زیادتی تو لڑکیوں کے ساتھ ہوتی ہے


”اتنا کام مل گیا ہے۔ یہ تو بہت زیادتی ہو رہی ہے“ ۔
بارہ برس کے ایک لڑکے نے دوسرے بارہ سال کے لڑکے سے بات کرتے ہوئے کہا۔
دوسرا بارہ سال کا لڑکا ہنستے ہوئے :
”ہاہاہا، اوئے زیادتی تو لڑکیوں کے ساتھ ہوتی ہے“ ۔

ایک بارہ سال کا لڑکا، جماعت میں پڑھاتی خاتون استاد کو دیکھ کر ہیجانی سی آوازیں نکالتا ہے اور دوسرا بارہ سال کا لڑکا جنسی عمل کا اشارہ کرتا ہے تو ساری جماعت میں بارہ برس کے لڑکے ہنسنا شروع کرتے ہیں۔

”تم تو لڑکیوں کی طرح ہنستے ہو“ اور سب لڑکے کھلکھلا کر ہنسنا شروع کرتے ہیں۔
”میں کوئی لڑکیوں کی طرح تھوڑی ہوں جو یہ کروں گا، میں تو لڑکا ہوں“ ۔

”آ تجھے میں دوپٹہ پہناؤں“ ۔ ایک بارہ برس کا بچہ دوسرے لڑکے سے کہہ کر اس کو بے عزت کرنے کی کوشش کرتا ہے اور سب لڑکے اس پر ہنسنا شروع کرتے ہیں۔

استاد بارہ سال کے بچوں سے کتاب سے ایک تجارتی مرکز بارے سوال کرتی ہے تو ایک بارہ سال کا لڑکا نہایت اطمینان سے ”ہیرا منڈی“ کہتا ہے۔

ایک بارہ سال کا لڑکا، استاد کے سامنے نہایت واہیات نوعیت کی بہن کے ریپ پر مبنی گالی دیتا ہے۔
ایک بچے کو اس کا باپ اسکول سے لینے آتا ہے تو اس کا ہم جماعت اور وہ کچھ یوں بات کرتے ہیں :
”تمھیں تمھارے ابو کیسے لینے آ گئے، میں تو یہاں ہی بیٹھا ہوں“ ۔
”نہیں، میں تمہاری آپی کے پاس جا رہا ہوں“ ۔
جماعت میں ایک بڑی سی شہد کی مکھی آتی ہے تو بچے اس سے بچنے کے لئے اپنی کرسیوں سے اٹھتے ہیں۔
”ارے تم کیوں شہد کی مکھی سے ڈرتے ہو، مرد بنو، تم مرد ہو“ ۔

ایک بارہ برس کا، نہایت لائق اور نظم و ضبط کو برقرار رکھنے والا لڑکا اسکول سے باہر اپنے کام سے کام رکھنے والی اپنی عمر میں بڑی لڑکیوں کو دور بلند آواز میں ”آئی لو یو“ فلائنگ کس کرتے ہوئے کہتا سنائی دیتا ہے۔ استاد کے ٹوکنے پر ذرا برابر شرمندگی کا اظہار نہیں کرتا۔

ہم اکثر سوچتے ہیں کہ ہم کہاں ناکام ہوئے؟ ایسا کون سا لمحہ تھا، گھڑی تھی، وقت تھا جب سے اور جہاں سے ہماری ناکامی یا تنزلی کا آغاز ہوا۔ مگر ہم سوچتے ہی رہ جاتے ہیں۔ بہت دفعہ اس گھڑی کا اندازہ لگاتے ہوئے اس لمحے میں لوٹ کر اس کو درست کرنے کی خواہش کرتے ہیں۔ ہمارے یہاں خواتین کو لے کر جو تشدد آمیز رویے رہن سہن کا حصہ ہیں، کیا وقت کے کسی گوشے میں جا کر ہم اس کو تبدیل کر سکتے ہیں یا ماضی میں وقت جمانے کی بجائے حال کو سدھار سکتے ہیں؟ کیا ہم حال سدھارنا بھی چاہتے ہیں؟

حالات، رویوں، اور سماج کو بدلنے میں وقت درکار ہوتا ہے مگر کہیں سے تو پہلا قدم اٹھانا ہی چاہیے۔ میں دراصل اگلے چند برسوں میں جوان ہونے والے لڑکوں کو پڑھاتی ہوں۔ یہی جوان ہوتے بچے کل کے مرد ہیں۔ انہوں نے اسکول سے نکل کر معاشرے کا مکمل حصہ بننا ہے۔ ان کے درست سمت پر گامزن رویے ہی آنے والے وقت میں سماج کی شکل و صورت اور ساخت کو بہتر کر سکتے ہیں۔ وہ کیا ہے نا کہ ان جوان ہوتے لڑکوں کے نفرت، تشدد، اور امتیاز پر مبنی رویوں کو درست کرنے کا کوئی خاص اہتمام بھی نہیں ہے۔

استاد اپنی ذاتی حیثیت سے رویوں کو مثبت سطور پر گامزن تو کر سکتے ہیں مگر یہ متعین نہیں کہ استاد کا پیغام پہنچ رہا ہے کہ نہیں۔ یہ سمجھانا تھوڑا پیچیدہ عمل ہے۔ بڑے پیمانے پر رویوں کا بدلاؤ انفرادی کم اور اجتماعی انتظامی تقسیم پر زیادہ انحصار کرتا ہے۔ ان دس سے تیرہ برس کے لڑکوں کے پاس پورن سے لے کر ہر طرح کے منفی ذرائع موجود ہیں۔ یہ کم عمر نابالغ بچے ہیں، ان کو صرف تعلیم اور تربیت کی ضرورت ہے۔ جہاں خواتین کو لے کر منفی رویے ان کی روزمرہ زندگی کا حصہ ہیں، وہیں بہتر تربیت اور تعلیمی مواقع ان کی کردار سازی میں کام آسکتے ہیں۔ آنے والے وقت میں اس ملک اور سماج میں خواتین کو لے کر متشدد رویوں میں کمی کی خواہش اور ضرورت ہے تو ان ہی بچوں کو اس عمر سے بہتر انسان ہی نہیں بہتر مرد بھی بنانے کا اہتمام ہونا چاہیے تاکہ کل کو یہ مشکل نہیں بلکہ مشکل کے حل کا حصہ ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments