عورتوں کے حقوق اور صنفی مساوات


دنیا بھر میں 8 مارچ کو خواتین کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ آج کے معاشرے میں عورت کا کردار مسلمہ ہے۔ خاتون خانہ سے لے کر اہم عہدوں پر فائز عورتیں ہر شعبے میں اپنا کردار بخوبی نبھا رہی ہیں اور ہر میدان میں اپنا لوہا منوا رہی ہیں دفتر ہو یا گھر، آج کی عورت ہر فن مولا ہے آج کی عورت با ہمت، قوت، عزم، محبت، اور ایثار کے جذبے سے سرشار ہے اس کائنات میں عورت کا کردار تیزی سے بدل رہا ہے خواتین اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ ساتھ خود کفیل اور سیاست، کھیل، تعلیم، ٹیکنالوجی، تفریح، ہر میدان میں کامیابیوں کے جھنڈے گاڑ رہی ہیں ملک کی ترقی اور خوشحالی کے لئے اپنا کردار ادا کرنے میں بھی آج کی خواتین کسی طرح پیچھے نہیں۔

یہ دن جو کہ بین الاقوامی طور پر خواتین دن منایا جاتا ہے جس میں عورتوں کی زندگی، حقوق اور دیگر مسائل پر روشنی ڈالی جاتی ہے۔

اس دن کے حوالے سے گزشتہ روز ایک غیر سرکاری تنظیم نے جنسی مساوات پر ایک سیمینار کا اہتمام کیا تھا جو بحث و مباحثہ کے علاوہ کچھ نہیں تھا۔ اصل معرکہ اس وقت شروع ہوا جب ایک دوست نے عورتوں کے حقوق پر سوال اٹھایا کہ میں پانچ سالوں سے اس حوالے سے ورکشاپس اور سیمیناروں میں شرکت کر رہا ہوں لیکن ابھی تک یہ بات واضح نہیں عورتوں کے کن حقوق کے بارے میں آواز بلند کی جا رہی ہے۔ ایک تو وہ حقوق ہیں جو ہمارے معاشرے نے عورت کو دیے ہیں دوسرے وہ ہیں جو ہمارے قانون کے مرہون منت ہیں تیسرے وہ ہیں جو مغربی ممالک سے درآمد کردہ ہیں اور چوتھے جو ہمارے مذہب اسلام نے عورتوں کو دیے ہیں اور مزے کی بات یہ ہے کہ یہ چاروں ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔

عورتوں کو حقوق تو ضرور دینے چاہئیں مگر میں گومگو کی اس کیفیت کا شکار ہوں کہ کون سے؟ ہمارے پختون معاشرے میں عورت جن حقوق کی حامل ہے ان میں کچھ ایسے ہیں جن پر لوگوں کو کچھ اعتراضات ہیں مثلاً پابندیاں سورہ اور ان کی مرضی کے بغیر نکاح شامل ہیں اس کے علاوہ سخت پردہ کی تاکید کی جاتی ہے۔ جو حقوق ہمارے قانون نے دیے ہیں ان میں عزت و تقدس کا احترام تحفظ تعلیم شامل ہیں جو حقوق یورپ اور مغربی ممالک سے ہمارے معاشرے میں پھیلے ہیں ان میں تو سب سے پہلے آزادی ہے جس میں سب کچھ شامل ہے اور اگر اسلامی حقوق جو ہمارے مذہب نے عورت کو دیے ہیں سمجھنے کی صحیح طور کوشش کی جائے تو شک و شبہ کی گنجائش بھی نہیں رہتی اور ہر چیز روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے۔

جو لوگ جنسی مساوات کی بات کرتے ہیں ان کو بھی صحیح طریقے سے معلوم ہو جائے گا کہ اسلام میں عورت کے حقوق کہاں سے شروع ہو کر کہاں ختم ہوتے ہیں اور مرد کو ہمارے اسلامی معاشرے میں کیا مقام حاصل ہے۔ اس سے قبل وراثت کی تقسیم میں اسلام نے عورت کے حق کو ادا کرنے پر زور دیا ہے لیکن مرد کو وراثت میں دوگنا حصہ بھی دیا ہے۔ یعنی ایک حصہ بہن کا اور دو حصے بھائی کے ہیں۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ترجمہ۔ مرد عورت پر حاکم ہے۔

اگر ازدواجی معاملات کو لے لیں تو مرد اگر طلاق دے سکتا ہے تو عورت خلع لے سکتی ہے۔ عورت کی قدر و منزلت کے بارے میں نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص دو بیٹیوں کی صحیح پرورش کرے تو جنت میں ان کے ساتھ ایسا ہو گا جس طرح دو انگلیاں ایک دوسرے کے قریب ہوتی ہیں۔ اسلام نے تعلیم و تعلم پر کسی بھی قسم کی پابندی نہیں عائد کی اسلام میں تعلیم و تعلم کا فریضہ مسلمان مرد اور عورت دونوں پر ہے اسلام میں عورت کی ملازمت پر بھی کوئی ممانعت نہیں ہے لیکن خاص مواقع پر اس کی اجازت دی گئی ہے جس میں پردے اور ماحول کی شرط لازم ہے۔

اسلام یہ بھی کہتا ہے کہ ماں کے پاؤں کے نیچے جنت ہے نبی کریم ﷺ سے کسی نے پوچھا کہ ماں اور باپ میں سے کس کا درجہ افضل ہے تو انہوں نے ارشاد فرمایا کہ ماں ماں ماں اور پھر فرمایا باپ۔ اسی سیمینار میں جس میں میرے دو ہم پیشہ دو سینئر صحافی بھی براجمان تھے جنسی مساوات پر زور دیا گیا اور غالباً ان کا اپنا ضمیر بھی مجلس میں کی گئی آراء سے مختلف تھا۔ میں بھی دیگر صحافیوں کی طرح تین گھنٹوں تک یہی باتیں سنتا رہا کہ مرد اور عورت تو بس صرف ایک انسان کی دو اولادیں ہیں اور یہ دونوں یکساں حیثیت کے حامل ہیں۔

ان کو ایک دوسرے پر کوئی فوقیت حاصل نہیں ہمارے کئی صحافی برادری کے لوگ بھی اس سیمینار میں ان کی ہاں میں ہاں ملاتے رہے کیونکہ ہمارے جو دو سینئرز تھے ان کی ہاں کے ساتھ ہاں ملانا ضروری تھا تاکہ وہ ناراض نہ ہو جائیں لیکن ان کو کیا معلوم تھا کہ ان کی آراء ملنے والے پیسے کے زیر اثر ہیں جو کہہ رہے تھے کہ یورپی ممالک اس لئے ہم سے آگے ہیں کہ وہاں عورتوں کو ہر قسم کی آزادی حاصل ہے اور ہر کام سے واقف ہیں۔ میں جو ان میں ایک ان پڑھ جاہل کی طرح سوچ رہا تھا کہ مرد کو عورت پر اسلام اور پختون معاشرے دونوں میں فوقیت حاصل ہے۔

اگرچہ میری سوچ ان سے مختلف تھی مگر دلائل سے ثابت کی جا سکتی تھی۔ ایک صاحب نے تو جواب دیا کہ آپ قبائلی لوگ سخت مزاج ہیں اور خواتین پر جبر کرنا آپ کا رواج ہے تو باقی کئی دوست یک زبان ہو کر بولے کہ اسے دلیل دے کر ثابت کردی جائے۔ میں نے کہا کہ یہاں اپنے سینئرز سے کئی گھنٹوں سے سن رہا تھا کہ مرد و عورت ایک ہیں اور دونوں یکساں حقوق کے حقدار ہیں اور انہیں یکساں آزادی بھی دینی چاہیے کیا یہ لوگ صرف دوسروں کی بیٹیوں کے لئے یکساں آزادی چاہتے ہیں یا اپنی اولادوں کے بارے میں بھی ان کا یہی خیال ہے۔ کیا آپ لوگوں میں سے کسی کی بیٹی یا بہن کو بازاروں میں دوسرے غیر مرد کے ساتھ گھومنے پھرنے کی اجازت ہے۔ اس سوال سے ان کے سر جھک گئے اور انہوں نے جواب دیا کہ ہم تو صرف تعلیم صحت اور دیگر سہولیات کے حوالے سے یکساں حقوق کی بات کرتے ہیں اس پر میں نے جواب دیا کہ پھر تو سیمینار کا عنوان ہی غلط ہے۔

ہمارا مذہب اور ایمان بھی کچھ باتوں سے ہمیں منع کرتا ہے بے شک عورت کے مرد کے ساتھ یکساں حقوق ہیں والد کو بیٹا بیٹی کو ایک ہی نظر سے دیکھنا چاہیے لیکن عورت پر مرد کو اس لئے فوقیت حاصل ہے کہ دنیا میں سب سے پہلے آدم علیہ السلام تشریف لائے تھے اور حوا علیہا السلام کو ان کی بائیں پسلی سے پیدا کیا گیا۔ یہ ہرگز نہیں کہنی چاہیے کہ عورت تعلیم حاصل نہ کرے لیکن عورت کی آزادی اور مرد کے ساتھ کھلے ملاپ یا میل جول کی ممانعت ہونی چاہیے۔ دوسری طرف ہمارے پختون معاشرے میں بھی عورت کو گھر کی چار دیواری کے اندر رہنے پر زور دیا گیا ہے اس کی وجہ ہمارے پختون معاشرے میں قتل و مقاتلے کی وہ وارداتیں ہیں جو رشتوں کے تنازعوں سے جنم لیتی ہیں اور جس کی بیوی بیٹی یا بہن یورپی طرز زندگی اپنا چکی ہو اس کی ہمارے موجودہ معاشرے میں کوئی حیثیت نہیں۔

ہر عورت کو اچھی نظر سے دیکھنا چاہیے چاہے بیوی ہو بہن بیٹی ہو کیونکہ مردانگی کی بہترین سطح یہ ہے کہ مرد کی وجہ سے عورت کی آنکھ میں آنسو نہ آئے۔ مختلف کتب میں درج ہے اور اکابرین بھی فرماتے ہیں کہ سر پر دوپٹہ ر کھنے سے عورت اللہ کی رحمت کے سائے میں ہوتی ہے حیا بڑی دولت ہے اور جو عورت اس دولت کو سنبھال کر چلنا جانتی ہے کبھی کنگال نہیں ہوتی۔ شیطان کا پہلا شکار حیا ہوتی ہے اور اگر کوئی ایک بار بے حیائی کے راستے پر گامزن وہ جائے تو پھر اس کو کوئی برائی سرے سے برائی لگتی ہی نہیں اور اس پر تمام معاشرہ متفق ہے کہ بے حیائی تمام برائیوں کی جڑ ہے۔

جو خواتین پردہ کرتی ہیں انہیں اپنے آپ پر فخر ہونا چاہیے کیونکہ دنیا میں بہت سی کتابیں ہیں مگر غلاف صرف قرآن پاک کو چڑھایا جاتا ہے دنیا میں بہت سی عمارتیں ہیں مگر صرف خانہ کعبہ کو ہی ڈھانپا جاتا ہے اسی طرح دنیا میں کثیر تعداد میں عورتیں ہیں مگر پردہ صرف مسلمان عورتیں ہی کیا کرتی ہیں۔ یہ کہ صرف عزت والی چیزوں کو ہی پردے میں رکھا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں فرماتا ہے ترجمہ۔ اور عورتوں کو چاہیے کہ وہ اپنے گھروں میں آرام سے بیٹھی رہیں اور زمانہ جاہلیت کی خواتین کی طرح زینت دکھاتی نہ پھرا کریں۔

ایک سروے کے مطابق ہمارے معاشرے میں ٹک ٹاک گھریلو ناچاقیوں کا سبب بھی بنا ہے جو کہ معاشرہ بالکل بے حیائی کی طرف جاتا ہے ۔ اصل وجہ یہ ہے کہ تھوڑی دیر کا ہنسی مذاق یا تفریح عمر بھر کی رسوائی اور شرم کا باعث بن سکتی ہے یہاں تک کہ سکول، کالجز اور یونیورسٹیوں میں ٹک ٹاک نے ہمارے نوجوان لڑکیوں کو اس حد تک گھیرے میں لیا ہے کہ یہ کچھ عناصر اس کو عورتوں کے حقوق کے زمرے میں لاتے ہیں مگر ان سے نوجوان نسل اور خواتین کا مستقبل مکمل تاریک ہوتا جا رہا ہے۔ جو حقوق اسلام نے دی ہیں بس یہ عورت کا مقام اور مرتبہ ہے نہ کہ مغربی نظام کی پیروی کرنا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments