صنفی توازن کی ضرورت: عورت اور معاشرے دونوں کے لئے


ہمیشہ کی طرح اس دفعہ بھی عالمی یوم نسواں پر لکھنے کو بہت کچھ ہے۔ صنفی مساوات؛ عورت کی مرضی کا احترام؛ گھر اور باہر ہر جگہ پر عورت کو تحفظ؛ شرم و حیا، اخلاقیات و کردار، اور خاندان کی عزت کو صرف عورت کی ذات سے منسلک کر دینا؛ اور سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ عورت کو بھی انسان سمجھا جائے۔ عورت کو مکمل انسان اور ذاتی شناخت کی حامل سمجھ لینے سے ہی کئی صنفی مسائل کا حل ممکن ہے۔ ذاتی شناخت سے مراد ہے کہ عورت کسی کی بیٹی، بہن، ماں، یا بیوی کے علاوہ بھی ایک حیثیت اور مقام رکھتی ہے۔ یہ وہ معاملات ہیں جو سب سے زیادہ توجہ کے متقاضی ہیں۔

صنفی مساوات ہمیں اپنے گھر سے شروع کرنا ہوگی۔ لڑکے لڑکی اور بیٹے بیٹی کا فرق ختم کر کے ہی صنفی مساوات قائم کی جا سکتی ہے۔ جب لڑکے کو گھر میں زیادہ اہمیت، زیادہ محبت اور توجہ، زیادہ بہتر چیزیں، اور منفی رویوں پر غیر ضروری رعایت ملے گی تو وہ بالغ ہو کر گھر، دفتر، اور ہر جگہ پر خود کو خواتین سے بالاتر سمجھے گا۔ ہمارے ہاں لڑکوں کے منفی اور غلط رویوں مثلاً بدتمیزی و بدزبانی، آوارہ گردی، بد سلیقگی، وحشیانہ پن، اور جنسی ہراسانی کو یہ کہہ کر نظرانداز کر دیا جاتا ہے کہ لڑکے ایسے ہی ہوتے ہیں۔ غلط کو غلط کہنا اور اس کے خلاف احتجاج ہی درستی کی طرف پہلا قدم ہے۔ یہ پہلا قدم ہمیں فوراً اٹھانا ہو گا۔ خاموش تماشائی بنے رہنے سے ہم نہ صرف دوسروں کو بلکہ خود کو بھی غلط فعل کا شکار کر لیتے ہیں۔

عورت کی مرضی کا احترام ہر معاملے میں لازمی ہے۔ خواہ کسی سے دوستی، تعلق، یا شادی کا معاملہ ہو یا ازدواجی تعلقات، تعلیم اور پیشے کا انتخاب، یا روزمرہ استعمال کی چیزیں ہوں، عورت کو پسند و ناپسند کے اظہار اور انکار کا حق ہے۔ ڈاکٹر خالد سہیل نے بھی ایک حالیہ مضمون میں یہ بات کہی کہ ہمارے معاشرے میں مرد، عورت کو اپنی ملکیت سمجھتا ہے۔ اسی لئے عورت کی مرضی کو اہمیت دینا تو درکنار، اسے نافرمانی اور بدتمیزی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ محبت یا پسند کی شادی کو بے حیائی سمجھا جاتا ہے۔ جب تک عورت کی مرضی کا احترام معاشرے میں رائج نہ ہو، تب تک مرد، حاکم اور بالادست اور عورت، محکوم اور زیر دست رہے گی۔ ایک طرف عورت اور مرد کو گاڑی کے دو پہیے کہا جاتا ہے اور دوسری طرف حاکم و محکوم کا رشتہ ہے جہاں برابری کا کوئی تصور نہیں۔

گھر، دفتر، اور ہر جگہ پر عورت عدم تحفظ کا سامنا کرتی ہے۔ جنسی ہراسانی سے لے جنسی تشدد تک عورت ہر جگہ تکلیف دہ حالات سے نبردآزما ہے مگر افسوس کہ ایسے معاملات میں اس کے خاندان والے ہی ساتھ دینے سے انکار کر دیتے ہیں۔

پدرسری نظام میں صابر عورت ہی مرد کی خوشنودی حاصل کر پاتی ہے خواہ یہ صبر اس کی جان ہی لے لے۔ ظلم و زیادتی اور منفی رویوں کے خلاف احتجاج کرنے والی عورت بدزبان، بے حیا، نافرمان، حتیٰ کہ جہنمی قرار پاتی ہے۔ حیرت انگیز طور پر ہراسانی بلکہ بدکاری میں ملوث مردوں کے خلاف کبھی کسی مولوی نے عذاب کی وعید نہیں سنائی۔

لوگ کہتے ہیں کہ گھر بسانے کے لئے عورت کو ہی قربانی دینا اور جھکنا پڑتا ہے۔ گھر بسانا صرف عورت کی ذمہ داری کیوں جبکہ کہا یہ جاتا ہے کہ عورت کا کوئی گھر نہیں ہوتا؟ کیا اس سوال کا جواب ہمارے مردوں کے پاس ہے؟ نہیں، ایسے سوالات کا جواب نہیں، جواب میں عورت کو گالی دی جاتی ہے۔ سسرال اور شوہر کے ظلم و زیادتی، نا انصافی، غربت، اور غیر ضروری سمجھوتے پر صبر کا درس یوں دیا جاتا ہے گویا صبر جنت الفردوس کا ٹکٹ ہے۔

شوہر کے ظلم برداشت کرنے، غربت میں روکھی سوکھی کھانے، دل پر پتھر رکھ کر سمجھوتہ کرنے، اور کسی بھی حال میں اف نہ کرنے والی عورت کو عموماً ہمارے ہاں نہایت عظیم المرتبت اور بہشتن قرار دیا جاتا ہے۔ بحیثیت مسلمان جنت الفردوس کے وجود پر یقین ضرور ہے لیکن اس کے لئے عورت کی زندگی جہنم بنا دی جائے، یہ بات قطعاً ناقابل قبول ہے۔

گھر، دفتر، اور باہر ہر جگہ پر عورت کو ہر طرح کے تحفظ کا حق ہے۔ میرا جسم میری مرضی کا مطلب بھی تحفظ ہے، لیکن مردوں نے اسے مسترد کرنے کے لئے اس کا مطلب فحاشی لے لیا ہے۔ در حقیقت اس کا مطلب جنسی و جسمانی تحفظ ہے۔ جان و مال اور آبرو کا تحفظ، مالی اور جذباتی استحصال سے تحفظ، صحت کا تحفظ ہر عورت کو ملنا چاہیے۔ یاد رہے کہ تحفظ کی ضرورت وہیں ہوتی ہے جہاں عورت کو تماشا اور کھلونا، اور دیکھنے کی چیز یعنی سیکس ٹول سمجھا جائے۔

عورت کو برابر کی انسان اور برابر کے مقام کی حقدار تبھی سمجھا جائے گا جب مردوں کا رویہ تبدیل ہو گا۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ مردوں یا لڑکوں کی تربیت کی تمام ذمہ داری عورت یعنی ماں پر عائد نہیں ہوتی۔ مثبت اور منفی میں فرق کرنے کا شعور اور عقل ہر مرد اور لڑکے کو دی گئی ہے۔ صرف اس کے استعمال اور مثبت روئیے اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔

شرم و حیا اور اخلاقیات و کردار کا حکم صرف عورتوں کے لئے نہیں، مرد کو بھی ان کا برابر حکم دیا گیا ہے۔ جہاں مرد کی برائی کو غلطی جبکہ عورت کی برائی کو گناہ قرار دیا جائے، وہاں عورت کی عزت کا اندازہ قارئین خود لگا سکتے ہیں۔

عورت کی ذاتی شناخت کو تسلیم کیا جائے۔ کئی ڈراموں اور فلموں میں نسوانی کردار کو مسز فلاں کہہ کر مخاطب کیا جاتا ہے۔ اور حقیقت میں بھی ایسا ہی ہے۔ دعوت ناموں پر بھی مسٹر اینڈ مسز فلاں لکھا جاتا ہے۔ یعنی عورت کسی مرد کی بیوی بن کر ہی معتبر قرار پاتی ہے۔ افسوس!

شکر ہے کہ نادرا نے شناختی کارڈ پر عورت کے نام کے ساتھ شوہر کا نام لازمی لکھنے کی شرط ختم کر دی ہے۔ اب عورت شادی سے پہلے والے نام کو ہی شناختی کارڈ پر برقرار رکھ سکتی ہے۔ نادرا کے اس احسن اقدام سے طلاق شدہ خواتین کی بھی ایک بڑی مشکل دور ہو گئی ہے ورنہ پہلے انہیں سابقہ شوہر کا نام شناختی کارڈ سے ختم کروانے کے لئے طلاق نامے کی نقل اور بیان حلفی جمع کروانے کی زحمت اٹھانا پڑتی تھی۔

یہ بجا ہے کہ عورت کے لئے ماں، بہن، بیٹی، اور بیوی کا رشتہ قابل احترام ہے لیکن مصیبت یہ ہے کہ ان رشتوں کی چادر نے عورت کی ذاتی شناخت کو مخفی کر دیا ہے۔ بعض خواتین خود بھی تعارف کرواتے وقت اپنا نام بتانے کی بجائے خود کو مسز فلاں کہتی ہیں۔ یہ مسز فلاں کی معزز اصطلاح سن کر میں سوچتی ہوں کہ کیا یہ اس خاتون کا پیدائشی نام ہے۔

یہ پدرسری نظام کے اتنے راسخ اثرات ہیں جو ہمارے مزاج کا حصہ ہیں اور نارمل لگتے ہیں۔ لیکن بفضل تعالیٰ اب ان پر بات ہونے لگی ہے اور نارمل معاملات پر بھی سوال اٹھنے لگے ہیں۔ یہ سوالات ہمیں سوچنے اور درست سمت کی جانب آنے کی دعوت دیتے ہیں۔ اب یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم درست سمت کو قبول کرنے میں کتنا وقت لیتے ہیں۔ جتنا جلد ہم معاشرے میں صنفی توازن قائم کرنے میں کامیاب ہو جائیں، اتنا جلد ہم نہ صرف عورت کے لئے بلکہ اجتماعی زندگی میں بھی کئی مسائل سے نجات حاصل کر لیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments