ہم نے آج ہم سب کی شارٹ سٹوری رائٹنگ کی کی کلاس میں کیا سیکھا؟


ہم نے آج ہم سب کی شارٹ سٹوری رائٹنگ کی کی کلاس میں کیا سیکھا؟ ڈاکٹر لبنیٰ مرزا

آج کی کلاس میں وجاہت مسعود صاحب نے ایک عمدہ لیکچر دیا۔ انہوں نے کہا کہ الفاظ ایک لکھاری کا اوزار ہیں جن سے وہ اپنا آرٹ تخلیق کرتا ہے اور اپنے قاری سے جڑتا ہے بالکل اسی طرح جیسے موسیقی کے سر ایک موسیقار کے لیے یا پینٹ اور برش ایک مصور کے لیے اور چھینی مجسمہ نگار کے لیے ہوتی ہے۔ اس کلاس میں انہوں نے کئی اسٹوڈنٹس کے سوالات کے جوابات دیے۔ وجاہت مسعود کے لیکچر سننے سے ان کے وسیع مطالعے کا اندازہ ہوتا ہے۔

آج کے سبق میں انہوں نے 1860 کی دہائی میں لکھے ہوئے لیو ٹالسٹائی کے ناول وار اینڈ پیس کی مثال دیتے ہوئے سب کو سمجھایا کہ دنیا میں مقبول تاریخی ناولوں میں کس طرح لکھاری تفصیل سے حالات اور واقعات بیان کرتے ہیں، اور ان واقعات کے ایک دوسرے سے تعلقات اور ان کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ چھوٹی کہانیوں کے مجموعے لکھنا ایک ناول لکھنے سے زیادہ مشکل کام ہے۔ اس کی وجہ مجھے یہ سمجھ میں آئی کہ ناول ایک کہانی کے گرد گھومتا ہے اور افسانے کے مجموعے میں ہر افسانے کی الگ ایک منفرد کہانی ہوتی ہے جس کا اپنا ایک سبق یا پیغام ہوتا ہے۔ 1990 کی دہائی میں کراچی کے ایک لکھاری صغیر ملال نے دنیا کے مختلف ممالک کے افسانوں کا اردو میں ترجمہ کیا اور ہر افسانے سے پہلے اس کے فلسفے کو بیان کیا۔

کلاس میں ایسی کہانیاں لکھنے پر ڈسکشن ہوئی کہ جو زندگیاں تبدیل کر دیں۔ دنیا کے تمام انسان اپنی زندگی کے تجربے سے سیکھتے ہیں۔ ہم ایک دوسرے سے اپنے تجربات اور کہانیاں بانٹنے سے دنیا کے بارے میں مزید سیکھ سکتے ہیں۔ وجاہت مسعود صاحب نے اپنے لیکچر میں سمجھایا کہ کس طرح دنیا کے مختلف افراد دوردراز سے اپنی تحاریر کے ذریعے انسان کے اجتماعی شعور میں اپنا حصہ شامل کر سکتے ہیں۔ ارنسٹ ہیمنگوے کے ناول دی اولڈ مین ایٹ دا سی کا ذکر ہوا جس کو پولٹزر پرائز ملا تھا اور اس کے بعد 1954 میں ارنسٹ ہیمنگوے کو لٹریچر کے نوبل پرائز سے نوازا گیا تھا۔

کلاس میں جب بھی ان اہم تاریخی فن پاروں پر گفتگو ہو تو میں واپس جا کر ان کو پڑھنے کی کوشش کرتی ہوں۔ حالانکہ میری لائبریری میں لیو ٹالسٹائی کی وار اینڈ پیس موجود ہے اور خلیل جبران کی پروفٹ بھی لیکن ان کو کبھی پورا پڑھنے کا موقع نہیں ملا۔ خاص طور پر وہ افراد جنہوں نے میڈیسن یا قانون پڑھا ہو اور ان کو ادب یا تاریخ کے مطالعے کا زیادہ وقت یا موقع نہ ملا ہو، ان کے لیے یہ کلاس اور بھی زیادہ مفید ہے۔ ہم میں سے جو لوگ کالج میں اناٹومی اور فزیالوجی پڑھ رہے تھے، ان کے لیے ادب اور اس کی تاریخ کے مطالعے کا یہ دوسرا چانس ہے۔

ایک لکھاری کی کامیابی کے لیے ایک اچھے ایڈیٹر کی ضرورت پر روشنی ڈالی گئی۔ ایڈیٹر کا کام تحریر کی نوک پلک سنوارنا ہے، اس میں اپنے خیالات کی آمیزش کرنا نہیں ہے۔ اردو کی دنیا میں لکھاریوں کو معاوضے کے ساتھ عمدہ مدیران کی مدد لینے کی ضرورت پر بات ہوئی۔ میں نے خود اردو میں اپنی ذیابیطس کی کتاب کو ایڈٹ کرنے کے لیے ایڈیٹر کو ہائر کیا اور ان کو اس کام کے لیے پیسے دیے۔ اس وقت بھی ایک اور صاحب ایک دوسری کتاب لکھنے میں میری مدد کر رہے ہیں۔ اور ان کے ساتھ میں نے باقاعدہ فیس اور کام کا شیڈول اور کانٹریکٹ بنایا ہے۔

جب دس سال پہلے میں نے اردو ویب سائٹ بنانے والوں سے کانٹیکٹ کیا اور ان سے ایک ویب سائٹ بنانے میں مدد لی تو اس کے لیے بھی میں نے ان کو زبردستی پیسے دیے تھے اور ان کو یہی مشورہ دیا تھا کہ آپ مفت میں کام نہ کرتے رہیں اور اپنے کام کا معاوضہ لینے میں کوئی شرمندگی محسوس نہ کریں۔ ڈاکٹر سہیل نے مجھے ڈھیر ساری کتابیں دی تھیں۔ میں نے ان سے کہا تھا کہ کتاب مفت میں لینا میرے اصول کے خلاف ہے تو انہوں نے بالکل سستی مجھے دے دیں۔

اردو میں اس طرح پرو بونو کام کے کلچر کو ختم ہونے کی ضرورت ہے۔ جب ہم اردو کتاب کے پیسے دیں گے تو دوسرے لوگ بھی پیسوں میں ہماری کتاب خریدیں گے۔ اسی طرح اردو مواد کی ویلیو بڑھے گی۔ قلم کی طاقت پر بات چیت ہوئی کہ کس طرح ایک لکھنے والا اپنے قاریوں کے خیالات پر اثر انداز ہو سکتا ہے؟ صحافت اور فکشن میں فرق سمجھایا گیا۔ برصغیر پاک و ہند میں اردو ادب کی تاریخ پر روشنی ڈالی گئی اور انگریزی ادب سے اس کا موازنہ کیا گیا۔

اردو کی دنیا میں کتابوں کی ناقدری کا تذکرہ ہوا جہاں لکھاری اپنے پیسوں سے ایک ہزار کتابیں چھپوا کر پانچ سو کتابیں اپنے دوستوں اور رشتہ داروں میں بانٹ دیتے ہیں۔ اس کے برعکس جب انگلینڈ یا کسی اور مغربی ملک میں کتاب لکھی جاتی ہے تو وہ دس ہزار کی تعداد میں چھپتی ہے اور بہت سے لوگ اس کو خریدتے ہیں۔ اس کے بعد اس کتاب کے مزید ایڈیشن چھپتے ہیں۔ اس حقیقت حال کو دیکھتے ہوئے انہوں نے تمام اسٹوڈنٹس کو اپنی دن کی نوکریوں سے جڑے رہنے کا مشورہ دیا اور لکھائی کو صرف مشغلے یا تخلیقی کام کی طرح کرنے کا مشورہ دیا۔ کلاس کے اراکین نے اس بات کی نشان دہانی کی کہ اردو ادب یا ہندی ادب کے فن پاروں کو اکثر بین الاقوامی پذیرائی تب میسر ہوئی جب ان کا انگریزی زبان میں ترجمہ ہوا۔

میں سمجھتی ہوں کہ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ ان فن پاروں کو سراہے جانے کے لیے انعام یا ایوارڈ وغیرہ کا انفرا اسٹرکچر اردو زبان کے اندر کسی بڑے پیمانے پر موجود نہیں ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے سائنس کی دنیا میں تجربات کے لیے جن لیبارٹریوں یا آلات کی ضرورت ہوتی ہے وہ دنیا میں ہر جگہ موجود نہیں ہیں۔ اردو کی دنیا میں موجود منفرد اور انوکھی کہانیوں اور مضامین کو دنیا میں ایک بڑے اسٹیج پر متعارف کروانے کے لیے ان کا دیگر زبانوں میں ترجمہ کرنا ہو گا۔

جن افراد کو دنیا میں دیگر زبانوں پر عبور ہو وہ یہ کام کرنے میں مدد دے سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر سید مجاہد علی نہ صرف اردو اور انگریزی بلکہ نارویجین میں بھی لکھتے ہیں۔ میں سمجھتی ہوں کہ عصر حاضر کی خواتین اردو لکھاریوں جیسا کہ لینہ حاشر کی کتاب کا ترجمہ انگریزی، جاپانی، چینی، روسی اور جرمن زبانوں میں کیا جانا چاہیے تاکہ ان کے کام کو بین الاقوامی پذیرائی ملے۔

لبنیٰ مرزا۔ ایم ڈی، ایف اے سی ای
نارمن، اوکلاہوما، امریکہ
٭٭٭

تین گھنٹے سے زیادہ چلنے والی ہم سب کی شارٹ سٹوری رائٹنگ کی کلاس: فہمیدہ یوسفی

جب بھی ہم اپنا پسندیدہ کام کرتے ہیں تو ہمیں وقت گزرنے کا احساس نہیں ہوتا۔ یہ پسندیدہ کام اپنی مرضی کی کتاب پڑھنا۔ مووی یا ڈرامہ دیکھنا، پینٹنگ کرنا، اپنے پودوں اور پرندوں کے ساتھ وقت گزارنا کوکنگ کرنا کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ اور جب ہم اپنے کسی پسندیدہ ترین شخص سے بات کر رہے ہوں تو ہمیں وقت گزرنے کا احساس ہی نہیں ہوتا۔

ہم سب میں سے شاید ہی کوئی ہو گا جو کلاس روم میں ایک گھنٹے کے لیکچر کے بعد بور نہیں ہوا ہو گا اور اپنی جماہیوں کو روک کر کلاس ختم ہونے کی دعا نہ کی ہو۔ لیکن کوئی کلاس ایک نہیں دو نہیں تین گھنٹے سے بھی زیادہ چلے اور اور اس میں موجود طلبہ کو ایسا لگے کہ اتنی جلدی کیسے کلاس ختم ہو گئی۔ لیکن جب پڑھانے والا استاد وجاہت مسعود ہو اور ان کا ساتھ دینے کے لیے ہمارے ہر دلعزیز (ظالم) ایڈیٹر عدنان خان کاکڑ ہوں تو وقت فاصلے بے معنی سے ہو جاتے ہیں۔

ہم سب کی شارٹ اسٹوری رائٹنگ کی کلاس میں پاکستان ہی نہیں بلکہ امریکہ اور کینیڈا سے بھی بہت بہترین لوگ شامل ہیں جن کو سیکھنے کی چاہ ہے اور کہتے ہیں نا جہاں چاہ وہاں راہ۔ تو اب ذرا یہ دیکھتے ہیں کہ ہماری چاہ اور راہ میں ہم نے کیا سیکھا۔ وجاہت مسعود کے وسیع مطالعے اور زبان پر عبور سے وہ لوگ تو واقف ہوں گے ہی جو ان کے کالمز باقاعدگی سے پڑھتے ہیں۔ لیکن وہ استاد کتنے بہترین یہ تو وہی بتا سکتے ہیں جنہوں نے ان سے کچھ سیکھنے کا شرف حاصل کیا ہو۔

ڈاکٹر لبنیٰ کی طرح کلاس میں جب بھی کسی تاریخی فن پاروں پر گفتگو ہو تو میری بھی کوشش ہوتی ہے کہ ان کو پڑھوں میری لائبریری میں لیو ٹالسٹائی کی وار اینڈ پیس موجود ہے اور اس کا اردو ترجمہ بھی لیکن میں نے مکمل ابھی تک نہیں کی ہے۔

خلیل جبران کی پروفٹ میں نے وقفے وقفے میں پڑھ رکھی ہے لیکن پھر پڑھوں گی۔

لبنی ٰنے کہا کہ خاص طور پر وہ افراد جنہوں نے میڈیسن یا قانون پڑھا ہو اور ان کو ادب یا تاریخ کے مطالعے کا زیادہ وقت یا موقع نہ ملا ہو، ان کے لیے یہ کلاس اور بھی زیادہ مفید ہے۔ ہم میں سے جو لوگ کالج میں اناٹومی اور فزیالوجی پڑھ رہے تھے، ان کے لیے ادب اور اس کی تاریخ کے مطالعے کا یہ دوسرا چانس ہے۔ لیکن میرا ماننا ہے کہ جن لوگوں کا تعلق صحافت اور لکھنے سے ہے جیسا اسکرپٹ رائٹنگ کاپی رائٹنگ ان کو یہ کلاس لازمی لینا چاہیے۔ اچھا استاد آپ کو سوچنے کے لیے نئی جہت دیتا ہے۔

فہمیدہ یوسفی
٭٭٭

اس کلاس میں یہ سیکھا کہ مسلسل محنت اور مشق ہی تخلیق کار کا ہتھیار ہے: رخسانہ فرحت

ہم سب کی شارٹ سٹوری رائٹنگ کلاس ہمارے لئے ایک اعزاز ہے۔ اور جب وجاہت مسعود صاحب لیکچر دیں تو ہم اس قدر محو ہو جاتے ہیں کہ یہ بھول جاتا ہے کہ ہمارے دائیں بائیں دو منکر نکیر مسلسل بول رہے ہیں اور ہم ان کو ہاں، ہوں کی شکل میں جواب دے رہے ہیں۔ اکثر ”سوال گندم، جواب چنا“ ہو جاتا ہے۔

یہ واحد کلاس تھی جس سے پچھلی رات ہم نے جاگ کر گزاری اور دن سوتے جاگتے گزرا۔ لیکن جو کہتے ہیں کہ شوق کا کوئی مول نہیں وہ سچ کہتے ہیں۔ ہم نے کلاس جوائن کی اور اڑھائی گھنٹے تک آنکھیں موندے سب کچھ سنا۔ اور وہ جو یہ کہتے ہیں کہ نیند کا کیا ہے، سولی پہ بھی آ جاتی ہے ان کو جھوٹا ثابت کیا۔

اس کلاس میں یہ سیکھا کہ مسلسل محنت اور مشق ہی تخلیق کار کا ہتھیار ہے۔ آپ اپنی بھڑاس، غصہ جو بھی ہے الفاظ کی صورت ورق پہ انڈیلتے جائیں۔ دل سے لکھی تحریر ہی دلوں کو چھو جاتی ہے۔ آپ لکھتے جائیں اور وقت آپ کی تحریر کو کس درجے پہ لے جاتا ہے وہ وقت پہ چھوڑ دیں۔ پاکستان جیسے ملک میں رائٹنگ آمدنی کا ذریعہ نہیں بن سکتا۔ ہاں البتہ اس سے آپ کے اندر کے تخلیق کار کو سکون ضرور ملتا ہے۔ اس کلاس میں جب یہ ڈسکس ہوتا ہے کہ فلاں کتاب، فلاں ناول، فلاں رائٹر تو ہمارے دل پہ چوٹ پڑتی ہے۔ لگتا ہے کہ ہم نے ابھی تک کچھ نہیں پڑھا۔ کتابیں سیلاب بہا کے لے گیا، جو بچ گئیں وہ دیمک کی نذر ہو گئیں۔

ہمارے لئے اب یہی کلاس ہی کل متاع ہے۔ دعا ہے اللہ ہمیں سر وجاہت جیسا حافظہ اور عدنان کاکڑ جیسی لائبریری اور لینہ حاشر صاحبہ جیسے الفاظ کی دولت عطا فرمائے۔ (آمین) کہ ہم اس میدان میں ابھی تک طفل مکتب ہی ہیں۔

رخسانہ فرحت
٭٭٭

آخری نتیجہ، صرف محنت اور بہت زیادہ پڑھ کر لکھنے کی مشق: سید محمد زاہد

تقریباً سب کچھ اوپر بیان ہو چکا ہو اس لیے میں اس کلاس پر صرف تبصرہ کروں گا۔

اس دن میں ایک پراپرٹی کی جھگڑے میں الجھا ہوا تھا جو ابھی بھی چل رہا ہے۔ بہت ٹینشن تھی۔ بار بار فون کالز آ رہی تھیں۔ لیکن تقریباً پوری کلاس اٹینڈ کی۔

مجھے تو ساری گفتگو سے ایک حوصلہ افزا نتیجہ ملا کہ اچھی اور مقبول تحریر کیسے لکھنی ہے اور کب لکھنی ہے۔ بندے کے سوچنے والی بات نہیں۔ محنت کریں اور لکھتے جائیں۔ کون سی تحریر نے عروج حاصل کرنا ہے؟ یہ اندازہ نہیں لگایا جاسکتا۔ مجھے پکا یقین ہے کہ محترمہ لینہ حاشر نے خود بھی نہیں سوچا ہو گا کہ یہ تحریر اتنی زیادہ مقبول ہو جائے گی۔

ہاورڈ کارٹر کو اندازہ بھی نہیں تھا کہ وہ ایک ایسی دریافت کر لے گا جس کا اگلی کئی صدیوں تک شاید مقابلہ نہ کیا جا سکے۔ بلکہ اس کا فنانسر تو مسلسل ناکامیوں سے نا امید ہو کر اس کا ساتھ چھوڑنے کی تیاری کر رہا تھا۔

میرا ایک مسئلہ بھی حل ہوا۔ میں اکثر اپنی تحریروں میں ترکیبات کسی اور مصنف کی استعمال کرتا ہوں۔ جن میں میر انیس میر تقی میر مجھے بہت پسند ہیں۔ اور کبھی کبھی پورے فقرے بھی اٹھا لیتا ہوں۔ مثلاً میرے سزا افسانے کا مرکزی فقرہ میں نے ایک افسانے سے لیا تھا

عورت کی جڑ تو خاک بدہن اس کا پروردگار بھی نہیں جانتا۔
اسی طرح اس جملے کا آخری حصہ فیض صاحب سے مستعار لیا گیا ہے
گول چہرے کے ٹھہرے ہوئے مانوس نقوش۔

استاد محترم بھی یہ کرتے ہیں۔ سن کر دل کو حوصلہ ہوا۔
باقی آخری نتیجہ یہی ہے کہ
صرف محنت اور بہت زیادہ پڑھ کر لکھنے کی مشق۔
بہت شکریہ۔
سید محمد زاہد


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments