تو ایسے حالات میں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا کہ حالات کیا رخ اختیار کر جائیں گے ملک کے جو حالات ہوئے ہیں یہ عام آدمی کے لئے کیوں سزا بن چکے ہیں یہ سب کیا دھرا تو ملک کی تقدیر بدلنے والے دعویدار سیاستدانوں کا ہے ان حالات میں بھی ملک کے حالات سدھارنے کی بجائے ایک دوسرے پر کیچڑ اچھال کر عوام کو مزید بے وقوف بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اب حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ عوام کو شخصیت پرستی اور موروثی سیاست میں ووٹ کے ذریعے آخری کیل ٹھونکنی چاہیے تاکہ خاندانی سیاست اور شخصیت پرستی کا سحر ٹوٹ سکے ملک میں انتخابات وقت کی ضرورت ہے تاکہ عوام فیصلہ کرے کہ ملک کی باگ ڈور کس ہاتھ میں دینی ہے۔

ملک کے حالات اگر اتنے خراب ہیں تو اس بگاڑ کا سدباب بھی انہی سیاست دانوں نے کرنا ہے عام آدمی کے گرد مسائل کا اتنا انبار لگا دیا گیا ہے اگر فیصلہ کا اختیار بھی وقت پر عوام کو کرنے سے روکا گیا تو سیاسی اشرافیہ کو منہ چھپانے کی جگہ نہیں ملے گی۔ اب ریاست اور حکومت کو چاہیے کہ عوام کی خواہشات کا پاس کریں اور ملک میں انتخابات کروائے جائیں تاکہ انتخابات کے نتائج پر بننے والی حکومت ملکی مسائل اور معیشت کو دیکھے اور ملک میں سیاسی و معاشی استحکام آ سکے اگر مزید دیر کی گئی تو بہت سے معاملات حکومت کے ہاتھ سے ریت کی طرح پھسل جائیں گے اب وقت ہے کہ اپنی اناؤں ’ضد کے ہتھیاروں کو سرنگوں کر کے ملک و ملت کے سر پر منڈلاتے مسائل اور بحرانوں کو حل کیا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments