”کس نے کہا تھا برکھا رت میں یوں بے دھیان انجان پھرو“ قسط۔ 6 (دوسرا حصہ)


صبح آنکھ کھلی تو موسم کافی بہتر تھا بارش رات کے کسی پہر رک گئی تھی۔ سورج نکلا ہوا تھا سفید بادل ہوا میں تیر رہے تھے موسم خوشگوار تھا ہوا میں اگرچہ ابھی تیزی تھی لیکن درخت خوشی سے جھوم رہے تھے ہر طرف پھول کھلے تھے تا حد نگاہ پھیلا ہوا درختوں کا سلسلہ دل میں سکون پیدا کر رہا تھا پرندوں کے جھنڈ اپنی اڑان میں تھے اور آسمان پر ان کی چہکار پھیلی ہوئی تھی۔ چونکہ ہمارے ساتھی رات کی دھما چوکڑی کی وجہ سے کافی لیٹ سوئے تھے سحر خیزی کہاں ہونا تھی۔

سب کو اٹھا کر کہا کہ تیار ہو کر ہال میں جمع ہوجائیں۔ آہستہ آہستہ سب لوگ ہال میں جمع ہونا شروع ہوئے۔ یہیں ناشتہ کیا اتنے میں دیکھا کہ درجنوں لوگ تولیے کندھوں پر رکھے آ رہے ہیں۔ میں حیران ہو کر دیکھ رہا تھا کہ ان سب نے ایک رنگ اور ایک ڈیزائن کے کمونو پہنے ہوئے تھے تولیے کندھوں پر رکھے ایک طرف چلے جا رہے تھے۔ وہ اس قدر ڈسپلن سے جا رہے تھے جیسے کوئی رجمنٹ ایڈوانس کر رہی ہو میں حیران تھا کہ نہ جانے یہ لوگ کہاں جا رہے ہیں میں نے مس چن سے پوچھا کہ یہ کون لوگ ہیں کیا یہ آرمی کے لوگ ہیں؟ وہ بھی حیران ہو کر ان کو دیکھ رہی تھی اس نے پاس سے گزرتی ایک ہوسٹس سے میرے والا سوال پوچھا تو وہ ہنس پڑی نہیں یہ مختلف علاقوں سے آئے ہوئے لوگ ہیں جنہیں ہم نے اپنی سرائے کا مخصوص کاسٹیوم دیا ہے۔

ادھر ایک بڑا حمام ہے یہ لوگ اسی میں کمیونل باتھ لینے جا رہے ہیں۔ میں آپ لوگوں کے لئے بھی کاسٹیوم لاتی ہوں۔ میں نے چٹر راج سے کہا کہ وہ جو پرانا محاورہ ہے ”ایک حمام میں“ یہ اس کی عملی شکل ہے۔

میں نے ہوسٹس سے نام پوچھا وہ مجھے کچھ کچھ انڈین لگ رہی تھیں۔ میرے پوچھنے پر ہوسٹس نے بتایا۔ میرا نام سشمیتا ہے، میرے والد انڈین ہیں۔

سشمیتا سن آپ کا نام بھی بہت پیارا ہے اور آپ کا انداز اس سے بھی پیارا ہے۔ مجھے لگتا ہے ”یہ اتنے سارے لوگ آپ کے حسن اخلاق کی وجہ سے اکٹھے ہوئے ہیں؟“ وہ مسکرائی نہیں جناب یہاں گرم پانی کا چشمہ ہے جو ہر لحظہ ابل رہا ہے اور رواں دواں ہے۔ لوگ دور دور سے گرم باتھ لینے آتے ہیں کچھ لوگ تو ان میں کئی کئی بار نہاتے ہیں۔ ساتھی ان کے ساتھ ہوتے ہیں ان کے گلے میں بانہیں ڈالے یہ ایک حمام کو انجوائے کرتے ہیں کہ یہ موقع جو ہاتھ لگا ہے اس کو جانے نہ دیں۔

پھر یہ موقع شاید نہ ملے آپ دیکھیں گے کہ اس علاقے کے تمام ہوٹل چوبیس گھنٹے کی شفٹ پر لگے ہوتے ہیں دن اور رات کے کسی پہر کسی بھی وقت جب دل کرے آپ آئیں اور گرم چشموں کے باتھ سے مستفید ہوں۔ دادا یہ سن کر فوراً کھسک گیا کہ میرا عبادت کا ٹائم ہو گیا ہے وہ جب بھی کوئی رنگین ماحول دیکھتا یا حسینوں کا جھرمٹ تو ہمیں فوراً چھوڑ کر ادھر چلا جاتا۔ ادھر بھی یہی ہوا کہ وہ سب سے پہلے حمام میں داخل ہوا۔ اور اس میں اڑ اڑ کر چھلانگیں مارتا پھرتا تھا۔

بڑی دیر بعد مس چن ہمیں تلاش کرتی اور مسکراتی ہوئی ہمارے کمرے میں پہنچی جھوٹے منہ غصے میں کہا۔ تم دونوں جھوٹے سورما ہو جو جنگ کا طبل بجتے ہی چھپ کر بیٹھ جاتے ہو۔ چلو نکلو آپ جس سورما کو لے کر گئی تھیں پہلے اس کا حال تو دیکھو۔ ہم اسے لے کر نہیں گئے تھے لیکن رحمن دادا وہ والنٹیئر ہے جو صحیح معنوں میں ہر کام میں ہمیشہ آگے آگے ہوتا ہے۔ چڑ راج نے کہا اب دیکھو بھیگی بلی بنا کونے میں بیٹھا ہوا ہے۔ مس چن نے مسکراتے ہوئے کہا لیکن وہاں یہ سورما بنا ہوا تھا۔ لگتا ہے اب اس کے جوش و خروش کی تلوار مڑ گئی ہے۔ اتنی چھلانگیں لگانے کے بعد اس عمر کے بندے کی یہ حالت تو ہونا تھی۔

ہم جلدی سے تیار ہو گئے کہ موسم بدلنے کا کوئی پتہ نہیں۔ کل کا دن بھی اسی موسم کی نذر ہو گیا کہیں آج کا دن بھی ضائع نہ ہو جائے، ادھر بہت مہنگائی بھی ہے چنانچہ سب لوگ تیار ہو کر جھیل ہاکونے Hakone دیکھنے چل پڑے۔ یہ دراصل گرم چشموں کا علاقہ ہے اور جاپانیوں کی توجہ اور دلچسپیوں کا مرکز ہے اور اب یورپین اور امریکی سیاحوں کی بھی آماجگاہ بن گیا ہے۔ یہ سارے لوگ جو جاپان آتے ہیں وہ جھیل ہاکونے کا چکر ضرور لگاتے ہیں۔ بے شمار جاپانی جوڑے خاص طور پر نئی زندگی کی ابتدا کرنے والے جوڑے جوان جذبے لئے ہوئے اپنی چھٹیاں منانے ہاکونے جھیل کے علاقے کا رخ کرتے ہیں۔

ہمارے سامنے ہاکونے جھیل تھی۔ یہ ایک انتہائی خوبصورت اور دلکش تھی حد نظر تک پھیلی ہوئی جھیل کا پھیلاؤ دیکھنے کے لائق تھا، ایک میل سے زائد چوڑائی اور اس کا خط ساحل تیرہ میل تک پھیلا ہوا ہے اس کی شکل خربوزہ کی مانند تھی۔ اس کی وسعت سے اس کی دلکشی کا اندازہ ہو تا ہے اس کے ساحل کے ساتھ ساتھ تاحد نظر ہوٹل اور رہائشی مکانات کی لائن لگی تھی۔ جھیل کے دونوں طرف سرسبز و شاداب پہاڑیاں ’اوپر آسمان پر تیرتے سفید بادل روح کو طمانیت بخش رہے تھے۔

سورج نے بھی کئی دنوں بعد بادلوں سے سر نکالا تھا اور بھلا معلوم ہو رہا تھا۔ نیلا آسمان‘ سرسبز شجر ’پھول اور پہاڑیوں کا عکس جھیل پر تیر رہا تھا۔ دن اگرچہ اتنا روشن نہیں تھا لیکن کل کی نسبت بہتر تھا، یہاں پر لوگوں کا ایک ہجوم تھا کچھ لوگ تو ہماری طرح کوسٹر پر آئے تھے، کچھ لوگ ٹوکیو کے اہم ترین اسٹیشن شنجوکو سے موٹوہاکونے اسٹیشن بذریعہ ٹرین پہنچے تھے اور پھر وہاں سے کیبل کار کے ذریعے جھیل تک آئے۔

ہم بھی ایک گھنٹہ پیدل چل کر کیبل کار تک پہنچے اور کیبل کار کے ذریعے نیچے جھیل پہنچے۔ کیبل کافی دیر تک چلتی رہی منظر بدلتے رہے لگتا تھا اردگرد کی پہاڑیاں اوپر اٹھ رہی ہیں اور ہم اوپر سے نیچے عمارتوں ہوٹلوں ریستورانوں اور چلتے پھرتے انسانوں کو دیکھ سکتے تھے جو دور سے کیڑے مکوڑے لگ رہے تھے۔ نیچے پہنچے تو کافی لوگوں کا ہجوم تھا۔ جو ٹکٹ آفس سے تفریحی کشتیوں کا ٹکٹ لے رہے تھے۔ لوگ گھوم پھر رہے تھے کچھ لوگ یہاں آبی بخارات کی دھار میں چل پھر رہے تھے۔

یہ سٹیم کئی مقامات سے اوپر اٹھ رہی تھی کچھ لوگ باغات میں چہل قدمی کر رہے تھے کچھ گفٹ شاپس پر گفٹس خریدنے میں مصروف تھے۔ ہم جھیل کے کنارے ایک ہوٹل میں داخل ہوئے جہاں سے ہم جھیل کی پوری وسعت کا نظارہ کر سکتے تھے۔ چنانچہ یہاں ہم بیٹھ کر جھیل کا نظارہ کرنے لگے اور ادھر جب ہوٹل والوں کو معلوم ہوا کہ ہم لوگ ہزاروں میل دور سے جھیل کا نظارہ کرنے آئے ہیں تو بہت خوش ہوئے اور فوراً ایک فری گائیڈ ہمارے سامنے لا کھڑا کیا جو ہمارے ساتھ بیٹھ کر جھیل کے بارے میں بہت ساری باتیں بتانے لگا اس نے بتایا کہ اس جھیل کے ساتھ بے شمار پراسرار کہانیاں وابستہ ہیں۔ وہ بتانے لگا:

آپ جھیل کی وسعت پر نظر ڈالیں اس کے اوپر پہاڑیوں کا نظارہ کریں اس کے گرد دور تک پھیلی وادی دیکھیں اور اس میں خوبصورت گھنے جنگلات کا منظر دیکھیں آپ جب ان جنگلات کی کھپاؤں پر نظر ڈالیں گے تو یہ سب کتنے دلفریب دکھائی دیتے ہیں۔ آج ان نظاروں کو دیکھنے کے لیے انسانوں کا سیلاب امڈا رہتا ہے کوئی دن ایسا نہیں آتا جب یہاں دنیا کے ہر کونے سے لوگ نہ آئے ہوں۔ یہ سارا علاقہ کبھی ویران تھا اوپر گھنے جنگل جو چڑیلوں کا مسکن معلوم ہوتے تھے نیچے اتنی بڑی جھیل جن پر پراسرار روحوں کا راج تھا یہ اس زمانے کی بات ہے۔

انہی دنوں اس جھیل کے جنوبی طرف نو سروں والا ایک ڈریگن رہتا تھا جو راہگیروں اور مسافروں کو تنگ کرتا۔ میری نظر فوراً دادا رحمن پر پڑی۔ گائیڈ نے اپنی بات جاری رکھی۔ لوگ ڈر کے مارے ادھر کا رخ نہ کرتے۔ وہ اس کی حرکتوں سے پریشان تھے آخر کچھ لوگ پادری منگن کے پاس گئے اور ان سے اپنی پریشانی کا اظہار کیا۔ پادری نے ان کی بات سن کر اور ان کی پریشانی دیکھ کر کلام بدھا کی تلاوت کی اور اس کے ساتھ ہی اس ڈریگن کی آتما پکڑ کر ایک درخت سے باندھ کر لٹکا دی۔

ڈریگن بہت عرصے تک چلاتا رہا آخر اس کو اس شرط پہ رہائی دی گئی کہ وہ مسافروں کو ڈرانے اور دھمکانے کی بجائے اس جھیل کی رکھوالی کرے گا ا ور بھٹکے ہوئے راہگیروں کی رہنمائی ان کی حفاظت کرے گا اگر وہ راہ سے بھٹک جائیں تو ان کی دل جوئی کرے گا اور اس جھیل کے پورے علاقے میں محافظ بن کر رہے گا۔ میرے دل میں خیال آیا۔ خربوزیاں دا راکھا گیدڑ۔

31 جولائی کی ہر شام کو وہ سامنے جھیل کے کنارے ہر سال میلہ لگتا ہے جس میں چاولوں کی کئی بوریاں سرخ پھلیوں کے ساتھ پکائی جاتی ہیں اور پھر راہب اس سارے سامان کو ایک کشتی میں رکھ کر جھیل کے عین وسط میں جا کر پانی میں پھینک دیتے ہیں۔ یہ اس ڈریگن کے لئے نذرانہ ہوتا ہے جو وہ سال بھر یہاں کے لوگوں کا راستہ آسان بناتا ہے یہ سارا سامان جھیل میں پھینکنے کے بعد کشتی والے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھتے اور سیدھا کنارے پر پہنچ جاتے ہیں۔ جیسے ہمارے ہاں صدقات کی چیزیں چھت پر پھینک کر پیچھے نہیں دیکھا جاتا۔ کیا اس سے ڈریگن مطمئن ہو جاتے ہیں۔

”نہیں۔ چاول اور سامان جھیل میں پھینکنے کے بعد یہ دیکھا جاتا ہے کہ آیا چاول جھیل کی تہہ تک ڈوب گئے ہیں؟ اگر ڈوب جائیں تو سمجھ لیں ڈریگن نے نذرانہ قبول کر لیا ہے اگر ایسا نہیں ہوتا تو معلوم ہونا چاہیے کہ ڈریگن کسی نہ کسی بات پر ناراض اور خفا ہے اس پر جو اردگرد جھیل کے جو لوگ رہتے ہیں ان کو اپنا بہت خیال رکھنا ہوتا ہے کہ وہ اس کے غضب کا نشانہ نہ بن جائیں۔

اس وقت لوگ بڑے ڈرے رہتے تھے وہ شام ہوتے ہی سورج غروب ہونے کے بعد دیے روشن کرتے اور جھیل میں چھوڑ دیتے۔ ہزاروں دیے جھیل پر روشن ہو جاتے۔ جھیل جگمگ کر رہی ہوتی اور ڈریگن کی آتما کو شانتی ملتی اور اس کا غصہ ٹھنڈا ہوجاتا۔

کیا نظارہ ہوتا ہو گا میں نے چٹرراج سے کہا۔ اس طرح کا نظارہ میں نے انڈیا میں دیکھا ہے کہ جہاں لڑکیاں اپنی آرزوؤں اور امنگوں سے وابستہ دیے ے جلا کر ندی میں چھوڑ دیتی ہیں اور جن لڑکیوں کے دیے دیر تک جلتے رہتے ہیں ان کی مرادیں پوری ہو جاتی ہیں اور اکثر مہیلائیں اسی آس کے سہارے زندگی بتا دیتی ہیں۔ یہ ساری رسومات ان کے سکون اور راحت کا سبب بنتی ہیں کچھ لوگ بے علمی سے ان رسومات کے درپے ہو جاتے ہیں کہ یہ جاہلانہ ہیں انہیں ختم کر دیں لیکن چٹراج یہ ان پر ظلم ہو گا جب تک آپ ان کی محرومیوں کا علاج نہیں کر لیتے تب تک ان کی رسومات نذرانے منتیں ختم نہ ہونے دیں یہ کتنی ہی جاہلانہ کیوں نہ ہوں ورنہ محرومیاں اسی طرح رہیں گی لیکن ان کی آس ٹوٹ جائے گی اور ان کا دلی سکون ختم ہو جائے گا۔

گائیڈ نے بتایا کہ اس علاقے میں محبت کی بے شمار کہانیوں نے جنم لیا۔ کہتے ہیں جب یہاں بادشاہوں اور جنگجوؤں کا راج تھا ایک جنگجو تھا جس کا نام یوری ماسا  تھا اس کا گھر ہاکونے میں اس جھیل کے کنارے پر تھا۔ وہ دربار کی ایک شہزادی کی محبت میں گرفتار ہو گیا۔ جس کا نام ایامی تھا لیکن وہ اس وقت شہنشاہ Tobaکی دل کی ملکہ اور اس کی دلچسپیوں کا مرکز تھی۔ آپ جانتے ہیں عشق کہاں چھپتا ہے۔ یوری ماسا کی کوشش تھی کہ اپنی محبت کا اظہار نہ ہونے دے لیکن اس کے کسی نہ کسی انداز سے اس امر کا دربار میں علم ہو گیا کہ وہ ایامی کو چاہتا ہے۔

ہوتے ہوتے شہنشاہ تک بھی یہ بات پہنچ گئی۔ اب خطرہ تھا کہ شہنشاہ کو جب اس کے جذبوں کا علم ہو گا وہ اس کو تہ تیغ کرا دے گا۔ محبت کا اظہار کرنا تو درکنار وہ اگر اس کا نام بھی لے لیتا تو زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتا۔ جب یوری ماسا سے اس کی محبت کے بارے میں پوچھا گیا تو اس کا رنگ فق ہو گیا وہ ایک لفظ بھی نہ بول سکا۔

بادشاہ نے دربار کی تین خواتین کو حکم دیا کہ وہ ایک طرح کے ملبوسات پہن کر آئیں ایک ان میں ایامی تھی تب بادشاہ نے غصے اور غیض و غضب کی بجائے بہت نرمی سے یوری ماساکو کہا کہ جانتا ہوں تم ایامی سے محبت کرتے ہو لیکن اگر تم ان میں سے اس کو پہچان جاؤ گے تووہ تمہارے حوالے کر دی جائے گی۔

یوری ماسا بے حد پریشان تھا اس نے تینوں کو نظر بھر کر دیکھا اور درج ذیل اشعار کہے
تالاب کی پتھریلی دیواروں پر کا فی پانی بہہ چکا ہے
گرمیوں کی بارش سے
کیسے ممکن ہے کہ معلوم ہو
آئرس پھول کون سا ہے

وہ بادشاہ کے خوف اور اپنی محبت کے اخفا کے لیے نام نہیں لینا چاہتا تھا۔ لیکن آئرس پھول کا دوسرا نام ایامی بھی تھا۔ بادشاہ نوجوان یوری ماسا کے شاعرانہ انداز سے اتنا متاثر ہوا کہ اس نے لیڈی ایامی کو بانہوں سے پکڑا اور اس طرح یوری ماسا کی طرف چلا کہ آنسو اس کی آنکھوں سے بہہ رہے تھے اور اس نے ایامی کا ہاتھ یوری ماسا کے ہاتھ میں یہ کہہ کر تھما دیا

”یہ تمہاری ہے یہ صرف تمہارے لیے ہے“

ہماری کوسٹر جھیل کے اوپر ان پہاڑیوں کی طرف روانہ تھی جنہوں نے اس جھیل کو چاروں طرف سے گھیرا ہوا ہے۔ ہاکونے کی دلکش جھیل کے چاروں اور سرسبز و شاداب پہاڑ ہیں۔ اس کی وادی بہت خوبصورت ہے جس کو دیکھنے ہزاروں لوگ آتے ہیں اور یہ ایک مقبول تفریحی مقام ہے۔ اس کے گرم پانی کے چشمے لوگوں کی دلچسپی کا باعث ہیں اور انہی چشموں کی وجہ سے انسانوں کا میلہ لگا رہتا ہے۔

ہماری کوسٹر سرسبز پہاڑیوں کی طرف دوڑ رہی تھی بادل دوبارہ گھر آئے تھے ہم چاہتے تھے کہ جلدی جلدی ان پہاڑوں کا حسن اور ان کے خوبصورت مناظر دیکھ کر ہم واپس ٹوکیو لوٹ جائیں کہ موسم پھر نہ خراب ہو جائے۔ سورج غروب ہونے میں اگرچہ ابھی کافی وقت تھا لیکن یہ نام کا سورج ہو تا ہے اکثر اوقات تو سارا سارا دن دکھائی نہیں دیتا۔ بس میں وہی شوروغوغا ہے جو ٹورز کا خاصہ ہوتا ہے۔ آدمی جو چاہے بات کرے گیت گائے رقص کرے گٹار بجائے تالیاں بجائے خاموش بیٹھا رہے، کوئی پابندی نہیں۔

کوسٹر میں موجود تمام لوگ اس دھماچوکڑی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں صرف ڈرائیور ہی اس ماحول سے کٹ کر بیٹھا ہوا تھا جس کا سٹیرنگ پر ہاتھ اور ٹریفک پر نظر تھی اس کے علاوہ کسی کو منزل کی یا منزل پر پہنچنے کی فکر نہیں تھی۔ ڈرائیور نے کوسٹر کو منزل کی طرف لے جانے کی تن تنہا ذمہ داری سنبھالی ہوئی تھی۔ اس کی ہوسٹس اس کی ہدایات کا بھی خیال رکھتی لیکن وہ بھی زیادہ تر اس امر میں کوشاں تھی کہ مسافروں کو زیادہ سے زیادہ سہولت پہنچائے۔

وہ اندر بھاگی پھرتی تھی اور روڈ پر بس بھاگی جا رہی تھی کہ موسم آہستہ آہستہ شدید ہوتا گیا اور ہوا کے جھکڑ چلنے لگے۔ ہوا بس کی کھڑکیوں کے باہر چنگھاڑ رہی تھی لگتا تھا جیسے ابھی کھڑکیاں توڑ کر ۔ ایک گھنٹہ بعد جب بس جا کر رکی تو ہوا کی چنگھاڑ اس قدر دل دہلا رہی تھی کہ کوئی بھی نیچے اترنے کو تیار نہیں تھا آخر کار دادا رحمن اٹھے اور ساتھیوں کو للکار کر کہا ”ایسی کون سی بات ہے آئیں نیچے اتریں ہم پکنک کے لئے آئے ہیں بس میں بیٹھنے کے لیے نہیں۔

“ جونہی انہوں نے دروازہ کھولا تیز ہوا کے جھکڑ نے ان کے قدم لڑکھڑا دیے وہ ہوا کے اس اچانک حملے سے سنبھل نہ سکے اور نیچے روڈ پر دھڑام سے گرے۔ اس کی للکار دھری کی دھری رہ گئی اس کے گرنے کی وجہ سے تو سب پریشان ہو گئے وہ جو ہے کہ جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا۔ یہ دھج ان کو لے ڈوبی۔ جب ہوا کا شور اور طوفان کا دم خم کچھ مدھم ہوا تو دھیرے دھیرے سب لوگ باہر نکلنے لگے اور چیری اور صنوبر کے درختوں کا حسن دیکھنے کے لیے پہاڑیوں پر پھیل گئے۔

ہمارے سامنے خوبصورت منظر تھا ہمارے چاروں طرف سر سبز و شاداب پہاڑ چیری بلاسم کے درخت بہار کے منتظر کھڑے تھے۔ صنوبر اور بانس کے درخت ہوا میں جھوم رہے تھے آسمان ابر آلود تھا۔ نیچے ایک وسیع و عریض جھیل اس کے گرد ہوٹلوں ریستورانوں اور گھروں کی بے پناہ روشنیاں اور سامنے دور تک پھیلی ہوئی خوبصورت وادی۔ دل کہتا تھا کہ یہاں خیمہ لگا کر باقی زندگی گزار دیں۔ ہم سب چلتے چلتے بس سے کافی دور آ گئے تھے اور ان حسین مناظر فطرت میں کھوئے ہوئے تھے جب ہم جھیل سے روانہ ہوئے تھے تو ابھی سورج کی کرنیں اپنی آب و تاب میں تھیں لیکن اب بادل گہرے ہوتے جا رہے تھے ہوا بھی تیز ہو گئی تھی۔

ہوا کی سائیں سائیں درخت جھوم رہے تھے اگرچہ سب نے مناسب گرم کپڑے پہنے ہوئے تھے لیکن کپکپاتی سردی میں ٹھٹھرتے جسموں کے ساتھ سردی کا سامنا دوبھر ہو رہا تھا۔ بادلوں کا طوفان امڈ پڑا تھا ادھر ہوا کے تھپیڑوں میں خود کو سنبھالنا مشکل ہو رہا تھا۔ ہم میں سے کون تھا جو ہوا کے تیز جھکڑ میں نہ گرا ہو یا کسی پتھر سے ٹھوکر نہ کھائی ہو۔ ایک تو دکھائی کچھ نہیں دے رہا تھا دوسرا سخت سردی نے بے جان کر دیا تھا۔ ہم تیز قدموں سے واپس آرہے تھے لیکن اگرچہ سورج غروب ہونے کو تھا لیکن گہرے بادلوں کی وجہ سے کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔

اگر یہ پروگرام انسٹیٹیوٹ والوں نے بنایا ہوتا تو ہر طرح کا انتظام ہوتا۔ روشنی کا انتظام بھی ہوتا، سردی سے بچاؤ کا بھی۔ یہ پروگرام تو ہم نے خود بنایا تھا اور اس کے انتظامات بھی خود کیے تھے۔ مس چن جو اس قافلے کی روح رواں تھی وہ خود سردی سے کپکپا رہی تھی۔ ادھر شالوں کا تو رواج نہیں تھا کہ ہم اپنی شال اتار کر اسے دے دیتے۔ کوٹ تو اس نے پہنا ہوا تھا

”مس چن۔ آج اگر آپ میرے ملک میں ہوتیں تو آپ کو یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔“ وہ حیران ہو کر بولیں۔ ”وہ کیسے؟ کیا وہاں ٹھنڈی ہوائیں رک جاتیں؟ کپکپاتی سردی ختم ہو جاتی یا بادلوں کا طوفان سمٹ جاتا؟“ ۔ نہیں نہیں چن۔ ہم آپ کو شالوں میں لپیٹ لیتے۔

چٹرراج بولا ”اب کچھ نہیں ہو سکتا اب ہم تیزی سے بس کی طرف چلتے چلیں“ ۔ اس وقت تو نظارے کے شوق میں ہم کہیں سے کہیں پہنچ گئے تھے لیکن اب جب طوفان نے آ گھیرا تھا تو تمام نظارے بھول گئے تھے اور اپنے آپ کو بارش کی تندی اور سردی کی لہر سے بچانے کی فکر میں دوڑے جا رہے تھے۔

اچانک میں رک گیا اور سب دوستوں کو کہا کہ ”ہم جو حسین نظارہ دیکھنے آئے تھے وہ سب کچھ بھلائے بھاگے جا رہے ہیں۔ کیا ہم پر پتھروں کی بارش ہو رہی ہے۔ ہم کیوں نہ رک کر اپنے چاروں اور دیکھیں کہ اس وقت دونوں پہاڑ کیا منظر دکھا رہے ہیں۔ جھیل پر پڑتی بارش کیا سماں پیش کر رہی ہے۔ یہ جو بجلی کوندتی پھرتی ہے اس کی روشنی میں دیکھیں چیری اور بانس کے درخت کس طرح دو زانو ہو کر جھوم رہے ہیں اور موسم اس کی شدت کا مقابلہ کرنے کے لئے صنوبر کس طرح خم ٹھونک کر کھڑے ہیں۔

چٹر راج نے کہا ”بھائی شاعری مت کرو سردی اتنی ہے کہ اگر ہم ٹھہر گئے تو منجمند ہو جائیں گے چلتے چلو۔“

مسٹر لعلوانی چٹر راج صحیح کہہ رہے ہیں سردی کی شدت لمحہ بہ لمحہ بڑھ رہی ہے یہ وقت رکنے کا نہیں۔ مس چن نے سردی سے کانپتے ہوئے کہا وہ میرے قریب آ گئی اور مجھے بازو سے کھینچ کر چلنے لگی۔

دادا اتنے میں بولا کہ میں بھی ان کے ساتھ رک جاتا ہوں۔
آپ کا بازو تو میں کھینچنے سے رہی۔ وہ کھلکھلا کر ہنسی۔ وہ دادا کا مطلب سمجھ گئی تھی۔

اچانک ایک شجر تڑاخ سے گرا ہم لوگ اس کے نیچے آنے سے بمشکل بچے لیکن ہمارے پیچھے آنے والے پانچ چھ ساتھی اس کے نیچے آ گئے اور چیخ و پکار شروع ہو گئی۔ دکھائی تو کچھ دے نہیں رہا تھا آوازوں سے ہی ہم ریسکیو کا کام کر رہے تھے لیکن شکر ہے کہ تنے کے نیچے کوئی نہیں آیا۔ سارے شاخوں کے نیچے آ گئے تھے اس لیے خراشیں اور معمولی چوٹیں آئی تھیں۔ ہم جلد ان کو بہ حفاظت ریسکیو کر اکر آگے چل پڑے۔ ادھر درخت گرنے کی آواز سے دادا کا پاؤں پھسلا اور وہ پیچھے آنے والی مسز سمبرانو پر جا پڑا۔ مسز سمبرانو بھی گرتے گرتے بچی۔ البتہ انہوں نے خود کو اور دادا کو سنبھال لیا۔

”مسٹر لعلوانی آپ اپنی امانت کو سنبھالیں۔ درخت گرنے سے پریشانی تو بہت ہوئی لیکن خوشی کی بات ہے کہ ہم محفوظ رہے“ ۔ مسز سمبرانو نے مقدس کلمات کا ورد کرتے ہوئے کہا۔ دادا رحمن۔

”مسز سمبرانو خدا کا شکر ادا کرو کہ آپ بچ گئیں اور درخت کی جگہ دادا رحمن آپ پر آ گرا وہ بھی بے ضرر سا آدمی آپ کی طرح ایک عبادت گزار شخص۔“

”اس سے بہتر تھا کہ مجھ پر درخت آ گرتا“ ۔ اس نے ہنستے ہوئے کہا۔ ”اس سے تو جان چھڑا لیتی لیکن ان سے جان چھڑانا مشکل دکھائی دے رہا ہے۔ لگتا ہے وہ بیگ والی بات نہیں بھولی تھیں۔

ہم پھونک پھونک کر قدم رکھتے ہوئے بس کی طرف جا رہے تھے کیونکہ کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ ہوا بھی بہت تیز تھی اور بارش کی بوچھاڑ منہ زور جس کے آگے ٹھہرنا مشکل محسوس ہو رہا تھا۔ آسمان پر بجلی چمکتی پھر اندھیرا چھا جاتا۔ مجھے زمانہ جاہلیت کے عظیم عرب شاعر امرؤالقیس کے الفاظ یاد آرہے تھے۔

بجلی کی چمک دیکھ کر
اندازہ ہوتا ہے
کہ ابر کی بوچھاڑ
دائیں جانب کوہ قطن پر تیر رہی ہے
اور بائیں طرف کوہ ستا ر اور کوہ ہذبل تک مار کر رہی ہے
رات کو کوندتی ہوئی بجلی نے مجھے سونے نہیں دیا
اس کی چمک قلعہ کہسار پر روشنی کرتی رہی

ادھر بھی یہی کیفیت تھی کہ ”آسمانوں پر بجلیاں کوندتی پھرتی ہیں۔ بادل جم کر برس رہا ہے ہوا کی وہی تندی و تیزی ہے۔ بارش کی بوچھاڑ ہمارے جسموں پر تھپیڑے مار رہی ہے۔ گھٹا ٹوپ اندھیرا ہے۔ بجلی چمکتی ہے تو راستہ دکھائی دیتا ہے ورنہ خطرہ ہے کہ پہاڑی کے پیچ و خم میں راستہ کے نشیب و فراز میں پیر نہ پھسل جائے اور بس تک پہنچتے پہنچتے کہیں اور نہ پہنچ جائیں۔ اس وقت سارا منظر تکلیف دہ اور خوفناک دکھائی دے رہا ہے۔

“ وہ تو ایک معجزہ تھا ہم زندہ سلامت بچ گئے اور خدا خدا کر کے بس تک پہنچ گئے۔ آج وہ باتیں یاد آ رہی ہیں تو بھلی لگ رہی ہیں۔ لگتا ہے انسان صرف مستقبل کے خوابوں کے ساتھ زندہ نہیں رہتا اسے گزرے ہوئے ایام کی یاد بھی زندہ رکھتی ہے۔ یادیں انسان کا بہت بڑا سرمایہ ہیں یہ یادیں انسان کو آج کی تکلیف دہ پریشانیوں سے نکال کر کچھ دیر کے لیے خوش رنگ وادیوں میں لے جاتی ہیں اور جب یہی یادیں بچھڑے ہوؤں کی یاد دلاتی ہیں تو نشتر بن جاتی ہیں لیکن زندگی کے یہ عجیب تضادات ہیں کہ چبھن کے باوجود بھی یہ یادیں بھلی لگتی ہیں اور تقویت کا باعث بنتی ہیں اور انسان انہی یادوں کے سہارے زندہ رہتا ہے اور زندگی کا صحرا عبور کر جاتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments