سوشل میڈیا پر ’بیوٹی فلٹرز‘ کہیں آپ کو احساس کمتری میں مبتلا تو نہیں کر رہے


ٹک ٹاک
جب میں نے پہلی مرتبہ ’بیوٹی فلٹر‘ کا استعمال کیا تو میرے پہلے ردعمل میں سے ایک یہ تھا کہ اس سے سب کے لیے (بہتر نظر آنے کے) یکساں مواقع پیدا ہو گئے ہیں۔

بیوٹی فلٹر دراصل آپ کی ظاہری شکل کو ’بہتر‘ بنانے کے لیے استعمال کی جانے والی ٹیکنالوجی ہے جو اب سوشل پلیٹ فارمز جیسا کہ انسٹاگرام، سنیپ چیٹ اور ٹک ٹاک پر کافی مقبول ہے۔

کورونا کی عالمی وبا سے پہلے میں عام طور پر باہر جانے سے پہلے تھوڑا بہت میک اپ کرتی تھی۔ میک اپ کرنے سے مجھے یہ احساس ہوتا تھا کہ میں زیادہ پرکشش ہو گئی ہوں۔ جب میں ہلکا سا مسکارا لگا کر باہر نکلتی تو لوگ، جس طرح میرے ساتھ پیش آتے اُس سے میرے اِس تاثر کو تقویت ملتی لیکن پھر لاک ڈاؤن شروع ہوا اور آفس کا کام گھر سے ہونے لگا۔

اس صورتحال میں لپ سٹک لگانے کے لیے بھی وقت اور بہانہ تلاش کرنا ماضی کی چیز کی طرح محسوس ہوتا تھا اور اسی لیے جب میں نے پہلی بار ایک فلٹر دیکھا، جو کم از کم میں آن لائن آنے کے لیے استعمال کر سکتی تھی، تو میں حیران رہ گئی۔

یہ دیکھ کر مجھے سوچنا پڑا کہ کیا آن لائن ایک فلٹر لگا کر میک اپ کی کمی کو پورا کیا جا سکتا ہے؟ یہ وقت بچانے کا ایک آسان طریقہ ہے؟

جوں جوں بیوٹی فلٹرز زیادہ سے زیادہ بہتر ہوتے جا رہے ہیں، ہماری عزت نفس سے لے کر خوبصورتی کے ایک خاص معیار کو مقبول بنانے میں اُن کے اثرات اور اُن کے ممکنہ اثرات کی مذمت کرنے والے مضامین زیادہ کثرت سے لکھے جانے لگے ہیں۔

ٹک ٹاک کے ’بولڈ گلیمر‘ فلٹر کی ریلیز نے بہت سے صارفین کو یہ سوال کرنے پر مجبور کر دیا کہ کیا یہ ٹیکنالوجی بہت آگے جا چکی ہے۔ یہ کسی کو بھی ٹاپ ماڈل میں تبدیل کر سکتا ہے۔

جیسا کہ ایک ہیڈ لائن میں لکھا ہے کہ: ’یہ ایک مسئلہ ہے: ایک نیا حقیقت پسندانہ ٹک ٹاک بیوٹی فلٹر لوگوں کو پریشان کر رہا ہے۔‘

یہ خدشات اور تنقید درست ہیں لیکن اکثر ہم ایک اہم جزو کو نظر انداز کرتے ہیں۔ ٹیکنالوجی میں بہت سی چیزوں کی طرح، بیوٹی فلٹرز ایک بلبلے میں نہیں بنائے گئے تھے، جو معاشرے سے الگ تھے۔ وہ ہمارے سامنے پہلے سے موجود تعصبات اور مسائل کی عکاسی کرتے ہیں اور اکثر بدتر ہو جاتے ہیں، جو یقیناً مسئلہ ہے۔

ٹک ٹاک فلٹر

ٹیکنالوجی نے خوبصورت نظر آنے کے وہ دروازے کھول دیے ہیں جو پہلے بند تھے

یقیناً، حقیقی زندگی کے خوبصورتی کے رجحانات کی پیروی کرنے اور آن لائن فلٹرز لگانے کے درمیان فرق ہے۔

لیکن ایک ایسے دور میں جہاں بوٹوکس جیسے انتہائی مؤثر کاسمیٹک طریقہ کار بھی زیادہ سے زیادہ مقبول ہو رہے ہیں، یہ کہنا محفوظ ہے کہ آپ حقیقی زندگی میں جن لوگوں کو دیکھتے ہیں ان میں سے زیادہ کو آپ کی توقع سے کہیں زیادہ ’مدد‘ ملی ہے۔

بیوٹی فلٹرز صرف موجودہ خوبصورتی کے معیارات کا جواب نہیں دے رہے ہیں- فلٹرز کے جواب میں آف لائن خوبصورتی کے معیار بھی تبدیل ہو رہے ہیں۔

فلٹرز استعمال کرنے والی نوعمر لڑکیاں کاسمیٹک سرجری پر غور کرنے کا زیادہ امکان رکھتی ہیں، مثال کے طور پر پلاسٹک سرجنز نے سرجری کی درخواست کرنے والے گاہکوں میں اضافہ نوٹ کیا جس سے وہ اپنے فلٹرز کی طرح نظر آتے ہیں۔

یہ اور بھی زیادہ تشویشناک ہے کیونکہ یہ فلٹر نسلی طور پر متعصب ہوتے ہیں، جو دقیانوسی طور پر ’سفید فام‘ خصوصیات پر مبنی ہوتے ہیں۔

اور یہ صرف چہرے کے فلٹر ہیں، بہت سارے طریقے ہیں جن سے اب آپ سوشل میڈیا ایپس میں اپنے جسم کو تبدیل کر سکتے ہیں، یہاں تک کہ ویڈیو میں بھی۔

ایک بار پھر کچھ طریقوں سے، یہ کوئی نئی بات نہیں۔ پروفیشنل ماڈلز اور فوٹوگرافرز طویل عرصے سے جانتے ہیں کہ مخصوص پوز اور زاویے ٹانگوں کو بڑھا سکتے ہیں اور کمر کو مضبوط دیکھا سکتے ہیں اور سافٹ ویئر کی مدد سے پوسٹ ایڈیٹنگ میں تصاویر کو تبدیل کرتے ہیں۔

آج کے سوشل میڈیا انفلوئنسرز اکثر ان حکمت عملیوں پر بھی انحصار کرتے ہیں۔

اسے اس طرح بنا کر کہ کوئی بھی آن لائن ویڈیو یا تصویر میں اپنی کمر کاٹ سکے یا اپنے ہونٹوں کو باہر نکال سکے، آپ یہ دلیل دے سکتے ہیں کہ یہ فلٹرز صرف صنعت کی چالوں کو زیادہ قابل رسائی بنا رہے ہیں۔

اگرچہ کچھ لوگ ٹیکنالوجی کی وسیع تر دستیابی کا خیر مقدم کر سکتے ہیں لیکن یہ بھی معاملہ ہے کہ یہ فلٹرز ہمارے لیے یہ جاننے کے لیے بہت نئے ہیں کہ وہ طویل مدتی خود ادراک اور ذہنی صحت کو کس طرح متاثر کرتے ہیں۔

اب تک کی گئی تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے صارفین اپنے بارے میں بُرا محسوس کرسکتے ہیں۔ وہ دوسرے لوگوں کی کئی تصاویر دیکھتے ہیں جن پر بیوٹی فلٹر لگے ہوتے ہیں اور بظاہر ان میں ایسی کوئی خامیاں نہیں ہوتی جو ان کی اپنی تصاویر میں ہوتی ہیں۔

بیوٹی فلٹرز کے استعمال میں اضافے سے قبل بھی لوگ سوشل میڈیا ایپس پر دوسروں کی ’مثالی‘ زندگی پر نظر رکھتے تھے اور اس سے ممکنہ طور پر ان کی ذہنی صحت متاثر ہوتی تھی مگر اپنی تصویر پر فلٹر لگانے سے بھی آپ ایسی حالت میں مبتلا ہو سکتے ہیں۔

اس سے خاص کر نوجوان لڑکیاں متاثر ہوسکتی ہیں جو اکثر میڈیا پر تصاویر سے خود میں خامیاں تلاش کرنے کی شکار ہوتی ہیں۔

مثلاً ایک تحقیق میں 14 سے 18 سال کی لڑکیوں کو اپنی اصل اور فلٹر والی سیلفیاں دکھائی گئیں۔ اکثر نے فلٹر والی سیلفیوں کو بہتر قرار دیا۔ جن لڑکیوں کو فلٹر والی تصاویر دکھائی گئیں وہ اپنے جسم سے اتنی مطمئن نہیں تھیں۔

ٹک ٹاک پر بولڈ گلیمر میڈیا کی توجہ حاصل کر رہا ہے مگر بعض دیگر فلٹر بھی اتنے ہی بُرے ہیں۔ ’ٹین‘ نامی ایک فلٹر میں کوئی بھی شخص بچہ بن سکتا ہے۔

بچوں کے تحفظ کے ماہرین نے اس پر تشویش ظاہر کی ہے کیونکہ اس سے بالغ افراد جنسی نوعیت کے حلیے میں اپنی عمر کم ظاہر کر سکتے ہیں۔ مثلاً وہ دیکھنے والوں کو یہ دھوکہ دے سکتے ہیں کہ وہ نابالغ ہیں۔ اس نے سماج میں ایک اور بڑے مسئلے کی نشاندہی کی ہے جس میں بچوں کی سیکشویلائزیشن کو عام کیا جاتا ہے۔

بیوٹی فلٹر ہماری تہذیب میں اب ان چیزوں میں سے ہے جو لوگ اس لیے استعمال کرتے ہیں تاکہ اپنی ظاہری شکل بے مثال اور بے داغ بنا سکیں تاہم اگر ان کا جائزہ لیا جائے تو لگتا ہے کہ شاید بات حد سے نکل گئی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32468 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments