اپنی پرانی ذات کے نام ایک خط


اسلام علیکم

امید ہے تم ٹھیک ہو گی جانے کیوں آج صبح سے مجھے تمھاری بہت یاد آ رہی ہے ایسے میں دل چاہا کہ تمھیں تلاش کروں، تمھاری کھوج میں نکلوں۔ تم جو میرے اندر کہیں گم ہو گئی ہو، تمھیں اپنے گزرے ہوئے کل سے نکال کر آج کی دنیا کے سامنے کھڑا کر دوں اور بتاؤں کہ یہ ہے میرا وہ اصل جو تعلقات نبھاتے ہوئے مروت کی بھینٹ چڑھ گیا، جسے رشتوں کے زہریلے سانپ ڈس گئے۔ آج میرا دل بہت دکھی ہے اور میں تم سے اپنا ہر وہ دکھ کہنا چاہتی ہوں جو صدیوں سے میرے سینے میں کہیں دفن سلگ رہا ہے یہاں تک اس کی تپش میرے وجود کو گلا گئی۔

میں آج تمھیں وہ زمانہ یاد کروانا چاہتی ہوں جب تم دل سے ہنستی تھیں اور کھل کر روتی تھیں۔ وہ وقت جب تمھاری ہنسی کسی بھی قسم کی بناوٹ سے پاک تھی جب تم کسی سے نہ ڈرتی تھیں اور بنا نتیجہ کی پرواہ کیے ہر بات سب کے سامنے بے دھڑک کہہ دیا کرتی تھیں۔ یاد کرو وہ وقت جب تم محبت کو کوئی اہمیت نہ دیتی تھیں۔ یاد ہے نا تم کہتی تھیں محبت فارغ لوگوں کا مشغلہ ہے اس وقت تم سے محبت کرنے والے تمھارے چاروں طرف موجود تھے جو تمھاری آک جنبش پر اپنی جان لٹانے کو تیار ہوتے تب تم نے ان کی قدر نہ کی اور آج جب تم محبت کی اہمیت سمجھی ہو، جب تمھیں محبت کی ضرورت ہے وقت نے تمھیں تنہا کر دیا اور محبت تم سے روٹھ گئی۔

دیکھو ڈرو نہیں اور آج دل سے یہ اعتراف کرلو کہ محبت فارغ لوگوں کا مشغلہ نہیں ہے یہ تو ایک بہت ہی خوبصورت جذبہ ہے جو ہر کسی کو نصیب نہیں ہوتا مگر اب وقت گزر گیا اور ان باتوں کو دہرانے کا کوئی فائدہ نہیں اس لئے جانے دو۔ محبت کو گولی مارو اور یاد کرو وہ وقت جب لوگ تمھاری ذہانت کے گن گاتے تھے اور تم کسی کو خاطر میں نہ لاتیں تھیں اور آج تم ان ہی لوگوں کی تلاش میں ہو جو تمھاری بے اعتنائی کے سبب کہیں گم ہو گئے۔

دیکھو میری بات کا برا مت ماننا مگر تم بہت مغرور تھیں اس لئے وقت نے تم سے سب کچھ چھین لیا تمھیں سراہنے والے وقت کی گرد میں کہیں کھو گئے اب تم چاہ کر بھی انہیں تلاش نہیں کر سکتیں۔ جانتی ہو نا بدلتے وقت نے تمھاری ذہانت کو تمھارے لئے سزا بنا دیا ہے۔ تم جو سمجھتی تھیں یہ دنیا تمھارے ایک اشارہ کی غلام ہے، تم جو کہتی تھیں عورت آزاد ہے تو دیکھ لو وقت نے تمھاری اس غلط فہمی کو بھی دور کر دیا۔ اب شاید تمھیں احساس ہو گیا ہو گا یہ دنیا ذہین عورتوں سے نفرت کرتی ہے اور انہیں جینے نہیں دیتی۔

ایک وقت آتا ہے جب تمھاری ذہانت کے دشمن تمھارے اپنے ہو جاتے ہیں اور تمھارے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا ویسے بھی عورت کی زیرک نظری کسی کو نہیں بھاتی اس لئے تمھیں سمجھایا تھا ہر معاملہ میں خود کو عقل مند اور سیانا سمجھتے ہوئے دوسروں کو بیوقوف نہ سمجھا کرو بلکہ ضرورت کے وقت بیوقوف بن جایا کرو اسی میں تمھاری بھلائی تھی مگر نہ جی تم تو اپنے تئیں خود کو بہت چالاک اور ہوشیار سمجھتی تھیں جہاں لگتا کوئی جھوٹ بول رہا ہے جھٹ سے ٹوک دیا کرتیں، کسی کی غلط بات تم سے برداشت نہ ہوتی تھیں، دوسروں کی ذات کی برائیاں ان کے منہ پر کھٹ سے کہہ دینے کی بیماری تھی تمھیں اور اسے تم بہادری سمجھتی تھی اب بتاؤ بھلا تم نے ان باتوں سے کیا حاصل کیا سوائے اپنی ذات کے خسارہ کے؟

کیا ملا ہے تمھیں؟ تمھاری خوبصورتی اور ذہانت کس کام آئی جب اسے کوئی قدردان ہی نہ ملا؟ وہ محبت کا پودا جو تمھارے دل کے اندر کہیں اگا تھا اسے سیراب کرنے کو پانی نہ ملا اور وہ تمھارے اندر ہی تمھارے دل کی طرح مر گیا اور جب دل مر جائے تو انسان جیتے جی مر جاتا ہے تو اعتراف کرو تم مر چکی ہو اور میں اپنے اندر وہ نوحے تلاش رہی ہوں جو تمھاری موت پر میرے چاروں طرف رقصاں ہیں۔ میرا دل اندر ہی اندر تمھاری موت پر رو رہا ہے کیونکہ ایک ذہین عورت کی موت پر دنیا ہنستی ہے اور دنیا کی اس ہنسی سے بچنے کے لئے میں تمھیں کھوجنے نکلی تھی مگر افسوس تم تو میرے اندر کب کی مر کھپ گئی ہو اس لئے تمھاری تلاش کا کوئی فائدہ نہیں

اللہ حافظ۔
جب تک زندہ ہوں تمھیں یاد رکھوں گی
فقط
وقت کی کہانیوں میں الجھی تمھاری اپنی ذات
نفیسہ سعید

نفیسہ سعید
Latest posts by نفیسہ سعید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments