اپنا کھانا خود گرم کر لو


عورت مارچ کا یہ نعرہ بہت مشہور ہوا تھا کہ ”اپنا کھانا خود گرم کر لو“ ۔ اس کا پس منظر تو خیر جیسا بھی قاتلانہ تھا، لیکن اس پر عورت مارچ کے مخالف مردوں کا ردعمل بہت شدید آیا۔ ان کا کہنا تھا کہ کھانا گرم کرنا واقعی بہت بڑا مسئلہ ہے اور یہ عورتوں کے لیے لازم ہے کہ وہ گرم کھانے کی فراہمی یقینی بنائیں۔ فیمنسٹوں نے اس ردعمل کو بہت مائنڈ کیا تھا۔ ہماری ہمت ہی نہیں پڑی کہ اس پر اپنے دل کی بات لکھ پائیں۔ اب ظاہر ہے کہ شادی شدہ لوگوں کی ہزار مجبوریاں ہوتی ہیں۔ بلاوجہ بہادری دکھا کر مرنا کوئی عقل کی بات تو نہیں۔

ہماری رائے میں تو گیدڑ کی سو سال کی زندگی شیر کی ایک دن کی زندگی سے بہتر ہوتی ہے۔ گیدڑ کو اس مدت میں سوچنے سمجھنے اور اپنے نظریات درست کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔ شیر کے ساتھ اگر وہی ہوا جو برٹرانڈ رسل نے اپنے نظریات کی خاطر مرنے سے انکار کرتے ہوئے فرمایا تھا تو کیا ہو گا؟ ”میں اپنے عقائد کی خاطر کبھی جان نہیں دوں گا کیونکہ میں غلط بھی ہو سکتا ہوں“ ۔ شیر کا پتہ نہیں، لیکن زندگی میں کئی مرتبہ اپنے نظریات تبدیل کرنے کے بعد ہمیں تو گیدڑ کا موقف ہی برحق لگتا ہے۔

آج ہم نے حوصلہ جمع کر لیا ہے تو کھانا گرم کرنے پر لکھ دیتے ہیں۔ آج پھر مرنے کا ارادہ ہے۔

کھانا گرم کرنا واقعی بہت بڑا مسئلہ ہے۔ آئس ٹی کی قیمت اور سماجی رتبہ گرم چائے سے بہتر ہوتا ہے۔ عام گرم کافی کے مقابلے میں کولڈ کافی زیادہ مہنگی بھی ہوتی ہے اور اسے پینا فیشن بھی ہے۔ سادہ ملائی کے مقابلے میں آئس کریم کی ویلیو اور ذائقہ بہت بہتر ہوتے ہیں۔ تو ٹھنڈا ٹھار کھانا بھی ضرور ویسی ہی اچھی اور لذیذ چیز ہوتی ہو گی۔ بس لوگوں کو شعور نہیں ہے۔

اس عقیدے کے تحت ہم گھات لگا کر چپ چاپ فریج کا رخ کرتے ہیں تاکہ اس میں سے خوب ٹھنڈا کھانا نکال کر کھا سکیں۔ اچانک کہیں سے چراغ الہ دین کے جن کی مانند خانم نمودار ہوتی ہیں، ہمارا کھانا چھین کر اسے زبردستی گرم کر کے سامنے دھر دیتی ہیں۔ ہمارا سارا فیشن دھرا کا دھرا رہ جاتا ہے۔ فیشن کی تو چلیں خیر ہے، ہم ویسے بھی کون سا روز منہ دھوتے اور بال بناتے ہیں، لیکن گرم کھانا واقعی بہت زیادہ گرم ہوتا ہے۔ منہ جل جاتا ہے۔ خبر نہیں لوگ کیسے گرم کھانا کھا لیتے ہیں۔

پچھلے دنوں ایک دوست ملنے آئے۔ ہم نے نہایت اہتمام سے انہیں چائے بنا کر پیش کی۔ ہماری رائے میں تو وہ ویسی گرم تھی جیسا گنہگاروں کے لیے جہنم کا کھولتا ہوا پانی ہو گا، لیکن ایک چسکی لے کر ان کے چہرے پر زلزلے کے سے تاثرات نمودار ہوئے۔ بولے ”چائے گرم نہیں کی؟ اسے مائکرو ویو میں دو منٹ گھما کر لے آؤ“ ۔

تعجب ہوا کہ لوگ بھاپ کیوں پیتے ہیں۔ ہم تو چائے کافی کا کپ بھی کم از کم پندرہ منٹ میں ختم کرنے کے قائل ہیں۔ غالباً ایسے ہی لوگ گرم کھانا مانگتے ہوں گے۔ شاید یوں وہ ایک نہایت گرم مقام پر ابدی زندگی گزارنے کی تیاری کرتے ہیں۔ ہم نیک لوگ تو ٹھنڈ کے قائل ہیں۔ یا چلیں بہار کا موسم ہو، یعنی چائے نیم گرم ہو۔ لیکن یہ کھولتی ہوئی چائے چہ معنی؟

ہم تو اس نعرے کے حق میں ہیں کہ ”اپنا کھانا خود گرم کرو“ ۔ وقت آ گیا ہے کہ ہم جنتی مردوں کو یہ حق دیا جائے کہ ہم چاہیں تو اپنا کھانا خود گرم کریں۔ جو لوگ کھولتے ہوئے پانی اور کھانے کے قائل ہیں، ان کی مرضی، ہم اس میں دخل نہیں دیتے۔

ہم عورت مارچ کے اگلے نعرے، ”اپنا موزہ خود تلاش کرو“ پر پھر کبھی لکھ دیں گے۔ مردوں کو اگر آزادی دی جائے تو وہ اپنا موزہ ایسی خوبی سے مینج کرتے ہیں کہ اسے تلاش کرنے میں چنداں محنت نہیں لگتی۔ موزہ خود پکار پکار اٹھتا ہے کہ وہ کہاں ہے۔

میں تیرا نام نہ لوں پھر بھی لوگ پہچانیں
کہ آپ اپنا تعارف ہوا بہار کی ہے

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments