جج غلطی کر بیٹھا ہے


اقتدار لوگوں کو بے نقاب کر دیتا ہے۔ اختیار ملنے سے لوگ بدل نہیں جاتے، آشکار ہو جاتے ہیں۔  نشہ طاقت کا ہو یا مسکرات کا، ماسک نوچ لیتا ہے، بلکہ یوں سمجھئے کہ جبہ، خِرقہ، کرتا، ٹوپی سب کچھ اتار لیتا ہے۔ یہ بڑا دل چسپ نظارہ ہوتا ہے، گویا حفیظ کی خواہش پوری ہوجاتی ہے ’یہ خوب کیا ہے یہ زشت کیا ہے، جہاں کی اصلی سرشت کیا ہے ….. بڑا مزہ ہو تمام چہرے اگر کوئی بے نقاب کر دے۔‘

ہماری عدلیہ کی تاریخ میں جسٹس منیر اور انوار الحق سے ارشاد حسن خان تک بڑے بڑے ’معزز‘ جج آئے ہیں جن کے چند فیصلوں نے اس قوم کو قعرِ مذلت میں پھینک دیا۔ جب جب پاکستان کی ناقابلِ فخر عدالتی تاریخ کا ذکر ہوتا ہے، ان جج صاحبان پر تبرّا بھیجنا واجب سمجھا جاتا ہے۔ ان ججوں کے ہوتے ہوئے اپنی جگہ بنانا اور ’عزت‘ کمانا کوئی چھوٹی بات نہیں ہے، لیکن قوم کے ایک سپوت نے اس ناممکن کو ممکن کر دکھایا ہے، اس نے ثابت کیا ہے کہ اگر لگن سچی ہو، ضمیر کا کوئی جھگڑا نہ ہو، اور دربارِ خاکی سے خصوصی ’توفیق‘ ملے تو انسان نئے پاتال دریافت کر سکتا ہے، نئے گٹر بہا سکتا ہے، ایسے گٹر جن کے تعفن کو دوام حاصل ہو، جن کی نجاست ابدی ہو۔

حضرت ثاقب نثار کے تازہ فرمودات خاصے کی چیز ہیں، فرماتے ہیں ’دیکھو مجھے جو دیدہ عبرت نگاہ ہو…..میری سنو جو گوشِ نصیحت نیوش ہے‘۔ یہ الفاظ ان کے تو نہیں ہیں، مگر یہ ان کے اقوال کاست ہے۔ ثاقب نثار کہتے ہیں میں انسان ہوں مجھ سے بھی غلطیاں ہوسکتی ہیں۔ واہ، سبحان اللہ۔ ثاقب صاحب یوں کہہ رہے ہیں جیسے وہ فلم ایکٹر شاہد کے رقعے حسیناﺅں تک پہنچانے کی غلطی کا ذکر کر رہے ہیں، قبلہ، آپ تو قاضی القضات تھے، آپ تو زندگی اور موت کا فیصلہ کرتے تھے، آپ توقوم کی تقدیر کا فیصلہ کرتے تھے، آپ کے فیصلوں نے تو جما جمایا ملک اکھاڑ دیا، آپ کے فیصلوں کی سزا تو کروڑوں لوگوں نے بھگتی ہے، آج بھی بھگت رہے ہیں، اور آپ کتنی سادگی سے کہہ رہے ہیں مجھ سے غلطیاں ہوئی ہیں۔ ثاقب صاحب کون سی غلطیاں ہوئی ہیں؟ کچھ وضاحت فرمائیے۔ آپ ببانگِ دُہل کہا کرتے تھے کہ نواز شریف کو الیکشن سے پہلے نااہل کرنا ہے، کیا آپ اس غلطی کا ذکر کر رہے ہیں؟ یا ڈیم فنڈ کے نام پر آپ نے جو برہنہ واردات ڈالی، آپ اس غلطی کا ذکر کر رہے ہیں؟ ثاقب صاحب، ہمت کریں، قوم کو بتائیں آپ نے دانستہ کس کس سے زیادتی کی، شاید اس زیادتی کا جزوی ازالہ اب بھی ممکن ہوسکے؟ مگر آپ میں تو اب بھی یہ اخلاقی جرات نہیں کہ آپ اپنے عدالتی جرائم کا اعتراف کر سکیں۔ ثاقب صاحب نے کہا ہے کہ انہوں نے ایک کتاب لکھی ہے جو ان کی وفات کے بعد چھپے گی، یعنی اپنی زندگی میں وہ اعترافِ جرم کی اخلاقی جرات نہیں رکھتے؟ ویسے ایسی حرکتیں کی ہی کیوں جائیں جن کے اقرار کے لئے آدمی کو اپنی ہی موت کا انتظار کرنا پڑے۔ کل شبِ برات گزری ہے، زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہے، ہم بہر صورت وہ کتاب جلد از جلد پڑھنا چاہتے ہیں۔

میاں ثاقب نثار کی تازہ گفتگو کا سب سے دل چسپ حصہ عمران خان کے حوالے سے ہے، فرماتے ہیں میں نے عمران کو کاملاً صادق اور امین قرار نہیں دیا تھا۔ اس کا کیا مطلب ہوا؟ ہم نے تو آج سے پہلے کبھی ’جزوی صادق ‘ یا ’پارٹ ٹائم امین‘ کی اصطلاحات نہیں سنیں۔ ثاقب نثار کیا کہنا چاہ رہے ہیں؟ عمران خان آدھے صادق ہیں اور آدھے کاذب؟ عمران خان صبح امین ہوتے ہیں اور رات کو خائن؟ ثاقب نثار صاحب ہی بتا سکتے ہیں کہ انہوں نے ایسی مقدس اصطلاحات کا استعمال ایک ہاف بوائل صادق و امین کے لئے کیوں کیا؟ آدھا صادق اور آدھا امین تو ہر دوپایہ ہوتا ہے۔مسلمانانِ عالم نے تو یہ اصطلاحات سرکارِ دو عالم سے مخصوص کر رکھی ہیں۔ ثاقب نثار صاحب، آپ نے گینگ کے منصوبے پر عمل کرتے ہوئے یہ نہیں سوچا کہ ’کچھ سخن تو زباں کے تھے ہی نہیں‘۔ ثاقب نثار وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میں نے تو یہ اصطلاحات عمران خان کے صرف ایک کیس کے حوالے سے استعمال کی تھیں۔ اس وضاحت سے بھی ثاقب صاحب کی ’خوش نیتی‘ واضح ہے۔ایک ایسا کیس جس میں عمران خان نے سات دفعہ منی ٹریل پر موقف بدلا، اس کیس میں ثاقب نثار نے انہیں صادق و امین قرار دیا تھا۔بلا شبہ، سابق چیف جسٹس کا سینس آف ہیومر انتہائی ڈارک ہے۔’ڈارک‘ سے خیال آیا کہ ثاقب نثار صاحب نے یہ بھی اعتراف کیا ہے کہ وہ فیض حمید صاحب سے رابطے میں رہتے ہیں۔ بہرحال، اس میں کوئی معیوب بات نہیں ہے، گینگ کے ممبرز کو رابطے میں رہنا چاہئے۔ ویسے لمحہ بھر کو سوچئے ثاقب نثار اور فیض حمید آپس میں کیا باتیں کرتے ہوں گے؟ پی ایس ایل میں کراچی کنگز کی مایوس کن کارکردگی پر ایک دوسرے کو دلاسہ دیتے ہوں گے یا ’بے شرم رنگ ‘ میں دیپکا پاڈوکون کے مختصر لباس کا تفصیلی جائزہ لیتے ہوں گے؟ اندازہ تو لگائیے، ایک سابق چیف جسٹس ایک سابق جاسوسِ اعلیٰ سے آخر کن موضوعات پر بات کرتے ہوں گے؟ خدا جانے Axis of Evil کو اردو میں کیا کہتے ہیں۔

وہی ہوا جس کا اندیشہ تھا، ایک کالم میں ثاقب نثار کے اوصافِ حمیدہ نہیں سمیٹے جا سکے، نہ ان کے الوہی لہجے کا ذکر ہو سکا، نہ ان کے خدائی رویے کا بیان ہو سکا۔ افسوس تو یہ ہے کہ وہ اب بھی ’بندہ‘ بننے پر تیار نہیں ہیں۔ قبلہ، اب بھی وقت ہے، اعتراف جرم کیجئے، قوم سے معافی مانگئے۔ ورنہ قومی مجرم جب دنیا سے چلے جاتے ہیں تو ان کی قبروں پرسکیورٹی کا معقول بندوبست کرنا پڑتا ہے تاکہ انہیں کفش بردار ’عقیدت مندوں‘ سے بچایا جا سکے۔

(بشکریہ روزنامہ جنگ)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments