ایک بہشت نما جزیرہ جو ہیروئن کی گرفت میں ہے


سیشلز، ہیروئن
مشرقی افریقہ کے ٹراپیکل جزائر والے ملک سیشلز کی حکومت کا کہنا ہے کہ مقامی آبادی کے تقریباً 10 فیصد لوگ ہیروئن پر منحصر ہیں جو کہ اب ایک وبا کی صورت اختیار کرچکی ہے۔

یہاں تک کہ قید و بند کی سزا سے بھی منشیات پر انحصار کرنے والوں پر کوئی فرق پڑتا دکھائی نہیں دیتا ہے۔ بی بی سی افریقہ آئی نے مرکزی جیل تک نایاب رسائی حاصل کی تاکہ اس مسئلے کے انجام کا مشاہدہ کیا جا سکے جو کہ ملک کو تیزی سے اپنی گرفت میں لے رہا ہے۔

ایک پہاڑی چوٹی پر واقع بحر ہند کے خوبصورت نظاروں سے گھرے سیشلز کے مونٹین پوسی جیل میں منشیات سے چھٹکارے کی اہم سہولیات موجود ہیں۔

سیشلز تضادات سے بھرا ہوا ایک ملک ہے، لیکن پھر بھی ان دلکش نظاروں کے اندر جو کچھ موجود ہے اس کے ساتھ ہم آہنگ ہونا مشکل ہے۔

اس جگہ کے داخلی دروازے پر جہاں قیدیوں کو رکھا گیا ہے وہاں متعدد بند دروازوں سے گزرنے اور میلوں تک خار دار تاروں کا فاصلہ طے کرنے کے بعد پہنچ سکتے ہیں۔ وہاں دفتر کے بلاک کی دیوار پر نیلسن منڈیلا کی چار میٹر اونچی تصویر (مورال) پینٹ ہے۔

جنوبی افریقہ کے آنجہانی صدر کے مسکراتے چہرے کے ساتھ، جو کہ خود ایک قیدی رہے تھے، ایک قول ‘کہا جاتا ہے کہ کوئی بھی کسی ملک کو اس وقت تک نہیں جان سکتا جب تک کہ وہ اس کی جیلوں میں نہ رہا ہو’ لکھا ہوا ہے۔

اور بہت حد تک یہ سچ ہے یہ جیل اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ سیشلز میں اس کی لگژری فائیو اسٹار برانڈنگ سے ماورا کیا ہو رہا ہے۔

ہم یہاں ایک قیدی جوڈ جین سے ملنے آئے ہیں۔ لیکن بی بی سی کی ٹیم کو سب سے پہلے وہاں لے جایا جاتا ہے جو قیدیوں کے مطابق دیکھنے والوں کے لیے ایک شو سیل ہے۔ یہ صاف لیکن تنگ ہے۔

یہاں آٹھ بستر لگے ہیں، ایک طرف چار اور دوسری طرف چار اور ایک کے اوپر ایک اس طرح سے کہ اس پر سیدھا بیٹھنے کی بھی جگہ نہیں ہے۔ اسی کمرے میں ٹوائلٹ اور شاور ہے، پرائیویسی کوئی چیز نہیں ہے۔

پاس ہی گندے اور خستہ حال کچن ہیں۔ سڑتی ہوئی مچھلیوں کی آلائش نے نالیاں بند کر رکھی ہیں، وہاں بہت زیادہ بدبو ہے لیکن مکھیاں دعوت کا مزہ اڑا رہی ہیں۔

اور پھر مرکزی سیل بلاک ہے۔ وہان اندھیرا چھایا ہوا ہے۔ ابھی دوپہر کی ابتدا کا وقت ہے لیکن وہاں دن کی کوئی روشنی نہیں ہے، قریبی راہداری میں چھوٹے بلب سے کمزور سی روشنی بکھر رہی ہے۔

قیدیوں نے اپنے کھلے سامنے والے سیلوں کی سلاخوں کے پیچھے پرائیویسی کے لیے گتے کے ڈبوں کا استعمال کیا ہوا ہے۔ ان میں سے کچھ سیل اتنے چھوٹے ہیں کہ وہ پنجروں کی طرح نظر آتے ہیں اور فرش پر گندے گدے پڑے ہیں۔

ہیروئن کا مسئلہ بھی اندھیرے میں چھپا ہوا ہے کیونکہ کلاس اے کی منشیات کا ان سیلوں میں گزر ہے۔

باہر جو کچھ ہو رہا ہے اس سے جیل کوئی تحفظ فراہم نہیں کرتا۔

سیشلز کو اس کا سامنا ہے جو اب ایک وبا کا روپ اختیار کر چکا ہے۔

ایک اندازے کے مطابق سیشلر کی 10 فیصد آبادی ہیروئن سے متاثر ہے۔ اس کا اثر اتنا ہے کہ غیر ملکی کارکنوں کو وہ کام کرنے کے لیے لانا پڑتا ہے جو منشیات کے عادی مقامی لوگ نہیں کر سکتے۔

تنزانیہ کے محافظوں کو جیل میں بدعنوانی اور سیلوں میں ہیروئن کے بہاؤ کو روکنے کے لیے لایا گیا ہے اور انھیں باری باری وہاں تعینات کیا جاتا ہے لیکن یہ بھی کارگر نہیں ہے۔

سیشلز، ہیروئن

کرپشن، منشیات اور جیل

یہاں تک کہ صدر ویول رامکلاون بھی تسلیم کرتے ہیں کہ جیل اس مقصد کے حصول کے لیے موزوں نہیں ہے۔

انھون نے دارالحکومت وکٹوریہ کے اسٹیٹ ہاؤس سے بی بی سی کو بتایا: ‘جب آپ کے یہاں ایسی گڑبڑ ہو تو یہ افسران کی جانب سے بدعنوانی کی پھیلاؤ کا مرکز بن جاتا ہے۔’ انھوں نے مزید کہا کہ وہ ایک نئی جیل بنانے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔

وہ تسلیم کرتے ہیں کہ ‘منشیات کی صورتحال بہت خراب ہے۔’

‘اس وقت جہاں تک قی کس ہیروئن کی کھپت کا تعلق ہے، سیشلز دنیا میں پہلے نمبر پر ہے۔ اور یہ کوئی ایسا اعداد و شمار نہیں ہے جس سے مجھے ذاتی طور پر کوئی خوشی ہو۔’

یہ جیل میں ملاقاتیوں کے آنے کا دن ہے اور جوڈ جو چوری کے الزام میں ماخوذ ہیں وہ اپنی ماں کے منتظر ہیں۔

ملاقاتی کمرہ باہر ہے، جہان کنکریٹ کا صحن ہے جس کے چاروں طرف پلاسٹک کے فرنیچر کے ساتھ تاروں کی باڑ لگی ہوئی ہے۔

جوڈ پیارا، گرمجوش، دوستانہ، پر اعتماد اور شائستہ ہے۔ وہ بھی منشیات کا عادی ہے۔

اس نے ہمیں بتایا: ‘مجھے یہ کہتے ہوئے شرم آتی ہے لیکن آپ جانتے ہیں، میں بھی اس کا عادی ہوں۔ اور یہ آسان نہیں ہے۔’

آج جب وہ اپنی نشست پر بیٹھا ہوا ہے تو اس کی پلکیں اس کے لیے بوجھل ہو رہی ہیں۔ جیل میں ہونے کے باوجود، وہ اس صبح اپنی ہیروئن کا انتظام کرنے میں کامیاب رہا ہے اور کچھ حصہ لیا بھی ہے۔

جوڈ ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے جیل کے اندر اور باہر آتے جاتے رہے ہیں، زیادہ تر اپنی لت کو پورا کرنے کے لیے چوری کی وجہ سے جیل جاتے رہے ہیں۔

ان کی ماں روینیا کو اس کے ساتھ ساتھ ایک اور خوفناک سانحہ کا سامنا کرنا پڑا۔

وہ ایک گول مٹول خاتون ہیں۔ ان کی مسکراہٹ کمرے کو روشن کر دیتی ہے اور ان کی ہنسی زندہ دلی سے پر ہے۔

انھوں نے اپنے چار بچوں کی پرورش اور انھیں اچھی زندگی دینے کے لیے سخت محنت کی ہے۔ اور اس کے لیے وہ ایک فاسٹ فوڈ آؤٹ لیٹ چلاتی رہی ہیں۔

لیکن ہیروئن نے ان سے وہ سب کچھ چھین لیا۔

سنہ 2011 میں روینیا کا بڑا بیٹا ٹونی پھندے سے لٹکا پایا گیا تھا۔ اس کی موت آج تک ایک معمہ بنی ہوئی ہے، لیکن ٹونی بہت زیادہ ہیروئن کا عادی تھا اور اس کی موت کا اس سے کوئی نہ کوئی رشتہ ضرور ہے۔ ماں کو یقین نہیں آتا کہ ان کے بیٹے نے اپنی جان لے لی۔

جب وہ اس کے بارے میں بولنے لگیں تو ایسا لگا کہ لاکھوں میل دور کہیں دیکھ رہی ہیں اور ان کے چہرے پر اداسی اور الجھن ظاہر ہے۔

سیشلز، ہیروئن

'ماں، مضبوط بنو'

آج تک وہ اس بات پر حیران ہیں کہ ان کے ایک نہیں بلکہ دو بیٹے اس راستے پر کیسے چلے گئے۔

وہ کہتی ہیں: ‘اگرچہ آپ مجھے اپنے آپ کو مورد الزام نہ ٹھہرانے کو بھی کہیں، تو بھی مجھے خود کو قصوروار ٹھہرانا پڑے گا۔’ اور ملک بھر میں بہت سی مائیں ایسا ہی محسوس کرتی ہیں۔

روینیا جب جوڈ کو دیکھتی ہین تو ان کا موڈ اچھا ہوجاتا ہے اور چہرے پر مسکراہٹ پھیل جاتی ہے۔

وہ اپنے بیٹے کو مضبوطی سے گلے لگاتے ہوئے کہتی ہیں: ‘میرے بیٹے، میں تمہیں دیکھ کر خوش ہوں۔’

جوڈ بھی ان سے کہتا ہے: ‘میں بھی آپ کو دیکھ کر خوش ہوں، ماں۔’

جب وہ بیٹھ جاتے ہیں تو وہ ہمیں بتاتی ہیں: ‘آپ جانتے ہیں کہ ہم بات کرتے ہیں، حالانکہ میں جانتی ہوں کہ وہ کبھی کبھی مجھ سے جھوٹ بولتا ہے، ہم بات کرتے ہیں، کیونکہ ہم دوست ہیں!’

لیکن پھر تناؤ جلد ہی ظاہر ہونے لگتا ہے۔ جب وہ پھوٹ کر رونے لگتی ہے تو جوڈ اپنے آنسو پونچھتا ہے، اور ان سے کہتا ہے: ‘مضبوط بنو، ماں، مضبوط بنو۔’

اور وہ مضبوط ہے۔

وہ جوڈ کے لیے چٹان کی طرح ہے اور آپ دیکھ سکتے ہیں کہ اس کے لیے وہ کیا اہمیت رکھتی ہے۔ لیکن کئی سالوں میں اس نے اپنی والدہ کو آزمایا ہے۔

وہ بتاتی ہیں ’آج کل ہمارے پاس کچھ بھی نہیں ہے کیونکہ سب ختم ہو چکا ہے۔ یہاں تک کہ اس نے میری چیک بک بھی لے لی اور چیک لکھنا شروع کر دیا۔‘

’اس نے سب کچھ لے لیا۔۔۔ مجھے یاد ہے کہ ایک بار ہمارے پاس چادریں بھی نہیں تھیں۔ جو کچھ اسے نظر آیا اس نے اٹھا لیا اور منشیات کے لیے اسے بیچ دیا۔‘

جوڈ جب پہلی بار جیل گیا تو روینیا کو قدرے راحت ملی، لیکن اس کی یہ راحت بہت کم وقت کے لیے تھی۔ وہ کہتی ہیں کہ انھیں ایسا لگا جیسے انھوں نے اسے ’مجرموں کے سکول‘ میں بھیجا ہو۔

سیشلز، ہیروئن

بدلنے کا وعدہ

جب وہ جیل کے اندر تھے تو روینیا کو اپنے بیٹے کی منشیات کی عادت کو پورا کرنے کے لیے پیسہ دینا ہوتا تھا کیونکہ وہ ’قرض پر منشیات لے رہا تھا۔‘

وہ کہتی ہیں کہ انھیں اس کی ’ادائیگی کرنی پڑا کیونکہ وہ لوگ پیسے مانگتے اور دھمکیاں دیتے۔ پھر جوڈ نے ہی ان سے کہا کہ میرے والدین کے پاس جاؤ، وہ میرا خرچہ اٹھائیں گے۔

’وہ آپ کو دھمکیاں دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ وہ اسے مار ڈالیں گے۔‘

جوڈ کے لیے یہ کوئی راز نہیں کہ وہ کتنے خوش قسمت ہیں کہ ان کے پاس ایسی ماں ہے۔

’آپ کا شکریہ، ماں، ہمیشہ ہمارا ساتھ دینے کے لیے، ایک دن میں ایک بہتر انسان بنوں گا، میں ایک بہتر انسان بننا چاہتا ہوں۔‘

روینیا اپنے آنسوؤں کے درمیان ان سے کہتی ہیں: ’اس پہلے کے دیر ہو جائے یہ کر لو۔‘

جوڈ نے اپنی ماں سے وعدہ کیا کہ وہ بدلےگا۔ انھیں اس کے وعدے پر یقین نہیں ہے لیکن وہ اسے چھوڑ نہیں سکتیں۔

جیل منشیات سے چھٹکارے کے لیے اچھی جگہ نہیں ہے لیکن اسے چھوڑنا ناممکن بھی نہیں ہے۔ اس کے لیے میتھاڈون پروگرام ہے، جسے ہیروئن پر انحصار کے علاج کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے، اور کچھ کونسلنگ سیشنز بھی ہیں لیکن جوڈ کو اس کے لیے تیار ہونا ہوگا۔

سیشلز، ہیروئن

صارفین کے لیے جیل کے باہر بھی میتھاڈون دستیاب ہے۔ اندراج کے بعد یہ ہر کسی کے لیے مفت ہے، اس سے وبا کی وسعت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

وکٹوریا میں ہر صبح ایک سفید وین شہر کے کئی چکر لگاتی ہے جس کے سامنے لوگ قطار لگا کر دوا لینے کا انتظار کرتے ہیں۔

حیرانی کی بات یہ ہے کہ ہیروئن سے متاثرہ قوم کے پاس صرف میتھاڈون کی شکل میں مسلسل دستیاب دوا ہے۔

سیشلز کے کئی شہریوں کے لیے یہ صبح کی خوراک ہے جو کہ کافی خطرناک ہے۔ میتھاڈون اور ہیروئن کے میلاپ سے جان لیوا اوور ڈوس ہوسکتا ہے۔

اگر طویل مدتی حل کے اعتبار سے دیکھا جائے تو بغیر کسی منصوبے اور کونسلنگ کے میتھاڈون لینا کوئی اچھا راستہ نہیں۔ اس کے باوجود سیاسی فیصلوں کی وجہ سے تمام جزائر میں رہائشی بحالی مراکز بند کر دیے گئے ہیں۔

صدر، جو دو سال سے برسر اقتدار ہیں، مریضوں کے لیے بہتر سہولیات نہ ہونے پر اپنے پیشرو کو قصوروار ٹھہراتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ گذشتہ انتظامیہ اپنی سیاست کی وجہ سے اس مسئلے سے نمٹ نہ پائی۔

رامکلاون کہتے ہیں کہ ’ہمیں متحدہ عرب امارات سے گرانٹ ملی ہے تاکہ بہتر بحالی مرکز تعمیر کر سکیں۔ اور ہم اسی راہ پر چل رہے ہیں۔‘

منشیات

منشیاب کی گھریلو صنعت

سیشلز میں اکثر ہیروئن سمندری راستے سے کشتیوں پر افغانستان اور ایران سے آتی ہے اور سمندری سرحد وسیع ہونے کے ساتھ ساتھ غیر محفوظ ہے۔ قریب 10 لاکھ مربع کلو میٹر کی سمندری راستے موجود ہونے کی بنا پر سمگلر باآسانی رسائی حاصل کر لیتے ہیں۔

ایک بار جزیرے پر پہنچنے پر اسے چھوٹی دکانوں میں فروخت کیا جاتا ہے جو کہ ملک کی کچی آبادیوں میں بنی ہیں۔

یہ بنیادی طور پر چھوٹی گھریلو صنعت ہے جس میں پوری پوری برادریاں ملوث ہوتی ہیں۔

مرکزی شاہراہوں، بڑے ہوٹلوں اور مہنگے ریستورانوں سے دور آپ ان کچی آبادیوں کو خود دیکھ سکتے ہیں۔ منشیات ہر طرف ہیں جبکہ ڈر اس بات ہے کہ آگے حالات مزید خراب ہوسکتے ہیں۔

ہیروئن منشیات میں سر فہرست ہے کیونکہ یہ قدرے سستی ہے۔ مگر دوسری منشیات بھی مارکیٹ میں باآسانی دستیاب ہیں۔

کوکین اور میتھ دونوں کا استعمال آہستہ آہستہ بڑھ رہا ہے۔ ان دونوں کا علاج میتھاڈون سے ممکن بھی نہیں۔

جیل میں بند جوڈ، جنھیں چند روز قبل ان کی والدہ ملنے آئی تھیں، نے اپنے وعدے پر قائم رہنے اور بحالی کے راستے پر چلنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔

وہ خود کو جیل کے میتھاڈون پروگرام میں درج کرانا چاہتے ہیں لیکن ہر کوئی اس کے لیے اہل نہیں۔

جوڈ بظاہر نشے میں دھت جیل کے طبی مرکز آتے ہیں۔ جب نرس ہیروئن کی تشخیص کے لیے ان کا پیشاب ٹیسٹ کرتی ہے تو یہ مثبت آتا ہے اور اس پر انھیں کوئی حیرانی نہیں ہوتی۔

انھیں کہا جاتا ہے کہ میتھاڈون پروگرام میں اندراج کے لیے انھیں ہیروئن کو مکمل ترک کرنا ہوگا۔ وہ مان جاتے ہیں۔

اگلے دن دوسرے قیدیوں کے ساتھ قطار میں لگ کر وہ دوا کی پہلی خوراک حاصل کرتے ہیں۔

جوڈ کا اندراج کونسلنگ پروگرام میں بھی کیا گیا ہے تاکہ ان کی زندگی بچانے کی بھرپور کوشش کی جائے۔

ان کی والدہ روینیا اتنی پُرامید نہیں۔ وہ کئی بار مایوس ہوچکی ہیں مگر وہ دعا گو ہیں کہ اس بار ان کا بیٹا اس لت سے نکل جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32292 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments