سمیع چوہدری کا کالم: ’کپتانی کرکٹ سے بھی بالا تر ہے‘


چیمپئینز ٹرافی 2017 کے پہلے ہی میچ میں جب انڈیا نے پاکستان کو ہزیمت اور خفت کی انتہائیں دکھا دیں تو رہی سہی اوس بھی پاکستانی شائقین کے ارمانوں پہ پڑ گئی۔

پاکستان کی ون ڈے کرکٹ تب وہاں کھڑی تھی کہ چیمپئینز ٹرافی کی کوالیفکیشن کے لیے جتن کیے جا رہے تھے، کوچ اور کپتان آزمائے جا رہے تھے اور سوال صرف یہ تھا کہ کوالیفکیشن کی حتمی تاریخ تک اس ساری مہم جوئی کی جمع تفریق منافع میں ہو پائے گی یا نہیں؟

اور جب پہلے ہی میچ میں روایتی حریف نے تینوں شعبوں میں پاکستان کا ٹھٹھہ اڑا دیا تو ایک ٹی وی مذاکرے میں عظیم آسٹریلوی کپتان ایئن چیپل سے پوچھا گیا کہ اگر وہ سرفراز کی جگہ ہوتے تو آگے کیا کرتے۔

چیپل نے بتلایا کہ اگر وہ سرفراز کی جگہ ہوتے تو تمام انواع کے کوچز اور تائیدی سٹاف کو ڈریسنگ روم سے باہر نکالتے، دروازہ بند کرتے اور اپنی ٹیم سے مخاطب ہوتے کہ ’اب بتاؤ ہم اس ٹورنامنٹ میں کرنے کیا آئے ہیں؟‘

چیپل کا یہ جملہ بحرانوں سے نمٹنے کے خواہاں کسی بھی کرکٹ کپتان کے لیے بہترین کلید ہو سکتا ہے۔ کرکٹ ایسا کھیل ہے کہ یہاں پے در پے مشق سے بیٹنگ، بولنگ اور فیلڈنگ پہ تو مہارت حاصل کی جا سکتی ہے مگر تاحال ایسی کوئی مشق دریافت نہیں ہو پائی جو کسی عظیم کرکٹر کو ایک کامیاب کپتان بھی بنا دے۔

کامیاب کپتان اپنی سرشت میں ہی کپتان ہوتا ہے۔ قیادت کی خوبی ہے کہ اوائل عمری کی لاشعوری سیکھ میں ہی اگر کہیں کسی کے ذہن میں رچ بس جائے تو بس جائے وگرنہ حواس کے ارتقا کی ایک نہج کے بعد، یہ کہیں زاںوئے تلمذ تہہ کر کے سیکھی نہیں جا سکتی۔

کامیاب کرکٹ کپتان وہ نہیں ہوتا جسے صرف کھیل کی بنیادی تکنیک سے ہی غرض ہو، بلکہ وہ جو کیفیات کو بھانپنے اور ان کے برمحل استعمال سے بھی واقف ہو، جو محض بیٹنگ، بولنگ اور فیلڈنگ کی باریکیاں ہی نہیں، کھیل کے سبھی محرکات کی نبض پڑھنا جانتا ہو۔

حالیہ پی ایس ایل سیزن پاکستان کرکٹ کے لیے خوش بخت رہا ہے کہ کئی ایک لائق کپتان ابھر کے سامنے آئے ہیں۔ محمد رضوان نے جس طرح اپنے محدود اور نوآموز فاسٹ بولنگ وسائل کا استعمال کیا ہے، وہ قابلِ داد ہے۔

اسی طرح شاداب خان نے یونائیٹڈ کے خمیر میں جو جارحیت کی تازہ روح پُھونکی ہے، وہ اک بے ثمر کھوج میں بھٹکتی پاکستان کرکٹ کے لیے کسی نوید سے کم نہیں۔ شاداب کی خوبی ہے کہ ان کے ہاں سیکھنے کی جستجو کبھی ماند نہیں پڑتی۔ وہ صرف اپنی ہی نہیں، حریفوں کی بھی خوبیوں خامیوں سے کھیلنا جانتے ہیں۔

اور کئی اہم ترین مواقع پہ تو شاہین شاہ آفریدی میں بھی ایک جینئس کپتان کی جھلک نظر آئی ہے۔ نہ تو بولنگ میں وہ کبھی جارحیت کا اظہار لب و لہجے سے کرتے ہیں اور نہ ہی تناؤ کے ہنگام جذبات سے مغلوب ہوتے ہیں۔

یہ صلاحیتیں کسی بھی کامیاب کپتان کے لیے ایک اثاثے سے کم نہیں۔

کرکٹ کھیلنا اور کھیل کی چال طے کرنا دو یکسر الگ معاملات ہیں۔ اگر کوئی اچھا کرکٹر کامیاب کپتان نہیں بن پاتا تو یہ ہرگز اس کی کرکٹنگ صلاحیتوں کی نفی نہیں ہے۔

سنیل گواسکر اور کپل دیو کی کرکٹنگ عظمت سے کون انکار کی جسارت کر سکتا ہے مگر بطور کپتان وہ یکسر کامیاب ثابت نہ ہوئے۔ کیا اس سے ان کی عظمت میں کمی آ گئی؟ ہر گز نہیں، لیکن یہ دلیل غور طلب ہے کہ اگر وہ اس بے کار کے جھنجٹ میں پڑے بغیر اپنا سارا کریئر فقط اپنی بہترین کرکٹ کی نذر کرتے تو آج ان کے اعدادوشمار کی ضخامت کچھ اور ہو سکتی تھی۔

سر گیری سوبرز، جاوید میانداد، ڈیوڈ گاور، سچن ٹنڈولکر اور مائیک گیٹنگ بھی اپنے ادوار کے عظیم ترین کھلاڑی رہے ہیں مگر بطور کپتان ان کے ریکارڈز ناگفتہ بہ ہیں۔

پی ایس ایل اقتصادی محاذ پہ تو اپنی کامیابیوں کے جھنڈے گاڑ ہی چکی ہے مگر اس بار نہایت خوش آئند پہلو رہا ہے کہ پہلی بار لوکل سرکٹ سے بلے بازی کے بہترین ٹیلنٹ کے ساتھ ساتھ کچھ بہترین کپتان بھی ابھر کر سامنے آ رہے ہیں جو آئندہ برسوں میں پاکستان میں پاکستان کرکٹ کو نئی جہتیں دکھا سکتے ہیں۔

گیند اب نجم سیٹھی کے کورٹ میں ہے جو سفارتی محاذوں پہ تو اپنا لوہا منوا ہی چکے ہیں مگر کیا اس تزویراتی ‘محاذ’ پہ بھی اپنی دانش سے دور تلک دیکھ پائیں گے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32290 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments