مسٹر ٹم نے جرمن سکھائی


میں اس بوڑھے انگریز کو اکثر صبح سویرے گرو مندر کے سٹاپ پہ ٹاور جانے والی بس کے انتظار میں کھڑا دیکھتا تھا دبلے پتلے جسم لمبے قد اور تانبے جیسے چہرے والا یہ شخص پس سٹاپ پہ کھڑے ہر شخص کی توجہ کا مرکز بنا رہتا

مجھے کسٹم ہاؤس جانا ہوتا اور وہ راستے میں ہی کہیں بس سے اتر کر لوگوں کی بھیڑ میں گم ہو جاتا اس کی انگلش کس کو سمجھ آئیے نہ آئیے وہ اپنے ساتھ کھڑے شخص سے ضرور گفتگو کرتا اور اگر بس میں سیٹ پہ کوئی اس کے ساتھ بیٹھا ہوتا تو دھیمے دھیمے انداز میں اس سے بھی اس طرح گفتگو کر رہا ہوتا جیسے وہ اسے مدتوں سے جانتا ہو اور اس سے راز و نیاز کی باتیں کر رہا ہو۔ بہت سے لوگ اس کی باتیں صرف سنتے تھے لیکن کچھ پڑھے لکھے اس کی ہاں میں ہاں میں ہاں بھی ملاتے اور کچھ باتوں کا جواب بھی دیتے۔

ایک دن صاحب بہادر میرے عین سامنے کھڑے ہو کر بس میں سفر کر رہے تھے۔ وہ پہلے تو خود کلامی کی کیفیت میں بڑبڑا رہے تھے پھر میری طرف دیکھ کر کہنے لگے ”دادا بھائی میرے بعد دفتر پہنچتے ہیں“ میں ان کے آنے سے پہلے اپنی ڈاک الگ کر چکا ہوتا ہوں ترجمے کا کام شروع ہوتا ہے تو کسی کو مجھے ڈسٹرب کرنے کی اجازت نہی ہوتی ”صاحب بہادر کی انگلش بہت اسان اور سیدھی سادی تھی کوئی انگریز تو ایسے بات نہیں کرتا میں نے دل ہی دل میں سوچا

”پوچھ سکتا ہوں اپ کس چیز کا ترجمہ کرتے ہیں۔

میں بندر روڈ پہ دادا بھائی پونا والے کے ہاں کام کرتا ہوں ان کی فرم سندھ گلوبل ایکسپورٹ کے نام سے ہے میں جرمن زبان کی دستاویزات کا انگلش ترجمہ کرتا ہوں

”اس کا مطلب یہ ہے کہ اپ کی جرمن بہت اچھی ہے، میں نے ان کی باتوں میں دلچسپی لیتے ہوئے بات کچھ اگے بڑھائی

“ نہیں ایسا نہیں ہے اپ یہ کہ سکتے ہیں کہ میری انگلش بہت اچھی ہے جرمن تو میری مادری زبان ہے ”

”آئی سی“ میں نے حیرت سے اس کی انکھوں میں جھانکا وہ سنجیدہ سی نظروں سے مجھے دیکھ رہا تھا اور لگتا تھا وہ ابھی کچھ اور بھی کہنا چاہتا ہے۔

” میرا نام تو کچھ مشکل سا ہے اپ مجھے مسٹر ٹم کہ کر پکار سکتے ہیں میں جب دفتر میں بیٹھ کر جرمن زبان کا انگلش میں ترجمہ کرتا ہوں تو اونچی اونچی آواز میں جرمن لفظوں کو بولتا جاتا ہوں اور انگلش میں لکھتا جاتا ہوں جب کبھی دادا بھائی میرے پاس بیٹھے ہوتے ہیں تو وہ بہت ہنستے ہیں ’میں ان سے پوچھتا ہوں کیا جرمن زبان اتنی مضحکہ خیز ہے؟ ، وہ کہتے ہیں نہیں تو دلچسپ ہے بہت دلچسپ“ ۔ مسٹر ٹم چند لمحوں کے لیے خاموش ہو گئے میں نے دیکھا ان کے چہرے کے خد و خال کچھ بدل سے گئے ہیں بہت دیر بعد احساس ہوا دراصل وہ مسکرا رہے تھے۔

کیا اپ کو یہاں جرمنی سے زیادہ تنخواہ ملتی ہے سنا ہے وہاں تو لوگ بہت بڑی بڑی تنخواہ لیٹے ہیں؟

”جی درست ہے لیکن میں یہاں ایک عام جرمن سے زیادہ تنخواہ لیتا ہوں“ مسٹر ٹم نے انگلی اور انگوٹھے کو ملا کر دائرہ بنا کر مجھے دکھاتے ہوئے اپنے مطمئن ہونے کا اشارہ دیا۔ ان کا سٹاپ آیا تو علیک سلیک کیے بغیر تیزی سے بس کے دروازے کی طرف چل دیے

” سر اپ سے ضرور دو باہ ملاقات ہو گی“ میرے منہ سے حسب عادت چند الفاظ ادا ہو گئے تو وہ اچانک کھڑے ہو کر کہنے لگے ”کیوں کیا تمہیں مجھ سے کوئی کام ہے“ اور پھر تیزی سے بس سے اتر کر بھیڑ میں گم ہو گئے۔ مجھے کچھ شرمندگی تو ہوئی مگر میرے اور ان کے درمیان رویوں اور کلچر کی دیوار استادہ تھی جس کے آر پار دیکھنا دونوں کے بس میں نہیں تھا۔ کئی دنوں کے بعد دوبارہ ملاقات ہوئی آج ہم ایک دوسرے کے ساتھ ایک ہی سیٹ پر بیٹھے ہوئے تھے۔ اس سے پہلے کہ ان کی بڑبڑاہٹ الفاظ کا روپ دھارتی میں بول پڑا ”مسٹر ٹم کیا آپ نے مجھے پہچانا“

” نہیں تو میں نے تمہیں پہلے کبھی نہیں دیکھا اپ کو میرا نام کس نے بتایا“
”سر میری اپ سے اسی گاڑی میں ملاقات ہوئی تھی آپ جرمن ٹرانسلیٹر ہیں دادا بھائی کے دفتر میں“

” اخ سو“ یہ جرمن الفاظ تھے جن کا مطلب میں ان کے تاثرات دیکھ کر سمجھ گیا۔ ”کیا اپ کو جرمن آتی ہے“ انہوں نے بے تکلف ہوتے ہوئے میری طرف دیکھا اور میرا جواب آنے تک مجھے گھورتے رہے۔

”بالکل نہیں انگلش اور اردو ہی اتی ہے“

” کیا اپ جرمن سیکھنا چاہتے ہیں“ وہ ذرا سے کھسک کر میرے قریب آ گئے اور مجھے اس انداز سے دیکھنے لگے جیسے میں نے انکار میں جواب دیا تو دیوار برلن کے ٹوٹنے کی ساری امیدیں خاک میں مل جائیں گی۔

”ضرور سیکھوں گا“ مجھے یہ گمان ہونے لگا جیسے اگر میں جرمن سیکھ گیا تو اس بوڑھے جرمن کے چلے جانے کے بعد دادا بھائی کا اگلا ترجمان میں ہی ہوں گا

” مجھے ایسا لگا جیسے اگر میں نے جرمن نہ سیکھی تو دنیا کا بد قسمت انسان ہوں گا۔
میں سکھاؤں گا، مسٹر ٹم دھیرے سے مسکرا دیا اس نے جیسے میرے ذہن کو پڑھ لیا تھا۔

وہ بولتا جا رہا تھا اور میں خیالوں ہی خیالوں میں دادا بھائی پونا والے کے دفتر میں بیٹھا جرمن زبان کا ترجمہ کر رہا رہا تھا اور جب میں نے اس کی طرف توجہ دی تو وہ جیب سے ایک چھوٹی سی چٹ نکال کر اس پہ کچھ لکھ رہا تھا

، میں نے صدر میں ایک کمرہ لیا ہے جہاں نوجوانوں کو جرمن سکھانے کا ارادہ ہے اگر تم چاہو تو مجھ سے جرمن سیکھ سکتے ہو اس نے کاغذ کا ٹکڑا میری طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔

، میں ضرور آؤں گا میرے لیے اس سے بڑی خوش قسمتی اور کیا ہو گی کہ میں ان چند لوگوں میں شامل ہوں گا جو انگلش کے ساتھ ساتھ ایک دوسری زبان بھی جانتے ہوں گے ”

” مجھے خوشی ہو گی لیکن میری دو شرائط ہیں اپ کو اپنے ساتھ دو اور ساتھیوں کو بھی لانا ہو گا اور ہر ماہ تیس روپے فیس ادا کرنی پڑے گی۔

یہ تو عجیب سی بات ہوئی میں اپنی ساڑھے چار سو تنخواہ میں سے تیس روپے تو بچا سکتا تھا لیکن دو ساتھی یہ ٹیڑھا مسئلہ تھا۔

کوشش سے ہر چیز ممکن ہے میں نے دل ہی دل میں سوچا اور مسٹر ٹم سے ایک ہفتے کے اندر اندر ملاقات کا وعدہ کر لیا۔

دفتر میں میرے ساتھ دو بنگالی ایک پنجابی اور تین اردو سپیکنگ تھے ’اس ایک ہفتے کے دوران جتنا ممکن ہو سکا میں جرمن زبان کی خوبیوں میں طرح طرح کے رنگ بھر کر اپنے دوستوں کو قائل کرتا رہا مجھے دو کی ضرورت تھی مگر مجھے تین ساتھی مل گئے جسیم الدین بنگالی، صادق خان فیصل آبادی اور ضیا الحسن کانپوری۔

منگل کو شام چار بجے ہم صدر میں کیفے جارج کے سامنے والی سڑک عبور کرنے کے بعد دائیں جانب ایک چھوٹی سی گلی کے سامنے پہنچے تو ایک بوسیدہ سے مکان کے اوپر بنے ہوئے سادہ سے کمرے کے باہر مسٹر ٹم ٹہل رہے تھے۔ ”تم لوگوں نے آنے میں آدھا گھنٹہ دیر کی اس کے بعد ایسا ہوا تو میں تم کو ادھر نہیں ملوں گا“

”سوری سر جگہ تلاش کرنے میں دیر ہو گئی ہم کل سے وقت کی پابندی کریں گے“ مجھے ایسے لگا جیسے یہ سکول ان سارے سکولوں سے زیادہ ڈسپلن مانگتا ہے جن سے میرا چودہ سال تک واسطہ رہا ہے۔

مسٹر ٹم نے بغیر کسی تمہید کے ہمیں اشارے سے بیٹھنے کو کہا اور پہلا سبق دینا شروع کیا بالکل اسی طرح جیسے پچیس برس قبل استاد اللہ دتہ صاحب نے ایک دو تین سکھانے کے لیے ہمیں پہلا درس دیا تھا اس وقت بھی ہمیں گنتی کے حروف اجنبی لگے تھے اور آج بھی۔ ایک سے دس تک جرمن کی گنتی جس کا لہجہ درست کرنے کے لیے ہمیں دو گھنٹے لگے۔ اگلے دن بیس تک اور پھر سو تک۔ حروف ابجد سکھانے کے لیے مسٹر ٹم کو اتنا سر کھپانا پڑا کہ ہمیں کبھی کبھی یوں لگتا جیسے وہ کلاس چھوڑ کر بھاگ جائیں گے۔

ایک ہفتے کے بعد وہ انگلش کے ایک لفظ کا متبادل جرمن لفظ بولتے اور ہمیں بار بار اس کی پریکٹس کراتے ’یہاں اک اور مسئلہ پیدا ہو گیا بنگالی شین کو سین اور فیصلہ آبادی جرمن لفظ کا پہلا الف کھا جاتا مسٹر ٹم اپنی زبان کی اس طرح ہتک پہ اس قدر سیخ پا ہوتے کہ میز پہ مکے مار مار کر اپنے غصہ ٹھنڈا کرتے ہی۔ انہوں نے ایک جرمن لفظ ”شائیزے“ کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا یہ ایک ایسا لفظ ہے جسے ایک عام جرمن دن مین پچاس سے زیادہ مرتبہ بولتا ہے اس کے ہمہ گیر مطلب ہیں بعض اوقات تو یہ لفظ بلاوجہ ہی بول دیا جاتا ہے اٹھتے بیٹھتے‘ اب تم سب اس کو باری باری بولو۔

ہم سب نے یہ لفظ آسانی سے بول لیا مگر جب جسیم نے اسے شائیزے کی بجائے سائی سے بولا تو مسٹر ٹم نے سر ہلاتے ہوئے اسے پھر سے بولنے کو کہا لیکن پھر وہی سائی سے۔ ”ادھر میری طرف دیکھو“ انہوں نے اپنے منہ کو کھولا زبان کو تالو سے لگایا اور ”شا“ کی آواز نکالی اور اس کے بعد پورا لفظ قسطوں میں ادا کیا ”شا۔ ای۔ زے“ انہوں نے تین مرتبہ اسی انداز میں اپنے چہرے کے زاوئیے کو تبدیل کیا تو کمرہ صادق خان کے فری اسٹائیل قہقہے سے گونج اٹھا۔

مسٹر ٹم کے چہرے پہ ہلکی سی مسکراہٹ پیدا ہوئی جو چند سیکنڈ کے بعد سنجیدگی میں تبدیل ہو گئی چہرے کے نقوش بدلنے لگے ’انہوں نے میز پر مکہ مارتے ہوئے جرمن لفظوں کی گردان شروع کر دی ”یو بنڈیٹ‘ تاؤش ’ڈم فاؤل شیم لوس اور نہ جانے اور کیا کیا اگر صادق خان کو ان لفظوں کا مطلب سمجھ آ جاتا تو شاہد پنجاب کا کلچر سر چڑھ کر بولتا۔ ہم سب نے باری باری مسٹر ٹم سے معافی مانگی وہ جتنی جلدی آپے سے باہر ہوئے اتنی تیزی سے ہی نارمل ہو گئے۔

سبق آگے بڑھا تو انہوں نے ایک انگلش لفظ“ ٹول ”کے جرمن معنی“ آپاراٹ ”بتائے اور ہم سب کو حسب معمول باری باری اس لفظ کو دہرانے کے لیے کہا یہاں ایک اور تماشا بن گیا صادق بولتے ہوئے الف کھا جاتا اور اپاراٹ کو پاراٹ بولتا‘ پھر وہی چہرے کو سکیڑ اور پھیلا کر الفاظ کو ایک مخصوص سانچے میں کسنے کی مسٹر ٹم کی کوششیں اور صادق خان کی بے بسی۔

”بولو آ۔ پا۔ راٹ“ مسٹر ٹم نے اس کے چہرے کو غور سے دیکھتے ہوئے جیسے اپنی سانس روک لی۔
صادق نے ٹکڑوں میں کٹے الفاظ کو بخوبی بیان کر لیا مگر جب پورا لفظ ادا کیا تو الف پھر کھا گیا۔
مسٹر ٹم اس طرح سر پکڑ کر بیٹھ گئے جیسے اب ان کے سر کو اونچا کرنے کے لئے ہم سب کو آگے انا پڑے گا۔

ایک ماہ گزر گیا ہم نے بہت سے جرمن الفاظ اور فقرے از بر کر لیے تھے لیکن مسٹر ٹم کی الجھنیں بڑھتی جا رہی تھیں جب بھی الف اور شین کی تکرار سامنے اتی انہیں جرمن زبان رسوا ہوتی نظر آنے لگتی۔ انہیں سخت ٹینشن تھی کہ جسیم اور صادق کا لہجہ درست کیوں نہیں ہوتا اور میں الفاظ جلدی کیوں بول جاتا ہوں وہ مطمئن تھے تو صرف ضیاء سے جس کے الفاظ کی ادائیگی درست تھی۔ ایک شام وہ جسیم سے اتنے بدظن ہوئے کہ سر کو پیٹتے ہوئے باہر نکل گئے اور جب ہم اگلے دن ان کے کمرے کے باہر پہنچے تو وہاں تالا تھا۔ کہاں گئے ہم سب کے ذہن میں ایک ہی سوال تھا اور اس کے بعد وہ مکمل غائب ہو گئے۔ اب وہ گرو مندر کے سٹاپ پہ بھی نظر نہیں آتے تھے ’میں ایک شام دفتر سے چھٹی کرنے کے بعد پیدل ہی گھر آ رہا تھا تو راستے میں مجھے مسٹر ٹم کا خیال آیا اور میں دادا بھائی پونا والے کے دفتر جا پہنچا وہ وہاں بھی موجود نہیں تھے پوچھنے پہ پتہ چلا کہ وہ نوکری چھوڑ کر جرمنی چلے گئے ہیں وجہ یہ تھی کہ انگلش ترجمے کے بعد اس میں بہت سے جرمن الفاظ بھی شامل ہوتے تھے جو قابل قبول نہیں تھے دادا بھائی نے غلطی کی نشاندہی کی تو بگڑ گئے۔

مجھے ان کے اس طرح چلے جانے کا دکھ تھا ’کیا اس کے ذمہ دار ہم تھے یا ان کا ذہن رسا اس حقیقت کو سمجھنے سے قاصر تھا کہ کسی ملک کی زبان تو سیکھی جا سکتی ہے مگر اس کے لب و لہجہ سے مطابقت اختیار کرنی کتنی مشکل ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).