جمعیت طلبا کا ٹانگ توڑ راج: محمد حنیف کا کالم


میٹرک کا امتحان دے کر گاؤں سے لاہور شہر کی بتیاں دیکھنے آئے تھے تو پنجاب یونیورسٹی کا نیو کیمپس ایک نیا جہان لگتا تھا۔ میلوں چلتے جاؤ کیمپس ختم نہیں ہوتا تھا، نہ کوئی سکول والی وردی، نہ کوئی گیٹ، نہ کوئی چوکیدار۔ کینٹینوں پر بیٹھے چائے سموسے کھاتے لڑکے اور لڑکیاں، ہاسٹلوں میں لڑکوں کے اپنے کمرے۔

یونیورسٹی والوں سے تھوڑی واقفیت ہوئی تو پتہ چلا کہ ایک کی پٹائی ہوئی ہے کیونکہ اس نے اپنے ہاسٹل کے کمرے میں ایک ہالی ووڈ ایکٹریس کا پوسٹر لگا رکھا تھا، پھر ایک کی ٹانگ توڑی گئی کیونکہ وہ بیڈمنٹن کھیلنے لیے ٹائٹ نیکر پہننے کا شوقین تھا۔ پنجاب یونیورسٹی میں کبھی تعلیم تو حاصل نہ کر سکے لیکن یہ خبریں چلتی رہیں کہ مارشل لا ہو، جمہوریت ہو، پیپلز پارٹی آئے، نواز شریف یا چوہدری برادران، پنجاب یونیورسٹی میں جمعیت کا ہی راج رہا۔

طلبا تنظیموں پر پابندی لگی لیکن جمعیت کو کچھ فرق نہیں پڑا۔ جمعیت اتنی ہی پرانی ہے جتنا پاکستان۔ اس کا قیام بھی سنہ 1947 میں ہوا تھا۔ اور ان 75 سالوں میں شاید پاکستان فوج کی دہشت بھی اتنے تسلسل سے برقرار نہیں رہی جتنی پنجاب یونیورسٹی پر جمعیت کی۔

شاید اس دعوے میں کوئی مبالغہ ہوتا لیکن میرے شکی مزاج کو اس وقت یقین آ گیا جب جمعیت کے بھائیوں نے پوری قوم کے ہیرو اور ایک نوخیز سیاستدان عمران خان کو بھی ایک دفعہ کیمپس میں دھر لیا، ایک کمرے میں بند کر دیا۔ پتہ نہیں کس نے چھڑوایا لیکن یہ یقین ہو گیا کہ اگر جمعیت والے عمران خان سے نہ پیار کرتے ہیں نہ ڈرتے ہیں تو ہاسٹل کے کمروں میں بروک شیلڈ کی تصویر لگانے والوں، بلوچ کلچر ڈے منانے والے اور ہولی کی پچکاریاں مارنے والوں کا اللہ ہی حافظ ہے۔

Jamiat Talba

جمعیت والوں کا راج پنجاب یونیورسٹی سے نکل کر پورے ملک میں تو نہیں پھیلا لیکن بھائیوں نے ہماری نظریاتی ٹانگیں تسلسل سے توڑی ہیں

چند سال پہلے لاہور میں پنجاب یونیورسٹی کے کچھ نوجوانوں سے سرراہ ملاقات ہو گئی۔ پوچھا یونیورسٹی کیسی ہے۔ انھوں نے کہا کہ باقی سب تو ٹھیک ہے جمعیت والے بہت مارتے ہیں۔ میں نے کہا ’چالیس سال پہلے گاؤں سے آیا تھا تب بھی یہ سنا تھا اب تو میرا گاؤں بھی بدل گیا یونیورسٹی نہیں بدلی۔ آپ نوجوان لوگ ہیں کچھ کرتے کیوں نہیں۔‘ انھوں نے کہا ’آپ بڑے ہیں آپ ہی بتائیں کہ کیا کریں۔‘

میں نے بھی اپنے بڑوں سے ایک دفعہ پوچھا تھا کہ ’جمعیت میں اتنی کشش کیوں ہے اور اس کی مسلسل طاقت کا راز کیا ہے۔‘

میرے بڑے بائیں بازو کی ایک طلبا تنظیم کے مرکزی صدر رہ چکے تھے۔ انھوں نے بتایا کہ جو لوگ دیہاتوں اور چھوٹے شہروں سے لاہور جیسے بڑے شہر کی بڑی یونیورسٹی میں آتے ہیں وہاں لڑکے لڑکیوں کو چائے سموسے کھاتے دیکھتے ہیں، لڑکیاں انھیں لفٹ نہیں کراتیں، وہ دلگیر ہو کر جمعیت کا راج کرتے ہیں۔ پھر اپنی محرومیوں کا بدلہ لینے کے لیے چائے سموسے والوں کی ٹھکائی کرتے ہیں۔

Punjab University

میرے شکی مزاج کو اس وقت یقین آ گیا جب جمعیت کے بھائیوں نے پوری قوم کے ہیرو اور ایک نوخیز سیاستدان عمران خان کو بھی ایک دفعہ کیمپس میں دھر لیا

یہ بھی پڑھیے

کیا جوائے لینڈ دیکھ کر ہم سب ’گے‘ بن جائیں گے؟ محمد حنیف کا کالم

محمد حنیف کا کالم: ہمارا 145واں نمبر

محمد حنیف کا کالم: باجوہ ڈاکٹرائن کی ایک غلطی

یہ توجی مجھے نہ اس وقت سمجھ آئی تھی نہ اب سمجھ آنی ہے بلکہ مجھے ایسا لگا کہ بائیں بازو کے شہری دانشور اپنی تمام نالائقیوں کا ملبہ ہم دیہات سے شہر آنے والے لوگوں پر ڈال رہے ہیں۔

لیکن ایک سوال جس کا جواب نہ میرے پاس ہے نہ کسی بڑے دانشور نے دیا ہے کہ جمعیت ملک کی سب سے طاقتور طلبا تنظیم ہے۔ جمعیت کے رہنما آگے چل کر جماعت اسلامی کے مرکزی لیڈر اور امیر بھی بنتے ہیں لیکن جماعت اسلامی کبھی دو چار سیٹیں لے کر پارلیمنٹ میں پہنچ جاتی ہے اور دائیں بائیں دیکھتی رہتی ہے کہ کس کے کندھے پر سوار ہو کر اپنے بانی حضرت مودودی کا انقلاب لانا ہے۔

جوانی میں جمعیت میں ہیں تو آپ کی ہر طرف دہشت، تھوڑے بڑے ہو کر جماعت اسلامی میں پہنچے تو ٹھس۔ شاید جمعیت کے انقلابیوں اور بائیں بازو کے نوجوان میں یہ بات مشترکہ ہے کہ جوانی میں انقلاب آج آیا یا کل اور جب عملی زندگی میں قدم رکھتے ہیں تو ہر کسی کی طرح دھندے، پلاٹ اور گاڑی کے چکر میں ایسے پڑتے ہیں کہ پیٹ نکل آتا ہے۔ شوگر کے مریض بن جاتے ہیں اور انقلاب کی بات کرنے والوں کو مذاق اڑانے لگتے ہیں۔

پاکستان میں شاید ہی کوئی ایسا مرد ہو کہ جس نے غصے میں آ کر یہ نہ کہا ہو کہ میں تیری ٹانگیں توڑ دوں گا۔ لیکن جمعیت والوں کا یہ خاصہ ہے کہ وہ توڑ بھی دیتے ہیں۔ بلکہ ایک دوست جس کی ٹانگ ٹوٹتے ٹوٹتے بچی تھی اس نے بتایا کہ بہت رحمدل جمعیت والے یہ بھی پوچھ لیتے ہیں کہ دائیں والی توڑنی ہے یا بائیں والی۔

تو جمعیت والوں کا راج پنجاب یونیورسٹی سے نکل کر پورے ملک میں تو نہیں پھیلا لیکن بھائیوں نے ہماری نظریاتی ٹانگیں اس تسلسل سے توڑی ہیں کہ پوری قوم بس رینگ رینگ کر ہی چل سکتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments