محسن نسواں اور یوم نسواں


آج یوم نسواں کے حوالے سے کچھ لکھنے کا ارادہ کیا تو یکایک ذہن میں محسن نسواں کا تصور نسواں آ گیا بس پھر کیا تھا ایک عجیب سرشاری سی کیفیت طاری ہو گئی میری ذاتی زندگی کا مرکز و محور بھی وہی ہیں میری ذات سے وابستہ تمام تر مثبت پہلو ان ہی کہ مرہون منت ہیں اور باعث وجود کائنات حضرت محمد مصطفی ﷺ کے شایان نشان نہ ہی الفاظ میرے پاس ہیں اور نہ ہی میری اتنی اوقات کہ ان کے مجھ پہ اور میری صنف پہ کیے گئے احسانات کا قرض ادا کر سکوں لیکن لکھنا بھی بہت ضروری ہے کہ آج ہم انسانی حقوق اور خاص طور پر خواتین کہ حقوق کے لئے زیادہ تر آوازوں کا منبع مغرب اور اہل مغرب ہی کو سمجھتے ہیں حالانکہ یہ تو میرے حضور اکرم ﷺ کا دیا ہوا شہرہ آفاق منشور ہے کہ جسے دنیا کا پہلا مکمل دستور ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے اور جس کا عملی نمو نہ ہمیں ان ﷺ کی تریسٹھ سالہ حیات مبارکہ ہر ہر لمحے میں نظر آتا ہے انہی محسوسات کے ساتھ ایک لکھاری کی حیثیت سے مجھ پر ادا قرض کا ادا کرنا ضروری تھا یوں تو رحمت اللعالمین ﷺ کے حوالے سے ان ﷺ کی حیات مبارکہ ہر ہر پہلو پر لاکھوں کتابیں اور مضامین لکھے جا چکے ہیں اور لکھے جاتے رہیں گے ایک مجھ جیسے عام اور چھوٹے سے لکھاری سے لے کر اعلی ترین مصنفین نے انﷺ پر عقیدت و احترام کے پھول نچھاور کیے ہیں اور کتنا حسین اتفاق ہے کہ نہ صرف مسلم مصنفین بلکہ غیر مسلم مصنفین کی بھی بڑی تعداد نے اپنے اپنے انداز سے حیات مبارکہ پر روشنی ڈالی ہے اور یہ سلسلہ یونہی چلتا رہے گا۔

آج یوم خواتین پہ میں صرف ان ﷺ کی شخصیت کے ایک پہلو پہ بات کروں گی اور وہ ہے محسن نسواں ہو نے کا اعزاز خالق کائنات نے جہاں تمام انبیا کرام کی تعلیمات کا نچوڑ آپ ﷺکی تعلیمات میں رکھ دیا وہیں ایک ایسے اعزاز سے آپﷺ کو نوازا کہ جو آپ ﷺ سے پہلے کسی کو بھی میسر نہیں تھا اور وہ ہے محسن نسواں ہے نے کا اعزاز بالشبہ وہ ہر لحاظ سے محسن انسانیت بھی ہیں آپ ﷺ کی شخصیت اپنے ہر ہر پہلو سے انسانیت بام عروج پر ہی نظر آتی ہے لیکن ایک ایسے معاشرے میں کہ جہاں بیٹی کو پیدا ہوتے ہی صرف اسی لیے دفن کر دیا جاتا کہ وہ بیٹی ہے اور وہ اپنے باپ کے لئے باعث ندامت ہے، جہاں عورت کو اپنی حقیر ترین شے سمجھا جاتا، غیر متوازن اور غیر انسانی رویوں کا شکار عورت کو وہ مقام اور مرتبہ آپﷺ نے عطا فرمایا کہ ماں کی صورت میں اس کے قدموں تلے جنت رکھ دی گئی اور مردوں پر سب سے زیادہ حق رکھنے کا اعزاز بھی ماں ہی کے حصے میں آیا، اور وراثت میں حصہ دار قرار دی گئی اپنی ہر حیثیت میں چاہے وہ ماں ہو، بیٹی ہو، بیوی ہو، یا بہن۔

آپ ﷺ ہی کے طفیل چشم فلک نے مناظر بھی کئی با ر دیکھے کہ ایک باپ اپنی بیٹی کی توقیر اور احترام میں کھڑے ہو جایا کرتے، سفر جانے سے پہلے اپنی بیٹی سے مل کہ جایا کرتے اور واپسی پر بھی ان سے جا کر ملا کرتے یہ محبت و احترام آپ ﷺ سے پہلے کسی نے ایک عورت، ایک بیٹی کو نہ دیا تھا آپ ﷺ نے شوہر کی حیثیت سے اپنی خانگی ذمہ داریوں میں بھی مثال قائم کی کبھی کسی ازواج مطہرات پر کسی طرح کا حکم و زبردستی کی کوئی صورت نہیں نظر آتی اسلام کی تعلیمات پر عمل ضرور کروایا اور بے شک بہترین انداز میں کروایا لیکن انداز وہی اپنایا کہ جو اخلاق کا انتہائی معیار ہے۔ اپنے کردار و عمل سے وہ کچھ ممکن کر دکھا یا جس کا گمان بھی ایک نا قابل معافی جرم تھا عورت کی اس طرح توقیر و احترام کرنا عام بات نہ تھی لیکن عملی نمونہ اس انداز سے پیش کیا گیا کہ نہ کسی کی حق تلفی ہوئی نہ ہی احساس کمتری میں مبتلا کیا گیا۔

عورت کو مردوں کے شانہ بشانہ لانے کے لئے جو کچھ آقائے دو جہاں ﷺ کر دکھایا اس پہلے اس کا تصور بھی نہ ممکن تھا دوران جنگ جنگی قیدیوں کے لئے دی جانے والی خدمات کے صلے حضرت رفیدہ کی حوصلہ افزائی کرنا ایک پیشے کی نرسنگ کی بنیاد رکھنا ہی تو تھا۔ حضرت عائشہ ؓ کو دینی اور احادیث کا علم دینا اور اتنا ماہر کر دینا کہ اپنے دور کے امیر المومنین حضرت عمر فاروق ؓ بھی آپؓ سے مشورہ لیا کرتے یہ ایک اور پیشے تدریس اور ماہر علوم کی بنیاد فراہم کرنا ہی تو تھا، اور پھر اتنے بڑے منصب پر فائز ہوتے ہوئے حضرت خدیجہ ؓ کے سامان تجارت کو فروخت کرنا یہ ایک الگ پیغام دیتا ہے کہ عورت کے ماتحت بھی کام یا روزگار ملے تو کیا جانا چاہیے میں کس کس احسان کا ذکر کروں پھر اسی سفر میں پنہا ایک اور پیغام کہ عورت بھی اپنی پسند نہ پسند کا اظہار کر سکتی ہے کیونکہ وہ بھی ایک مکمل انسان ہے حضرت خدیجہ کے بھیجے گئے شادی کے پیغام کو قبول کرنا اور عورت کی پسند کو عزت دینا بھی آپﷺ ہی کے طفیل ممکن ہوا یہ تو کچھ واقعات ہیں کہ جو میں نے ذکر کیے آپ ﷺ کی حیات مبارکہ ایسی ہی ان گنت واقعات سے پر ہے کہ جس میں آپ ﷺ نے انسانیت اور بالخصوص خواتین پر احسانات کیے ان کے لئے وہ در وا کیے جس کا تصور آج کی جدید دنیا میں بھی ممکن نہیں تھا میرے ناقص عقل اور کم علم کے پاس وہ الفاظ نہیں کہ اپنے محسوسات و جذبات جو قلم بند کر سکوں یہ بے وزن سی تحریر آپ ﷺ کے بیش بہا احسانات کا احاطہ تو دور کی بات ان کا ذکر بھی مناسب انداز سے نہیں کر سکے گی ایک احساس سرشاری ہے کہ ان کے نام لیوا ہیں تو دوسرا احساس ندامت ہے کہ ان کا پیغام آنا خود سمجھ کر عمل کر رہے ہیں اور نہ ہی پنی آنے والی نسلوں تک پہنچانے کی ذمہ داری ادا کر پا رہے ہیں اسی احساس سے کئی بار آنکھیں اشکبار بھی ہوئیں اس یوم خواتین پر اپنے حوالے اس بات کا تہیہ ضرور کرتے ہیں کہ ہر وہ مثبت پہلو، ذکر، بات عمل میں پیش پیش رہیں گے کہ جس میں عورت کی فلاح و کامیابی ہے کہ بے شک محسن نسواں ﷺ کا پیغام بھی یہی ہے جسے آج اقوام عالم خواتین کے حقوق سے تعبیر کرتے ہیں جو کہ ڈیڑھ ہزار سال قبل ہمیں ہادی اسلام ﷺ دے چکے ہیں ضرورت اسے سمجھنے اور اپنانے کی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments