ایک بے حیا و گستاخ بیٹی کا اپنے قادر مطلق سے شکوہ


شکوہ و شکایت کی زبان کسی حد تک ”کروڈ یا وئیرڈ“ ضرور ہوتی ہے مگر کلیئر کٹ، ”اگر مگر“ سے ماورا اور ٹو دی پوائنٹ ہوتی ہے۔ یہ بندے اور خالق کے بیچ ایک طرح کا مکالمہ ہوتا ہے، ہمیں بہرحال اعتراض، فتویٰ بازی یا مورل پولیسنگ سے احتراز برتنا چاہیے۔ انٹرنیشنل ویمن ڈے پر ایک مشرقی بیٹی قادر مطلق سے مخاطب ہے جس کی رینکنگ و ریکنگ پیدائش کے وقت سے ہی شروع ہو گئی تھی اور اب تک جاری ہے مگر افسوس وہ خود کو مکمل طور پر سماجی پیمانوں کے مطابق نہیں ڈھال پائی، جیسے جیسے عمر بڑھ رہی ہے معاشرتی تقاضے بھی بڑھتے چلے جا رہے ہیں اور اسے یوں لگتا ہے کہ وہ مرتے دم تک بھی شاید ان تقاضوں کو پورا نہیں کر پائے گی۔

وہ اپنے حصے کی بریدنگ اسپیس تلاش کرتے کرتے اس قدر نڈھال ہو چکی ہے کہ اس کے پاس خود کے وجود کے لیے بھی وقت نہیں بچتا، معاشرتی تقاضوں کے پیچھے بھاگتے ہوئے وہ خود کلامی کے انداز میں بڑبڑاتے ہوئے خود سے کہتی ہے کہ

اس کا یہ ٹراما فیز کب ختم ہو گا؟ پہلے ماں باپ کے گھر کا ٹراما اور اب بعد میں سسرال کے گھر میں گیس لائٹنگ کی صورت میں ایک نہ ختم ہونے والا تسلسل، میں سوچتی ہوں کہ خود کو ریکور، ڈسکور، ری ہیب یا خود کے متعلق ری تھنک یا خود کے لئے سیلف ہیلپ کا سامان کیسے کروں؟

میرے پاس تو اتنا ٹائم بھی نہیں بچتا کہ میں فرصت میں بیٹھ کر اتنا بھی سوچ سکوں کہ سیکس میری ضرورت ہے یا بدنامی کا دھبہ؟

یا تخلیق کار سے فرصت میں سوال ہی کر سکوں کہ میرے جنسی اعضاء میرے لئے شرمندگی و حقارت کا سبب کیوں بن جاتے ہیں؟

جبکہ مرد بھلے نامرد ہی کیوں نہ ہو وہ بہرحال مجازی خدا ہی کہلائے گا اور اس کی مردانگی پر کوئی حرف بھی نہیں آئے گا۔

جس کے آگے اف تک کہنے کی اجازت نہیں یا بار بار کی یک طرفہ جنسی تذلیل کے باوجود وہ چھپ چھپا کے جو مرضی کرتا پھرے مرد ہی کہلائے گا مگر میرے کسی کے ساتھ ہنسی کے دو بول ہی گلے پڑ جاتے ہیں اور انسان سے رنڈی، گشتی اور طوائف بنا دیا جاتا ہے آخر ایسا کیوں؟

میرے نازک کندھوں پر پورے سماج کی عزت کی ٹھیکیداری کا بوجھ کیوں ڈالا گیا؟

مجھے اتنا کمزور اور ناتواں کیوں بنایا کہ جسے شادی کی رات مکمل بناؤ سنگھار کے ساتھ ایک لبھانے والی رجسٹرڈ دوشیزہ و سیکس ورکر کے طور پر شوہر سرکار کے حضور پیش کیا جاتا ہے؟

اگر میں جیتی جاگتی گوشت پوست کی انسان ہوں تو پھر بناؤ سنگھار کی صورت میں وقتی سا ”فیک جیسچر“ کا تکلف کیسا؟

اگر میری جھلک سے زلزلے یا آفات نازل ہوتی ہیں تو پھر میری تخلیق کا کیا مقصد؟
اگر میری ابھری ہوئی چھاتیاں اور ٹانگوں کے درمیان وجائنا
کسی کے ایمان میں خلل یا نقص کا سبب بنتی ہے تو اس میں میرا قصور کیا ہے؟
اگر میری حیثیت آدھی ہی رکھنی تھی تو تخلیق کا تکلف کیسا؟
جنسی خواہش اگر پیدائشی جبلت ہے تو جنسی خواہش کے اظہار و تسکین کے پیمانے میرے لیے مختلف کیوں؟

میرا وجود اتنا معیوب کیوں کہ جس کے ساتھ بد چلن ہونے کا صیغہ بڑی سہولت کے ساتھ لگا دیا جاتا ہے اور کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا؟

اگر وجود میرے خود کا ہے تو میرے اچھے یا برے ہونے کا فیصلہ یا پیمانے مرد کیسے طے کر سکتا ہے؟
اگر میرے وجود پر میرا ہی اختیار نہیں تو پھر میری خود کی کیا حیثیت ہے؟
اگر میں اپنے حصے کا سچ لکھ بول نہیں سکتی تو زبان و احساسات کا تکلف کیسا؟

اگر مرد کی جنسی ترجیحات پر کسی کو اعتراض نہیں تو میری جنسی ترجیحات کو مشکوک ذہنیت سے کیوں دیکھا جاتا ہے؟ مرد کے غیر محتاط رویے کا خمیازہ بھی مجھے حلالہ کی صورت میں بھگتنا پڑتا ہے جبکہ مرد پر کوئی قدغن نہیں آخر کیوں؟

مجھے اپنے مرد کا بستر ہر حال میں گرم کرنا ہے چاہے میں کتنی ہی بیمار کیوں نہ ہوں کیا میری رضا و خواہش
کی کوئی حیثیت نہیں ہے؟ میری نافرمانی پر مجھے
فرشتوں کی لعنت و ملامت کا درس اور اگر مرد میری نافرمانی کرتا ہے یا دھوکہ دیتا ہے تو اس کا کیا؟

میری نافرمانی پر مرد کو مجھے مارنے اور بستر تک الگ کرنے کی اجازت جب کہ مجھے ہر حال میں اس کی مردانگی کا بھرم رکھنا ہے اور جی حضوری اختیار کیے رکھنی ہے آخر کیوں؟

مجھے اپنے فیصلے کی تصدیق و تائید کے لئے ہمیشہ مرد کی طرف دیکھتے رہنے پر مجبور کیوں کیا جاتا ہے؟

قادر مطلق تیرے بندوں کے مطابق اگر مجھے مکمل آزادی دی گئی تو میں ننگی گھومنے لگوں گی اور میرے کئی کئی سیکس پارٹنر ہوں گے، میرا سوال ہے کہ

کیا میرا وجود محض سیکس مشین ہے یا میں ایک جیتی جاگتی انسان بھی ہوں؟ کیا میرے وجود میں ایک دھڑکنے والا دل نہیں ہے جس میں دوسرے انسانوں کی طرح خواہشات، احساسات اور ارمان بستے ہیں؟ مجھے حیرت ہوتی ہے یہ سوچ کر کہ ہمارے معاشرے کے مرد ہمارے متعلق اتنے مکروہ انداز میں کیسے سوچ لیتے ہیں؟ حالانکہ یہ سب بھی بیٹیوں، بہنوں اور ماں والے ہوتے ہیں کیا میں پوچھ سکتی ہوں کہ ان کی سوچ ان کے متعلق بھی یہی ہوگی؟

پھر تو ایسے معاشرے کو تباہ ہو جانا چاہیے جہاں اس قدر گھٹیا قسم کا ٹرسٹ ڈیفیسٹ ہو۔
کیا میرا جرم یہ ہے کہ میں بیٹی پیدا ہوئی ہوں مگر اس میں میرا کیا قصور؟

قادر مطلق میرا حوصلہ تو دیکھ تونے مجھے جس سماج میں پیدا کیا ہے وہاں جنسی بھوک مٹانے کے لئے مردوں کو دوسروں کی بیٹیاں تو چاہئیں مگر خود کی بیٹی گوارا نہیں، اگر اتفاق سے پیدا ہو بھی جائے تو بوجھل دل کے ساتھ پرایا دھن سمجھتے ہوئے چار و ناچار پرورش کی جاتی ہے۔ مجھے اتنا لاچار و بے بس کیوں بنایا ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments