دریا پار اترجانے والا منور محمود


     جب میں شعر و ادب کی وادی میں داخل ہوا تو پہلے پہل منور محمود کی ذہانت، مطالعے اور شعر فہمی سے آشنا ہوا۔ ”لندن مکانی“ منیر چغتائی وسیلہ ٹھہرا اور مجھے 95 ٹی ڈی اے، لیہ میں اس شخص کے روبرو کیا، جس نے آئندہ تیس برس مجھے حیرت زدہ کیے رکھا۔ منور میرا ہم عمر تھا۔ اس نے کروڑ لال عیسن سے اور میں نے فتح پور سے ایک ہی سال میٹرک کیا تھا، مگر منور ان سالوں کی گنتی منتی سے کہیں آگے کا مسافر تھا، پھر لاہور میں فلسفہ وجودیت، نفسیات اور نجم حسین سید کی محفلوں نے اسے ان دیکھی راہوں کے سفر پر ڈال دیا تھا، بظاہر انجینئرنگ پڑھنے والا منور اندر ہی اندر ذات کی شکست و ریخت کی منزلیں طے کرتا گیا۔ یہ ٹٹ بھج شاید عمر کے آخری دور تک جاتی رہی

منیر چغتائی کے ہمراہ ہوئی ملاقات کے بعد منور سے ملنے کی جستجو رہی اور ایک دن میں اپنی چند نظموں سمیت اس کے گاؤں جا پہنچا، اس ملاقات میں سنائی اپنی کوئی نظم تو مجھے یاد نہیں البتہ منور کی نظم کے یہ مصرعے آج تک میرے ساتھ ہیں

میں اروار
۔ سجن دریا پار دی وستی
میں من تاری، ترن نہ جاناں
یار دی وستی کیویں جاواں
جے جاواں تے موتوں ڈردی
نہ جاواں تے سک نہ مردی

لیہ میں ہوئی ان ملاقاتوں کے بعد منور اور میں ٹوبہ ٹیک سنگھ میں ملے کہ جہاں وہ سرکار کی چاکری اور میں ایک نیا بن باس ہنڈانے نکلا تھا۔ انڈیا سے میری تازہ تازہ واپسی ہوئی تھی۔ منور کے دیکھنے کے انداز سے مجھے لگا کہ وہ مجھے اور میرے کاندھے پر موجود دلی سے خریدے کروشیے سے بنے جھولے سے نکسلائٹ موومنٹ کے کسی آوارہ گرد شاعر کے بہروپ میں دیکھنے کی کوشش کر رہا ہے، منور انڈیا میں پنجابی ادب کی پرتوں سے واقف تھا، اس نے دکھ کی رومانویت سے لبریز شوکمار بٹالوی کے ساتھ ساتھ پاش، سنت رام اداسی اور لال سنگھ دل کو پڑھ رکھا تھا کہ جو مشاعروں کے سلطان کم اور مزاحمت کے خار زاروں کے باسی زیادہ تھے

گوجرہ میں ہم اس گھر میں اکٹھے ہوئے کہ جہاں میں تھل سے خود ساختہ جلاوطنی کے بعد پناہ گزین تھا۔ اس روز میں اور بیگم یوں خوش تھے کہ جیسے دریا پار کی بستی سے سالوں بعد کوئی اپنا ملنے آیا ہو۔

گوجرہ اور گجرات یونیورسٹی کے دشت کی سیاحی کے بعد میں تھل کی آغوش میں آیا تو 2011 کا سال تھا، مجھے وہ شام نہیں بھولتی کہ جب ہم دوستوں نے پنجابی ادب، شناخت اور شعر و ادب کے حوالے سے لمبی گفتگو کی۔ ابرار حسین میرے لیے اسی ملاقات کی دین ہے، مجھے ہمیشہ ایسے محسوس ہوا اور شاید ہوتا رہے گا کہ ابرار منور کی طرف سے میرے لیے ایک تحفہ ہے، جب تک ابرار کی صورت میں منور اپنی دانش، تہذیب اور وضع داری سمیت میرے ساتھ موجود رہے گا، اس کی یاد اور خوشبو زندہ رہے گی۔

تین سال قبل ہم ماہی والا میں تھے، منور شفیع غوری کے آرٹیکل Mahi Wala 1 (MW۔ 1 ) : a Mesolithic site in the Thal desert of Punjab، Pakisyan کی وجہ سے بہت پرجوش تھا، میں بچوں کے ساتھ گوجرہ سے واپسی کے سفر پہ تھا، اصرار ہوا کہ بچوں کو گھر چھوڑ کر پہنچو، گھنٹوں ریت کے ٹیلوں پر ہم آٹھ ہزار سال کی گم گشتہ تہذیب کی پرسراریت میں گم رہے کہ جہاں کبھی سندھو اپنی لہروں سے زندگی کے نقش بناتا مٹاتا من مرضی کے راستے پر چلا گیا تھا۔

منور وجودیت کے فلسفے سے گہرا متاثر رہا، فیس بک پر اس کی پوسٹس بسا اوقات مجھے خوفزدہ کر دیتی تھیں، میں وجودیت کی بے یقینی اور بے کرانی سے بچنے کے لیے ویدانت اور وحدت الوجود میں پناہ لے چکا ہوں مگر منور پناہوں سے آگے کے سفروں کا راہی تھا

وہ دریا کے پار جانا چاہتا تھا، خدا جانے دریا کے اس طرف کون سے یار کی بستی تھی، اسے پتہ تھا کہ چاہے تیرنا آتا ہو یا نہ آتا ہو اسے دریا کے پار اترنا ہے، اور منور اتر گیا، ہم کناروں کے رسیا ہیں، سو پڑاؤ کیے بیٹھے ہیں، مگر کب تک

مولوی غلام رسول عالم پوری نے جانے کس دکھ میں کہا تھا
دنیا اک مٹیار ہے، پر ہے باجھ وفا
لکھ ہزاراں ایس نے مارے یار بنا

ہم ہیں کہ اس بے وفا مٹیار کے وعدوں پہ تکیہ کیے بیٹھے ہیں، مگر وہ چلا گیا کہ جس نے اس مٹیار کے یاروں کی لمبی فہرست دیکھ لی تھی

طارق گجر

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

طارق گجر

طارق گجر بنیادی طور پر پنجابی شاعر اور افسانہ نگار ہیں، تقسیم پنجاب ان کی تخلیقی شخصیت کا ہمیشہ سے محرک رہا ہے۔ وہ ان پنجابی لکھاریوں میں شمار ہوتے ہیں جنہوں نے 1947 کے بعد پنجابیوں کو درپیش شناختی بحران کے حوالے سے قابل قدر تخلیقی کام کیا ہے۔ اس حوالے سے ان کی شاعری کی کتاب ”رت رلے پانی“ قابل ذکر ہے۔ پچھلے چند سالوں سے انہوں نے پنجاب کی تقسیم کے عینی شاہدین کے انٹرویوز کے ذریعے تقسیم پنجاب کے سلیبسی نقطہ نظر کے متوازی پنجاب کے عوام کا نقطہ نطر سامنے لانے کے سلسلے میں بھی کام کیا ہے۔ طارق گجر جمہوریت، مکالمے، صنفی برابری اور آزادیٔ رائے پر کامل یقین رکھتے ہیں اور پاکستانی میں بسنے والی اقوام کے درمیان مکالمے کے لیے کوشاں رہتے ہیں

tariq-mahmood-gujjar has 10 posts and counting.See all posts by tariq-mahmood-gujjar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments