امرود کی مہک



کوئی 30 / برس پہلے کی پڑھی ہوئی ایک تحریر جس کا عنوان بار بار یاد آتا ہے : امرود کی مہک۔ یہ عنوان مجھ کو کیوں یاد آتا ہے، یہ بات ذرا بعد میں پہلے یہ دیکھیے کہ یہ کیسا عنوان ہے! کچھ عجیب سا تو ہے مگر خاصا دلکش اور مانوس بھی ہے۔ پہلی خاص بات اس عنوان کی یہی سامنے آ گئی ہے کہ اس نے فوراً آپ کی توجہ اپنی طرف مرکوز کروا لی اور آپ اس کے متعلق سوچنے لگے۔ اب دوسری باتیں بھی سنیے۔ پاکستان سے ”آج“ نام کا ایک ادبی رسالہ نکلتا ہے۔ اس رسالے میں اردو تحریروں کے ساتھ ہی دوسری زبانوں کی تحریروں کے عمدہ اردو ترجمے بھی شامل ہوتے ہیں۔ 1991 میں ”آج“ کا ایک خصوصی شمارہ نکلا جو لاطینی امریکی مصنف گابرئیل گارسیا مارکیز سے مخصوص تھا۔ اس وقت مجھ کو خیر سے یہ معلوم بھی نہیں تھا کہ لاطینی امریکہ کا جغرافیائی، تاریخی، اور سیاسی پس منظر میں مطلب کیا بنتا ہے۔ مگر اس سے میرا ایسا کوئی نقصان نہیں ہوا کیونکہ اس خصوصی شمارے کے 500 صفحوں میں گارسیا مارکیز کی تمام تحریریں مجھ کو بہت پسند آئی تھیں جن میں ایک تحریر ”امرود کی مہک“ کے عنوان سے بھی شامل تھی۔

پھر قریب 20 برس کے بعد ایک لاطینی امریکی ریسرچ اسکالر سے لکھنؤ میں میری ملاقات ہوئی تو گفتگو کے دوران گارسیا مارکیز کا ذکر نکلا تو ان ریسرچ اسکالر صاحبہ نے بتایا کہ گارسیا مارکیز ان کے پسندیدہ مصنفوں میں سے ہیں اور ان کی تقریباً تمام کہانیاں اور ناولیں وہ اصل اسپینش زبان میں پڑھ چکی ہیں۔ جیسا کہ آپ کو معلوم ہے کہ گارسیا مارکیز اصلاً اسپینش زبان میں لکھتے تھے۔ میں نے ”آج“ رسالے میں ان کی جو تحریریں پڑھی تھیں وہ سب اسپینش سے انگریزی میں منتقل ہوئی تحریروں کا اردو ترجمہ تھیں۔ میں نے ان اسکالر صاحبہ سے یہ بھی دریافت کیا کہ ”آج“ کے خصوصی شمارے میں ایک تحریر کا عنوان ”امرود کی مہک“ تھا، اس کا کیا بھید ہے؟ اس پر انھوں نے خاصی گرم جوشی سے بتایا کہ گارسیا مارکیز کی دنیا کے امرودوں کی خوشبو بہت تیز ہوتی ہے، اگر گھر میں کہیں امرود رکھے ہیں تو پورا گھر اس کی خوشبو سے بھر جاتا ہے۔ ہندوستانی امرود کے مقابلے میں یہ امرود چھوٹے چھوٹے اور گول ہوتے ہیں اور لوگ پوری طرح سے پکے ہوئے امرود ہی کھاتے ہیں۔ دکان پر سڑک پر امرود کی خوشبو بہت نمایاں رہتی ہے۔ انھوں نے بتایا کہ ان کی دنیا میں عموماً ریستوران میں سادہ پانی نہیں دیا جاتا بلکہ پھلوں کا مزیدار پانی دینے کا جو رواج ہے اس میں امرود کا پانی بھی شامل ہے۔ پھر ان ریسرچ اسکالر صاحبہ کی اس آخری بات نے تو مجھ کو خاصا چونکا سا دیا کہ گارسیا مارکیز ان کے ہی شہر میں رہتے ہیں یعنی میکسیکو سٹی میں۔ لاطینی امریکہ سے ناواقفیت کی طرح ہی میکسیکو اور میکسیکو سٹی سے بھی میں پوری طرح ناواقف تھا۔ مگر خیر اس سے بھی میرا کوئی نقصان نہیں ہوا کیونکہ مجھ کو گارسیا مارکیز کی تحریریں جن وجہوں سے پسند آئی تھیں وہ تمام وجہیں گارسیا مارکیز کے شہر سے تعلق رکھنے والی ان اسکالر صاحبہ کے نزدیک معقول وجہیں تھیں۔

خیر پھر کرنی کچھ ایسی ہوئی کہ چند برس کے بعد جب میں میکسیکو سٹی پہنچا تو میں نے وہاں کے امرود دیکھے۔ واقعی ان کی خوشبو اپنے یہاں کے امرودوں کی خوشبو سے بہت تیز تھی۔ بازار میں بالکل پکے ہوئے امرود ہی مل رہے تھے، ہلکے سے کچے جن کو ہم لوگ گدر امرود کہتے ہیں وہ وہاں دکھائی نہیں دیے۔ دکانوں میں تازے تازے امرود رکھے ہوئے تھے اور پوری دکان ان کی خوشبو میں بسی ہوئی تھی۔ وہ خوشبو سونگھتے ہی مجھ کو گابرئیل گارسیا مارکیز کی تحریر ”امرود کی مہک“ یاد آ گئی تھی۔

اب میکسیکو سے میرا کچھ ایسا رشتہ ہو چکا ہے کہ ہر سال وہاں جانا ہوتا ہے اور اب مجھ کو لاطینی امریکہ بھی کچھ کچھ سمجھ میں آنے لگا ہے اور یہ بھی کہ اسپین کی اسپینش زبان اور میکسیکو کی اسپینش زبان و ادب کیا ہے۔

بظاہر ”امرود“ لفظ ایسا کوئی لفظ معلوم نہیں ہوتا کہ اس کا اثر 30 برس تک قائم رہے مگر یہاں ایسا نہیں ہو رہا ہے۔ آج بھی جب میں میکسیکو میں امرود کی خوشبو سونگھتا ہوں تو گارسیا مارکیز کی تحریر یاد آ جاتی ہے۔ آپ نے اکثر اس قسم کی بحثیں سنی ہوں گی کہ لفظ کی اپنی قوت ہوتی ہے یا اس لفظ کے استعمال سے اس میں قوت پیدا ہوتی ہے۔ میرے خیال میں ہر لفظ اہم ہے اور اس کی قوت کو پہچاننا اور اس کا استعمال کرنا ایک فن ہے۔ اس کی مثال کے لیے گابرئیل گارسیا مارکیز جیسے عالمی شہرت یافتہ لفظوں کے فنکار کی تحریر کا یہ عنوان پیش کرنا کافی ہو گا: امرود کی مہک۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments